
زرمبش اداریہ
بلوچ یکجہتی کمیٹی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، مرکزی کمیٹی ممبر صبغت اللہ شاہ جی، بیبگر بلوچ، تنظیم کے ممبر گل زادی بلوچ، بیبو بلوچ سمیت کئی سالوں سے دیگر جبری افراد کے خاندان نے پاکستان کے درالحکومت اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا ہے، آج اس دھرنے کا دوسرا روز ہے، مسلسل بارش اور انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کے باوجود مظاہرین نے اپنا احتجاج جاری رکھا ہے۔
اسلام آباد میں جاری مظاہرے میں سیاسی، سماجی شخصیات نے شرکت کی اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا لیکن حکومت پاکستان شدید بارشوں میں بھی شرکا ء جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں کو بارش سے محفوظ کرنے کے لئے ٹینٹ لگانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے جو اس بات کی بین ثبوت ہے کہ اسلام آباد بلوچوں کو برابر کے شہری اور بنیادی انسانی حقوق کا اہل نہیں سمجھتا لیکن جبری لاپتہ افراد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین کے اہلخانہ پر عزم ہے کہ وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے چاہے پاکستان کا رویہ کتنا سخت ہی کیوں نہ ہوں۔
بلوچستان کے پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین، انسانی حقوق کے ادارے گزشتہ کئی عرصوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہے ہیں اور دوران احتجاج پاکستان کی طرف سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا گرفتاریاں کی گئی لیکن اہلخانہ کو نہ ریاستی شدت شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی موسم اور راستوں کی سختیاں اور تکلیف بلکہ ہر دن ان کی عزم اور حوصلہ پختہ اور محکم ہوتا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر ماہ بلوچ سمیت دیگر قائدین کو رمضان کے مہینے میں کوئٹہ میں جاری دھرنے سے پولیس نے تھری ایم پی او کے کالے قانون کے تحت گرفتار کیا، اس کے بعد بیبگر بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، غفار بلوچ، گلزادی بلوچ اور دیگر کئی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔
پاکستان نے عدالتوں سے انصاف کی فراہمی کے بجائے بلوچ رہنماؤں کے جمہوری احتجاج کو کچلنے کے لیے سی ٹی ڈی اور خفیہ اداروں کو کھلی چھوٹ دی ہے اور اپنے جدوجہد سے دستبردار ہونے کے عوض رہائی کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے ہر قسم کی پیشکش کو ٹھکرادیا، تھری ایم پی او کے کالے قانون کے بعد انہیں انسداد دہشت گردی عدالت کے حوالے کردیا گیا جو پاکستان کے خفیہ محکموں کے زیر اثر ہے۔
بلوچ قوم کی اجتماعی یادداشت میں جبری گمشدگیاں کوئی نئی بات نہیں لیکن جو چیز اس وقت اہم ہے، وہ یہ کہ بلوچ عوام نے اس جبر کو بیان کرنے کے لیے جس طرزِ احتجاج کو چُنا ہے وہ شعور کی ایک نئی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا کوئی فوری ردِعمل نہیں بلکہ ایک تاریخی پس منظر، سیاسی جدوجہد اور قومی زخموں کی تسلسل کا منطقی اظہار ہے۔
یہ احتجاج اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے ہے کہ بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان نہ صرف فاصلہ زمینی ہے، بلکہ فکری، قانونی اور اخلاقی بھی ہے۔ ایک طرف ایک محکوم قوم اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے بارش میں بیٹھ کر سوال کرتی ہے، دوسری طرف ایک ریاستی نظام ہے جو طاقت سے جواب دینے کو ہی حکمتِ عملی سمجھتا ہے۔

