
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی جانب سے اپنے قائدین اور 200 سے زائد کارکنان کی غیر آئینی گرفتاری، جیل میں ان پر غیر انسانی تشدد، اور بی وائی سی پر جاری ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف 29 اپریل کو بلوچستان بھر میں عوامی سوگ مناتے ہوئے پرامن احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
بی وائی سی نے اس دن کو اپنے گرفتار رہنماؤں ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبرگ بلوچ اور شاہ جی صبغت اللہ کی گرفتاری، بلوچستان میں جاری جعلی مقابلوں، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف منانے کا اعلان کیا تھا۔
نوشکی، کوئٹہ، خضدار، مستونگ، پنجگور، تربت، نال، دالبندین اور کراچی سمیت مختلف شہروں سے سینکڑوں افراد گھروں سے نکلے اور خاموش احتجاج کے ذریعے اپنی مزاحمت کا اظہار کیا۔ بی وائی سی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ “ہم 29 اپریل کو اکٹھے ہوں گے، سوگ منائیں گے، اور اسی سوگ کے ذریعے مزاحمت کریں گے۔”
اعلامیے کے مطابق یہ عوامی سوگ اُن لاپتہ اور خاموش کیے گئے بلوچوں کی یاد میں تھا، اور اس کا مقصد اُنہیں یاد رکھنا، اُن کے لیے آواز بلند کرنا، اور ریاستی جبر کے خلاف پرامن مزاحمت کو جاری رکھنا تھا۔
نوشکی میں عوام کی بڑی تعداد بی وائی سی کی کال پر احتجاج میں شریک ہوئی۔ مظاہرین نے کہا کہ یہ سوگ محض غم کا اظہار نہیں، بلکہ اجتماعی یاد اور مزاحمت کی علامت ہے۔ عوام نے واضح کیا کہ وہ ظلم اور جبر کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے۔
پنجگور میں بھی عوامی سطح پر سوگ منایا گیا۔ مظاہرین نے بی وائی سی کو اپنی تحریک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم جبری گمشدگیوں، ریاستی تشدد اور دہائیوں سے جاری عسکری جبر کے خلاف ان کی آواز ہے۔
تربت میں ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے خاموش احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جہاں مظاہرین نے اپنے گرفتار رہنماؤں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور ہر اس بلوچ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جو ریاستی جبر کا شکار ہوا ہے۔
مستونگ میں چار مختلف مقامات پر علامتی مظاہرے کیے گئے، جن میں نواب ہوٹل، گرلز ہائی اسکول، سراوان پریس کلب اور میلادالنبی مسجد شامل ہیں۔ ان مقامات کو ماضی کے پرتشدد واقعات کی علامت کے طور پر چُنا گیا تھا۔ مظاہرین نے خاموشی سے کھڑے ہو کر ان واقعات کو یاد رکھا اور مزاحمت کے عزم کا اعادہ کیا۔
نال میں بھی لاپتہ افراد کی یاد میں علامتی عوامی سوگ منایا گیا، جہاں مظاہرین نے خاموشی کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ خضدار میں مظاہرین نے چارٹ اُٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کے نام درج تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ خاموشی اور بھولنے کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی تصاویر اور ناموں کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوئے۔ مائیں، بہنیں اور بچے خاموشی سے بیٹھے تھے لیکن اُن کا وجود مزاحمت کی گواہی دے رہا تھا۔
دالبندین میں ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے علامتی احتجاج کیا گیا، جہاں شرکاء نے ماتمی حلقے بنا کر لاپتہ اور زیرِ حراست افراد کی یاد تازہ کی۔
کراچی میں ہاکس بے کے ساحل پر بی وائی سی کی کال پر ایک باوقار علامتی سوگ منایا گیا۔ لوگ سمندر کنارے جمع ہوئے، ہاتھوں میں لاپتہ پیاروں کے نام اور چہرے تھامے، اور خاموشی سے اپنے غم کو مزاحمت میں بدلتے رہے۔
بی وائی سی نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ صرف ایک تنظیم نہیں، بلکہ عوام کی اجتماعی آواز ہے، جسے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ تنظیم نے اعلان کیا کہ انصاف کی فراہمی تک جدوجہد جاری رہے گی۔