
تحریر: ماہ نور بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچ سرزمین کی تاریخ کو اگر کسی ایک لفظ میں سمیٹا جا سکتا ہے، تو وہ ہے “قربانی”۔ یہ قربانی نہ صرف پہاڑوں میں لڑتے فدائیوں کی ہے، نہ صرف عقوبت خانوں میں سسکتے جوانوں کی، بلکہ ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی بھی ہے، جنہوں نے خاموشی کو مزاحمت میں بدلا۔ انہی جری بیٹیوں میں ایک انوکھی اور روشن مثال شہید سمیہ قلندرانی کی ہے، جو صرف ایک فدائی نہ تھیں، بلکہ ایک سوچ، ایک سوال، اور ایک اعلان تھیں۔
سُمیہ نے بلوچ قومی جدوجہد کو صرف ایک ہمدرد کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری کے طور پر اپنایا۔ ان کا سفر ایک عام لڑکی کے کمرے سے شروع ہو کر محاذ جنگ تک پہنچا وہ کمرہ جہاں سوال تھے، کتابیں تھیں، اور دیواروں پر لاپتہ افراد کی تصاویر۔
بلوچستان کے خطہ توتک میں جنم لینے والی سُمیہ، ان راستوں سے واقف تھیں جن پر کبھی ان کے اپنے خاندان کے لوگ گئے اور واپس نہ آئے۔ جب بچپن میں ان کی آنکھوں کے سامنے سے اُن کے بزرگوں کو اغوا کیا گیا، وہ لمحے ان کے لاشعور کا حصہ بن گئے۔ لیکن انہوں نے ان یادوں کو ماتم نہیں، تحریک بنایا۔
سُمیہ نے اپنی تعلیم اور فکر کو خاموشی کی نذر نہ ہونے دیا۔ انہوں نے حالات کو صرف بیان کرنے کے بجائے بدلنے کا ارادہ کیا۔ قلم ان کے ہاتھ میں تھا، لیکن ان کا دل مسلسل پوچھتا تھا: ’’کیا لفظ کافی ہیں؟‘‘
اسی سوال نے انہیں بلوچ لبریشن آرمی سے جوڑا۔ پہلے ایک فکری کارکن کے طور پر، پھر میڈیا ونگ میں ایک لکھاری کی صورت، اور آخرکار ایک فیصلہ کن قدم فدائی بننے کا اعلان۔ یہ کوئی جذباتی یا عارضی قدم نہ تھا۔ یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ تھا، شعور سے جنما ہوا عزم۔
چار سال تک وہ خاموشی سے تربیت حاصل کرتی رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ وقت آنے پر ان کا جسم ایک ہتھیار بنے گا، لیکن ان کا نظریہ ہمیشہ ایک پیغام رہے گا۔ 24 جون 2023 کو، تربت میں، وہ لمحہ آیا جس کے لیے انہوں نے زندگی کو تیار کیا تھا۔ انہوں نے دشمن پر فدائی حملہ کیا اور اپنے جسم کو ایک نظریہ میں ڈھال دیا۔
لیکن سُمیہ کی اصل پہچان ان کا حملہ نہیں، ان کا فہم ہے۔ انہوں نے بلوچ بیٹی کے کردار کو روایتی مظلومیت سے نکال کر انقلابی قیادت میں بدل دیا۔ وہ نہ صرف شہید فدائی ریحان بلوچ کی منگیتر تھیں، بلکہ جنرل اسلم بلوچ کی بہو بھی، جنہوں نے بلوچ تحریک کو عالمی سطح پر متعارف کروایا۔ لیکن سمیہ نے اپنی پہچان صرف ان رشتوں سے نہیں بنائی، بلکہ اپنی ذات سے تراشی۔
آج اگر ہم ان کی زندگی کو دیکھیں تو وہ ہمیں ایک ایسا آئینہ دیتی ہیں، جس میں ہم بلوچ عورت کی وہ تصویر دیکھتے ہیں جو سوال کرتی ہے، سوچتی ہے، اور قربانی دیتی ہے۔ وہ عورت جو میدان جنگ میں صرف کسی کی ماں، بہن یا بیٹی نہیں، بلکہ خود ایک رہنما ہوتی ہے۔
سُمیہ قلندرانی ایک نام نہیں، ایک باب ہے وہ باب جو نہ صرف بلوچ تاریخ کا حصہ ہے، بلکہ اس کی سمت طے کرتا ہے۔ ان کی خامشی، ان کا شعور، ان کا فدائی عمل یہ سب بلوچ نسل کے شعور میں شامل ہو چکا ہے۔