سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ہراس کیا ہے۔
لفظ "ہراس” انگریزی کا ایک لفظ ہے جو فرانسیسی لفظ "harrasser” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے تنگ کرنا اور پریشان کرنا۔ آج کل "ہراساں کرنا” ایک عام لفظ بن چکا ہے۔ اگر کوئی کسی کو ذرا سا ڈرائے یا دھمکانے کی کوشش کرے تو دوسرا شخص فوراً کہتا ہے کہ "فلاں شخص مجھے ہراساں کر رہا ہے۔”
ویسے بھی پاکستان جیسے ممالک میں لوگوں کو اکثر ہر مقام پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ کارخانے ہوں، اسپتال، تعلیمی ادارے یا عوامی مقامات۔ اکثر شہریوں کو ہر جگہ ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہسپتالوں میں نرسوں کو ڈاکٹروں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے، اور یہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس کی وجوہات میں غیر تہذیب یافتگی، کلچرل رویے اور مختلف عوامل شامل ہو سکتے ہیں۔
جہاں ریاست اور ریاستی ادارے لوگوں کو ہراساں کرنا شروع کرتے ہیں، وہاں ایک وسیع پیمانے پر لوگ ذہنی کوفت کا شکار ہوتے ہیں۔ سامراج اور سامراجی قوتیں ہمیشہ مقبوضہ زمینوں پر کالونائزڈ لوگوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہیں، جس طرح سے ماضی میں سامراجی طاقتوں نے کیا تھا۔ آج پاکستان بھی بلوچوں کے ساتھ یہی رویہ اپنائی ہوئی ہے۔
ہراساں کرنا ایک سے زائد افراد کے درمیان یا ریاست کے ذریعہ ہر سطح پر ہوسکتا ہے۔ ایک فرد دوسرے کو ہراساں کرتا ہے، اور ریاست ایک فرد سے لے کر پوری سماج کو بھی ہراساں کر سکتی ہے۔
ہراسمنٹ کے مختلف اقسام ہوتے ہیں : زبانی ہراساں کرنا
جسمانی ہراساں کرنا، کرنا،سائبر ہراساں کرنا،ذہنی ہراساں کرنا،پیروی کرنا،گھریلو تشدد وغیرہ
ہراساں کرنے کے منفی اور گہرے اثرات ہوسکتے ہیں : ہراساں کرنا کسی شخص کی ذہنی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس سے متاثرہ افراد کو ڈپریشن، اضطراب اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈ(PTSD) جیسی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہراساں کرنا کسی شخص کی سماجی زندگی، تعلیمی کارکردگی اور کام کی صلاحیت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
لسبیلہ یونیورسٹی کے حالات: آپریشن "ہیروف” کے بعد لسبیلہ یونیورسٹی اور اس کے احاطے کی صورتحال میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ اسٹوڈنٹس کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور طلبہ و طالبات پر اس کا گہرا اثر پڑ رہا ہے۔
حال ہی میں بیلہ ایف سی کیمپ پر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی جانب سے فدائی حملے کے بعد یونیورسٹی میں کچھ تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اسٹوڈنٹس کے پیچھا کرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، مختلف نامعلوم بغیر نمبر پلیٹ والی گاڈیاں اسٹوڈنٹس کی پیچھا کرہے ہیں اور انتظامیہ ان گاڑیوں کے بارے میں جانتے ہوئے بھی خاموش ہے۔
ایک پرامن ماحول میں خوف و ہراس پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جائے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں خوف بیٹھ جائے۔ حالیہ دنوں میں المعراج ہوٹل کے سامنے کا واقع جو ایک بندے کو سر عام طلبا کے سامنے خنجر سے وار کرنے کی کوشش کی وہ شخص بَھلے بری طرح زخمی ہوا ، لیکن اسکا مقصد کچھ اور تھا اور بعد میں اسکے مرنا کا افواہ بھی پھلایائے گئے ۔ اس طرح کے واقعات طلبہ پر منفی اثرات ڈالنے کا سبب بن رہے ہیں۔
آپریشن "ہیروف” کے بعد یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں سیکورٹی گارڈز کی جانب سے اسٹوڈنٹس کو غیر ضروری طور پر تنگ کیا جا رہا ہے۔ گرلز ہاسٹل میں بھی کہا گیا ہے کہ اپنے کمروں کی صفائی کریں اور کوئی انقلابی شخصیات کی تصاویر نہ لگائیں، کیونکہ یہاں کبھی بھی چھاپہ مارا جا سکتا ہے۔
اگر ان تمام چیزوں پر غور کیا جائے تو یہ اسٹوڈنٹس کو ہراساں کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد طلبہ کے اندر خوف اور ہراس کا ماحول قائم کرنا ہے۔