جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5558 دن ہو گئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں شال سے سیاسی اور سماجی کارکنان در محمد بلوچ امام بخش بلوچ سمیت دیگر مرد خواتین کیمپ آگر ا ظہار یکجہتی کی ۔
دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس
چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ اگر تشدد کی مقدار کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ قابض کے پاس ہے شمار وسائل ہیں۔ در حقیقت قابض کو صرف مظلوموں پر تشدد ظلم جبر اور غلام رکھنے پر قدرت حاصل ہے۔ اور وہ اس طاقت کو کھلے عام اور بے دریغ استعمال کرتا ہے اب تک ہزاروں مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ بلوچ آبادیوں پر بمباری کی جا رہی ہیں۔ لیکن بلوچ نسل کشی کیسی ہوتی ہے آج دنیا کے سامنے دشمار مثالیں ہیں۔ جیسے بنگالیوں کا قتل ہم اپنے دور میں براہ راست پاکستان کے افواج کے ہاتھوں دیکھ چکے ہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کی پوزیشن بنگلا دیش کی نسبت زیادہ مستحکم ہے
ماما قدیر بلوچ نے کہا یےکہ پاکستان آج کہیں زیادہ طاقت رکھتا ہے اور اس طاقت کا کھلے عام استعمال کرتا ہے اور آنے والے وقتوں میں زیادہ وسیع پیمانے پر ظلم کریگا۔ تب یہ ظلم جبر منح شده لاشوں کی نسبت زیادہ سنگین اور بربریت پر مبنی ہو گا۔ قابض کا میڈیا اس سیاستدان
سمیت تمام ریاستی مشینری اس وقت خاموش ہے جب بلوچ کی لاشیں گر رہی تھیں اور ان گھروں پر بمباری ہو رہی لیکن آج تمام ریاستی مشینری چلا رہی ہے گہری تشویش کا اظہار کیا جارع ہے کہیں پر معصومیت اور ہمدردی کے گہرے جذبات کا اظہار کیا جاری ہے تو کہیں پر بلوچ قوم کو سجدہ مشورے دیئے جارہے ہیں ۔ جتنی شدت سے طاقت استعمال کی جارہی ہے سے اتنی شدت سے اُن کی ناکامی اُن سے قریب ہوتی جا رہی ہے وہ جتنا مارتے ہیں۔ لوگ اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نوجوان بیٹا شہید ہو جاتا ہے تو بوڑھا باپ میدان میں
آتا ہے اور ان کے معصوم بچے مستقبل کے پر امن جد جہد کے سپاہی بن جاتے ہیں.