سننے میں آرہا ہے کہ بیرون ملک میں پناہ گزین بلوچ رہنما خان آف قلات کی زیر قیادت ایک اہم اجلاس منعقد کرنے کی تاک میں ہیں۔ تاہم اس خبر میں کتنی صداقت ہے یہ اب تک نہیں کہا جا سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بلوچ رہنماؤں کو ایک بیٹھک کی ضرورت ہے؟
یہ بھی کہ بلوچ عوام ان رہنماؤں سے کیا امید لگائے بیٹھے ہیں؟
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان صدیوں سے ایک جنگ زدہ علاقہ رہا ہے۔ تاہم پاکستان بننے کے بعد بلوچستان کا جنگ زدہ علاقہ ایک ایسے جنگ کی طرف دھکیلا گیا جس کو شاید ایک مکمل ٹریک مل گیا ہو۔
پچھلے ادوار میں بلوچ اپنی سرزمین پر حکمرانی کرکے باہر سے آنے والے حملہ آوروں کو روکھنے کی کوشش اور بھگانے کے چکر میں کبھی کبھار اپنی تلواریں ننگا کردیتے تھے مگر اب شاید بلوچ کو ایک مسلسل اور ناختم ہونے والے جنگ میں کودنا پڑا ہے۔ یہ جنگ مزاحمتی جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی، ادبی اور قومی اور قومی و زندگی کی بقا کی جنگ بھی بن چکی ہے جس میں اکثر بلوچ رہنما پاکستانی پارلیمانی سیاست سے مایوس ہوکر یا تو پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں یا بیرون ملک بیٹھ کر واپس نا آنے کی قسم کھاتے ہیں۔
سن 2006 میں جب خان آف قلات خان سلیمان احمدزئی بلوچ نے بلوچستان کے تمام قبائل کا ایک بڑا جرگہ بلایا تھا جس کا مقصد شاید ایک بلوچستان میں ایک غیر اعلانیہ ریفرینڈم کرانا یا عوامی رائے کو جاننا تھا کہ بلوچ عوام پاکستان سے کتنے خوش ہیں. اور اسی جرگے میں یہ فیصلہ بھی ہوا تھا کہ بلوچ مسئلے کو بین الاقوامی عدالتوں میں لے جاکر کسی حل کی جانب گامزن کرنی چاہیے ۔
تاہم اس ریفرنڈم کے نتائج آنے سے پہلے پہل خان آف قلات کو مجبوراً بیرون ملک جانا پڑا جو کہ 2006 سے تاحال ملک سے باہر ملک بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستانی پارلیمانی سیاست سے مایوسی کی داستان آج کی نہیں کہ سردار اختر مینگل کو دیکھ کر لوگ حیران ہو۔ بلکہ یہ عمل تو نواب خیربخش مری، عطاء اللہ مینگل اور بالاچ خان مری سمیت کہی دیگر سے شروع ہوئی تھی جو کہ خود بھی کبھی پارلیمنٹ کے حصے رہہ چکے تھے۔
اختر مینگل کیا گئے کہ لوگوں کے مختلف آراء اور تبصروں سے کان ہی پک گئے۔ کوئی انکی اس عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو کوئی مخلصی اور محب بلوچیت میں برسر پیکار قرار دیکر سردار مینگل کی اس عمل کو سراہتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا سردار مینگل بھی خان آف قلات کی طرح جاکر بیرون ملک اپنی باقی بچا کچھا زندگی گزار کر بلوچ عوام کی مظلومی و محکومی پر شاذ و نادر ایک بیان جاری کرکے مطمئن ہو جائینگے کہ حق ادا ہوگئی؟ یا تمام بلوچ رہنما ایک دفعہ پھر مل بیٹھ کر اس مسئلے کیلئے غیر جانبداری سے سوچیں گے اور کوئی حل تجویز کرینگے؟
اگر یہ سچ ہے کہ بلوچ رہنماؤں کی ایک بیٹھک ہوگی جس میں بلوچستان کے مسئلے کو ہی ہر پہلوں سے دیکھا جائے گا تو کیا عوامی رائے کا احترام بھی کیا جانا ضروری ہے؟ کیا عوام کی امیدوں کے عین مطابق کوئی فیصلہ لیا جائے گا یا یہ بھی ایک ایسی دیوان ہوگی جس میں لی گئی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے بلوچ کی کئی پُشتوں کو منتظر رہنا پڑیگا؟ کیونکہ یہاں دیوان بھی ہوتے ہیں اور فیصلے بھی لیئے جاتے ہیں مگر عملی طور پر فیصلوں کا احترام تو نہیں کیا جاتا۔
البتہ عوامی مینڈیٹ اور امیدوں کا خیال رکھا جائے تو یہ بیٹھک بھی لازمی ہے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونا بھی انتہائی اہمیت کا حامل۔
بلوچ رہنماؤں کی مل بیٹھ کر ایک اہم فیصلہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے وگرنہ حالات جس طرف جارہے ہیں اس میں بلوچ رہنماؤں کو بلوچ عوام اور ریاست دونوں سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئیے۔ کیونکہ حکومت بلوچ رہنماؤں کو سیریس نہیں لیتی اور عوام کا اپنے ہی خوانین، نواب و سرداروں سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔
اگر بلوچ رہنماؤں کو عوام کے بھروسے کو دوبارا جیتنا ہے تو عوامی امیدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونا ہوگا وگرنہ سیاسیات ہوتی رہے گی، استعفے ہوتے رہیں گے اور عوام لاشیں اٹھاتی رہے گی۔
پھر نا جانے یہ سلسلہ کتنے صدیوں تک یوں سرزمین بلوچستان کو مسلسل خون آلود کرتی رہے اور بلوچ ایک بار پھر صدیوں تک ایک کشمکش سے گزرنے پر مجبور ہو۔