انسانی حقوق کے تنظیموں سے گزارش ہیکہ بلوچستان میں آزادانہ سروے کر کے یہاں آپ کو یزید فرعون کے زمانے سے بدترین ظلم جبر بربریت کی داستان ملیں گے بلوچ نسل کشی ساحل وسائل کی لوٹ مار کے علاؤہ یہاں حتی تک ڈیاڈی والے مزدوروں کو نہیں بخشا گیا ہے یہاں بلوچستان میں بلوچ مزدوروں کو آزادی کیساتھ مزدوری کرنے کی اجازت تک نہیں ہے اس سے بدترین ظلم ستم اور کیا ہو سکتا ہے؟
بلوچستان کی ہر شے پہ سامراج قابضین کا قبضہ ہے روز بروز سامراج قابض گیر اپنی جبری تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے غیر انسانی غیر جمہوری قوانین بنا کر بلوچستان میں بلوچ قوم پہ ایپلائی کر رہے ہیں ۔
مہذب دنیا انسانی حقوق کے علمبردار بلوچستان میں آکر خود سامراجی نظام کا جائزہ لیں آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا یہاں کتنی بربریت ہے یہ ایک مقبوضہ سرزمین ہے اسے کالونی کی طرح سامراج چکا رہے ہیں جبری قوانین غیر انسانی ناروا سلوک کے ذریعے مفتوحہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہیں ۔
مظلوم محکوم بلوچ قوم اس حد تک دبایا جا رہا ہے تاکہ وہ سامراج کی زیر تسلط بلوچ قوم سانس لینے کو غنیمت سمجھ کر اپنے تمام بنیادی سہولیات زندگی کیلئے درکار ساحل وسائل بنیادی حقوق کی آزادی سے دستبردار ہو کر اپنی رضامندی کیساتھ سامراج کی غلامی کو قبول کرلیں
اپنی قومی تشخص بقاء قومی شناخت سے دستبردار ہو کر اپنی سرزمین میں اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہونے کیلئے تیار جائیں اس سازش منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے سامراج قابض گیر نے بلوچستان میں بلوچ قوم کی معاشی سیاسی ناکہ بندی کر رکھی ہیں ۔
بلوچ قومی معاشی معاملات کا شکار ہو کر غیر مقامی آبادکاروں کے پاس اپنے قیمتی زمین سستے داموں نیلام کرنے پر مجبور ہو جائیں بلوچستان میں ساحل وسائل لوٹ مار کیساتھ بلوچ قومی پیشہ کے دو ذرائع سمندر دوسرے مغربی بلوچستان کے سرحد بار برداری بارڈری تجارت جس روزگار سے بارڈری پٹی پہ موجود مقامی بلوچ مستفید ہو رہے تھے بارڈری پٹی لوگوں کو سرحدی پٹی کے ذریعہ روزگار حاصل تھا وہ بمشکل اپنی بچوں کی پیٹ پالتے تھے سمندر سے مقامی ماہیگر اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر ماہیگیری کے اپنی حلال روزی تلاش کر کے ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے یہ کام چونکہ بلوچ سرزمین پہ بلوچ کر رہے تھے سامراج قابض گیر استعمار جو جبری قابض ہے وہ کبھی نہیں چاہتے کہ بلوچ قوم خوشحال زندگی گزاریں دنیا کی رفتار کیساتھ ترقی کریں ۔
اس نے بڑی چالاکی کیساتھ جبری جارحیت کی پالیسیوں پہ عمل پیرا مکران کی ساحلی پٹی گوادر میں ترقی کے نام پہ استحصالی پراجیکٹس سی پیک نامی ترقی منصوبے کے نام پہ کام شروع کردیا ساتھ ہی اس استحصالی پراجیکٹس کی تحفظ کے نام پہ بلوچستان میں پانچواں ملٹری آپریشن کے آغاز کر کے تمام دیہی بلوچ آبادیوں کو جبری نقل مکانی پہ مجبور کر کے نکال دیا گیا علاقوں کے علاقے بستیوں کے بستیاں فوجی آپریشن کے ذریعے نقل مکانی کر کے درد بدر کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوگئے اسے اپنی قدیم آباؤاجداد سے جبراً بیدخل ہو کر ہاتھ دھونا پڑا۔
وہ سمندر جس کے اس پاس رہنے والے مچھیرے اسے اپنی بھائی سمجھتے تھے وہ آزاد تھے اپنی مشاغل میں دن کو جاتے سمندر میں شکار کرنے یا رات کو کیونکہ سمندری میں ہر شکار کے ایک مخصوص ٹائم ہے جو مچھلی آپ دن میں شکار کرتے آپ کو رات میں نہیں ملتے جس مچھلی کو رات میں شکار کرتے ہیں وہ دن کو نہیں ملتے ہیں سمندری خصلت ، وقت، پاس کو صرف وہی مقامی لوگ جانتے ہیں جو ہزاروں سال سمندر سے منسلک زندگی گزار رہے ہیں۔
گوادر جو دونوں اطراف گہرے سمندر میں گرے سامنے کوہ باتیل کے خوب صورت دلکش نظارہ لیکن ڈیپ سی پورٹ بننے نام نہاد ترقی استحصالی پراجیکٹس سی پیک نے یہ سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔
یہی گوادر جو آگے دیمی زر پھیچے پدی ذر بیچ میں آبادی ریاست و ریاستی مقتدرہ قوتوں کی بلوچ نسل کش پالیسی کے تحت دو اُونچی سڑکیں میریں ڈرائیو ایکسپریس وے کے نام پہ بنائی گئی ناقص تعمیرات ، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسی طرح بنائی گئی اب معمولی بارش کی وجہ پورے گوادر Old city سیلاب کے اندر بہہ جاتی ہیں بارش کے پانی کو اخراج میں کوئی راستہ نہیں تاکہ پانی آسانی کیساتھ اخراج ہو جائے یہ قدرتی آفات نہیں ریاستی آفات کہلائے جاتے ہیں سامراج قابض گیر کی پالیسی کس طرح انہی گوادر کی پرانی آبادی کو تنگ کر کے یہاں سے شفٹ ہونے پر مجبور کیا جائے وہ جبری ٹیکنیکل طریقہ دونوں استعمال کر رہے ہیں ۔
مقامی لوکل مچھیروں کو ریاستی فورسز ٹائم پیریڈ دے کر کوئی بھی لوکل مچھیرے اپنی مرضی منشاء کے مطابق سمندر جاکر شکار نہیں کیا جاسکتا ہے
دوسری جانب چائینز ٹرالروں کو لاکر نمبرنگ کر کے جسے کھلی چھوٹ دیا گیا سمندر کو تاراج کرنے گجو وائر نٹ پوری دنیا میں جسکی استعمال کرنے پہ پابندی عائد ہے۔
لیکِن یہاں مکران کوسٹ میں ٹرالر مافیہ کو ممنوعہ جال استعمال کرنے سمندری حیات کی نسل کشی کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دیکر چھوڑ دیا گیا ہے،
گجو مافیا ریاستی سرپرستی میں وہ بخر بلوچ کو تاراج کر رہے ہیں ۔
دوسرا بارڈر ہزاروں سال قدیم پیشہ بلوچوں کی بارڈری تجارت اونٹ گدھوں کے زمانے سے وہ منسلک بلوچ قوم کرتے چلے آرہے ہیں ۔
اب ترقی یافتہ دنیا سے Expired,گاڈیاں جو ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اپنی بھیڑ بکریاں اس میں نہیں رکھتے ہیں مجبوری کی حالت میں پسماندہ بلوچ قوم انہی گاڈیوں کے ذریعہ دن رات محنت مزدوری کرتے سخت دشوار گزار راستوں پر گھنٹوں کا سفر طے کرتے ہیں یہ بھی گورا نہیں اسلام آباد کے مقتدرہ قوتوں کو جسے بھاڈ فینسنگ لگا کر بلوچ قوم کیلئے ہر چیز کو شجر ممنوع قرار دیا گیا ہے ،
ایک 500 کلومیٹر کوئٹہ ٹو کراچی شاہراہِ گزشتہ 76 برسوں نے نہیں بن سکتا روزانہ کی بنیاد پر روڈ ایکسیڈنٹ قدرتی حادثات نہیں ریاستی حادثات سے سینکڑوں انسانی جانیں ضائع کئی لوگ عمر بھر معذور ہو چکے ہیں ،
اس خونخوار شاہراہِ کئی دہائیوں سے خستہ حالی کا شکار جس پہ سفر کرنا کھلم کھلا موت کو دعوت دینے کا مترادف ہے وہ مکمل نہیں ہوگا،
بلوچ استحصالی پراجیکٹس جسے مکمل کرنے میں کوئی تاہیر سے کام نہیں لے سکتا ناکہ غفلت برتی ہے 1200 کلومیٹر تفتان سے لیکر جیونی تک طویل دشوار گزار بارڈری پٹی پر بھاڈ فینسنگ کا کام ایک سال کے اندر مکمل ہو جاتا ہے،
وہ استحصالی پراجیکٹس جس کے اندر بلوچ قوم کی تباہی بربادی شامل ہیں اسے جلد ازجلد مکمل کیا جاتا ہے جس چیز کے اندر بلوچ قوم کی بھلائی سہولیات موجود ہیں وہ کبھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ہے ،
سامراج کی فطرت میں شامل ہیں اپنے زیر ماتحت قوموں کو اشتماعی ازیت کا شکار بنا دینا ہے تاکہ وہ زہنی جسمانی دونوں طرح مفلوج ہو کر رہ جائے۔
مہذب دنیا کو بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پہ غور کرنا چاہیے وگر نہ انکی مجرمانہ خاموشی ریاست و ریاستی اداروں کو بلوچستان میں جاری بلوچ قوم کی نسل کشی استحصال مظالم بربریت کرنے کی اجازت دینے رضامندی شامل ہونے کی مترادف ہے۔