سائیں جی ایم سید نے صرف زبانوں پر دسترس نہیں، تاریخ، فلسفہ، تصوف اور سیاست میں بھی گہری دلچسپی پیدا کی، حسن دوست بلوچ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے جونیئر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست نے سائیں جی ایم سید کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم یہاں سائیں جی ایم سید کی برسی کے موقع پر جمع ہوئے ہیں، جو نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کی سیاست، فکری ارتقاء، اور قوم پرستی کے ایک عظیم استعارے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی برسی ہمیں اس بات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمارا اپنے اس تاریخی ورثے سے رشتہ کس قدر گہرا اور پرانا ہے۔

انہوں کہا کہ سائیں جی ایم سید کی زندگی کا آغاز ہی المیے سے ہوا۔ ان کے والد کا قتل اس وقت ہوا جب وہ ابھی ایک سال کے بھی نہ تھے، یوں وہ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے۔ اس قتل کے پیچھے محض خاندانی تنازعات ہی نہیں تھے بلکہ برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کی وہ ظالمانہ حکمت عملی بھی شامل تھی جسے "Divide and Rule” کہا جاتا ہے۔ برطانوی سامراج اسی پالیسی کے تحت خاندانی اختلافات کو بڑھاوا دیتا، قتل و غارت کی راہ ہموار کرتا اور پھر متاثرہ خاندان کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے لیتا۔

سائیں جی ایم سید کا خاندان بھی اسی سازش کا شکار ہوا۔ ان کے والد کے قتل کے بعد انگریزوں نے ان کی جائیداد اپنے قبضے میں لے لی اور ان کے خاندان کو ایک معمولی ماہانہ الاونس پر زندہ رکھا گیا۔ یوں سید خاندان مکمل طور پر انگریزوں کے رحم و کرم پر آ گیا۔

انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ برطانوی حکومت نے ان کی نگرانی اور تعلیم کا بندوبست کیا، لیکن سائیں جی ایم سید نے اس ماحول میں بھی وہ شعور حاصل کیا جو آگے چل کر ایک انقلابی نظریاتی بنیاد کی شکل اختیار کر گیا۔ انگریزی، عربی، فارسی، سندھی اور اردو زبانوں پر عبور نے ان کے فکری دائرے کو وسعت بخشی۔ سائیں جی ایم سید نے محض زبانوں پر دسترس ہی حاصل نہیں کی، بلکہ تاریخ، فلسفہ، تصوف اور سیاست میں بھی گہری دلچسپی پیدا کی۔ قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال سائیں جی ایم سید نے جلد ہی انگریزوں کی خواہشات کے برعکس اپنی آزاد سوچ کو پروان چڑھایا اور سامراجی ذہنیت کے خلاف آواز بلند کی۔

انہوں نے کہا کہ سائیں جی ایم سید نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز محض 15 برس کی عمر میں خلافت کانفرنس کے ذریعے کیا۔ یہ وہ دور تھا جب مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا محمود الحسن کی قیادت میں ریشمی رومال تحریک اپنی عروج پر تھی، جو انگریزوں کے خلاف ایک خفیہ عسکری تنظیم تھی۔ سائیں جی ایم سید بھی اس تحریک کے سرگرم رکن رہے۔ برطانوی حکومت نے انہیں دبانے کی کئی کوششیں کیں، مگر وہ ناکام رہی۔ دھمکیوں کے باوجود سائیں جی ایم سید نے سیاست اور قوم پرستی کا راستہ نہیں چھوڑا۔ یہ ان کی ثابت قدمی اور دھرتی سے بے پناہ محبت کا نتیجہ تھا کہ وہ بتدریج ایک مکمل قوم پرست رہنما کے طور پر ابھرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وقت کے ساتھ سائیں جی ایم سید کی سیاست نے نظریاتی پختگی اختیار کی۔ 1930ء کی دہائی میں انہوں نے کانگریس اور بعد ازاں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی، مگر جلد ہی دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت سے مایوس ہو کر انہوں نے سندھ کے لیے ایک جداگانہ قومی شناخت کا مقدمہ پیش کیا۔

تحریک خلافت کے بعد سائیں جی ایم سید نے سندھودیش موومنٹ کی بنیاد رکھی، جو سندھ کو ایک خودمختار ریاست بنانے کا خواب لیے ہوئے تھی۔ 1970ء کی دہائی میں قائم ہونے والی یہ تحریک ایک مضبوط قوم پرست بیانیہ رکھتی ہے جس کا مقصد سندھ کے وسائل، ثقافت، اور سیاسی مستقبل پر مقامی عوام کا اختیار قائم کرنا ہے۔

حسن دوست بلوچ نے کہا کہ آج کے دور میں جب ہم اپنی تاریخ کے نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں، تو ہمیں سائیں جی ایم سید جیسے رہنماؤں کے نظریات کی روشنی میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سندھ اور بلوچستان کا تاریخی، ثقافتی، اور سیاسی رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہے۔ دونوں خطے نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے قریب ہیں بلکہ استحصال، جبری گمشدگی، ثقافتی شناخت کے مسائل، اور خودمختاری کے مطالبے جیسے مشترکہ چیلنجز سے بھی دوچار ہیں۔

بلوچ اور سندھی قوم پرست تحریکوں کے درمیان آج جو قومی ہم آہنگی اور نظریاتی یکجہتی نظر آتی ہے، وہ اس امر کی دلیل ہے کہ مشترکہ جدوجہد ہی اس خطے کی بقا، خودداری، اور شناخت کی ضمانت ہے۔

انہوں نے خطاب کرتے ہوئے آخر میں کہا کہ سائیں جی ایم سید کی زندگی اور جدوجہد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ غلامی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار شعور، تعلیم، اور غیر متزلزل ارادہ ہے۔ ان کی برسی نہ صرف انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے، بلکہ اپنے قومی، سیاسی، اور فکری راستے پر نظرثانی کا بھی لمحہ ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس فکری ورثے کو زندہ رکھیں، اسے وسعت دیں، اور اپنی زمین، اپنی تہذیب، اور اپنی شناخت کے تحفظ کی جدوجہد جاری رکھیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

سبی اور گوادر میں دھماکے، دو افراد ہلاک، ایک زخمی

اتوار اپریل 27 , 2025
بلوچستان کے دو مختلف اضلاع سبی اور گوادر میں ہونے والے دھماکوں میں دو افراد ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ سبی میں اتوار کی شام لائیو اسٹاک ڈپٹی ڈائریکٹر آفس کے قریب کریکر دھماکہ ہوا۔ دھماکے کی آواز دور تک سنی گئی، تاہم دھماکے سے کسی قسم کا جانی نقصان […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ