سُمیہ بلوچ  خاموشی سے نکلتا ہوا ایک شور

تحریر: میرک مرید زرمبش مضمون

سُمیہ بلوچ خضدار کی مٹی میں پیدا ہونے والی ایک عام لڑکی تھی۔ اُس کی زندگی بھی باقیوں کی طرح معمولی ہو سکتی تھی ایک اسکول، ایک کنبہ، ایک سادہ سا خواب۔ لیکن جس زمین پر وہ پیدا ہوئی تھی، وہاں خواب دیکھنا جرم بن چکا تھا، اور سچ بولنا بغاوت۔ وہ بچپن سے ایک ایسے ماحول میں پلی بڑھی جہاں خوف، درد اور خاموشی زندگی کا حصہ تھے، نہ کہ کوئی حادثہ۔

بچپن میں ہی اُس نے اپنے باپ کو اُس دروازے سے نکلتے دیکھا جو کبھی واپس نہیں آیا۔ کوئی عدالت، کوئی ایف آئی آر، کوئی گواہی نہ تھی۔ صرف ایک ماں کے بہتے آنسو، اور دروازے کی طرف تکتی آنکھیں۔ سُمیہ نے دیکھا کہ کیسے اس کے بھائیوں کو راتوں کو اٹھا کر لے جایا گیا، کیسے ان کی آوازیں گم ہو گئیں، اور کیسے وہ گھر، جو کبھی قہقہوں سے گونجتا تھا، اب صرف سناٹے سے بھرا ہوا تھا۔

سُمیہ کے لیے یہ واقعات صرف ذاتی المیے نہ تھے، یہ اُس کی شناخت کا حصہ بن گئے۔ وہ جان گئی کہ کچھ لوگوں کے لیے انصاف کتابوں میں ہوتا ہے، اور کچھ کے لیے وہ صرف ایک کھوکھلا وعدہ ہوتا ہے۔ اُس کا بچپن ایک مسلسل تماشہ تھا: ریاستی طاقت، وردی والے سائے، اور ان گنت لاپتہ چہرے۔

ریاست نے اُس کے خاندان کو نشانۂ عبرت بنایا۔ پہلے اُن کے گھر پر چھاپے مارے گئے، پھر روزانہ کی تذلیل، نگرانی، اور سماجی تنہائی اُن کا مقدر بنی۔ خواتین کو تفتیش کے نام پر ہراساں کیا گیا، بزرگوں کو عدالتوں کے دھکوں میں دھکیلا گیا، اور بچوں کو مسلسل خوف میں پروان چڑھایا گیا۔ یہ صرف سزا نہیں تھی  یہ خاموشی مسلط کرنے کی ایک کوشش تھی۔ مگر سُمیہ خاموش نہیں رہی۔

جب اُس نے فدائی کاروائی کا فیصلہ کیا، تو یہ کوئی ایک لمحے کا جذباتی ردِعمل نہیں تھا۔ یہ اُس تکلیف، اُس محرومی، اور اُس سوال کا نتیجہ تھا جو برسوں سے اُس کے اندر پلتا آ رہا تھا۔ اُس نے بندوق سے نہیں، اپنے وجود سے آواز بلند کی۔ وہ خود مٹی میں ملی، مگر اپنے خون سے ایک ایسی لکیر کھینچ گئی جسے مٹانا ممکن نہیں رہا۔

اُس کے جانے کے بعد ریاست نے فوری ردعمل دیا۔ میڈیا میں خبریں آئیں، مگر اُن میں سچ نہیں، بیانیہ تھا۔ اُسے دہشت گرد کہا گیا، شدت پسند کہا گیا، مگر کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ وہ کون سی لڑکی تھی جو برسوں سے صرف اپنے باپ کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی۔ عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، کچھ دیر کے لیے جاگے، رپورٹیں لکھیں، اور پھر خاموش ہو گئے۔

مگر سُمیہ وہ نام ہے جو اب بھی زندہ ہے  ان آنکھوں میں جو خاموشی سے سوال کرتی ہیں، ان ماں کی چیخوں میں جو انصاف مانگتی ہیں، ان بہنوں کے خوابوں میں جو اپنی شناخت کے لیے لڑنا چاہتی ہیں۔ اُس کی موت ایک کہانی کا اختتام نہیں، ایک سفر کا آغاز تھی۔

ریاست اُسے بھول چکی ہو گی، میڈیا اسے دفن کر چکا ہو گا، لیکن مٹی جانتی ہے کہ وہ ایک بار چیخی تھی اتنی زور سے کہ وقت تک لرز گیا تھا۔

سُمیہ بلوچ اب ایک فرد نہیں، ایک علامت ہے۔
ایک ایسا نام، جو ثابت کرتا ہے کہ ظلم کے مقابلے میں خاموشی نہیں، مزاحمت ہی واحد جواب ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کوئٹہ: سریاب روڈ پر بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج کے سامنے پانی اور بجلی کی عدم دستیابی کے خلاف طلبہ کا احتجاج

منگل جون 24 , 2025
کوئٹہ، بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج سریاب روڈ کے ہاسٹل میں پانی اور بجلی کی طویل بندش کے خلاف طلبہ نے سڑک بلاک کرکے احتجاج کیا۔ طلبہ نے کالج کے سامنے مین سریاب روڈ کو بند کر دیا اور نعرے بازی کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہاسٹل میں فوری طور پر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ