پنجاب یونیورسٹی نے امتحانات سے ایک ہفتہ قبل مجھے یونیورسٹی سے نکالنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ سادیہ بلوچ
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی بلوچ سماجی کارکن سادیہ بلوچ نے اپنے یونیورسٹی معطلی پر کہا کہ نوٹیفکیشن میں ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ میں شرپسند طالب علم ہوں اور میں نے ریاستی اداروں کے خلاف طلباء کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کے لیے یونیورسٹی کا پلیٹ فارم استعمال کیا ہے۔ اور یہ کہ میرے طرز عمل سے تعلیمی ادارے کی ساکھ اور سالمیت کو بری طرح نقصان پہنچا ہے!
واضح رہے کہ یہ نوٹس جان بوجھ کر 2 ماہ قبل ہونے والے احتجاج کا جواز بنا کر جاری کیا گیا ہے اور اس میں جاری ہونے کی تاریخ 14 جون لکھی گئی ہے۔
ان کے مطابق انہیں یہ خط 12 اگست 2024 کو موصول ہوا جب وہ خود پنجاب یونیورسٹی شعبہ قانون سے پتہ کرنے گئ تو سسپینشن آرڈر سے قبل کوئ چارج شیٹ بھی جاری نہیں کی گئی ہے ۔ تو یہ واضح ہے کہ یہ لیٹر اسکے بلوچ راجی مچی گوادر میں شرکت کے بعد جان بوجھ کر پچھلی تاریخیں ڈال کر جاری کیا گیا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف ریاست اپنی فورسز اور انتظامیہ کے ذریعے بلوچ راجی مچی کے شرکاء کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ تعلیمی ادارے بھی بلوچ طلباء کو پرامن سیاست کی سزا دینے میں کوئی رعایت نہیں برت رہے ہیں۔
ایک بلوچ طالبہ ہونے کے ناطے میرے خلاف جو نامناسب زبان اور الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنے آپ میں ادارے کے نام نہاد نظم و ضبط اور اقدار کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔
سادیہ نے کہا کہ "میرے سالانہ امتحانات سے ایک ہفتہ قبل یہ گھناؤنی کوشش میرے تعلیمی کیریئر کو دانستہ نقصان پہنچانے کیلئے ہے اور میرے ذاتی اور اخلاقی کردار پر حملہ ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ پنجاب یونیورسٹی کو BYC کے ساتھ ریاست کے طے شدہ مذاکرات کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سسپینشن ارڈر کو ناصرف فوراً منسوخ کرے بلکہ اپنے بے بنیاد الزامات واپس لیں.