
خضدار ( ویب ڈیسک ) بلوچستان توتک میں پاکستانی فورسز کی جانب سے سال 2011 میں فوج کشی کو آج چودا سال مکمل ہوگئے فورسز نے فوج کشی کے دوران توتک سے 82 سالہ بزرگ محمد رحیم قلندرانی سمیت درجنوں افراد کو حراست میں لینے کے بعد پاکستانی فورسز ،شفیق مینگل کے ڈیتھ اسکوائڈ نے جبری لاپتہ کردیا تھا جبکہ فورسز نے دوران فوجی بربریت دو نوجوان کو بھی قتل کردیا تھا۔
توتک آپریشن کو 14 سال مکمل ہونے پر آج بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ “بی ایس ایم اے” کی جانب سے سوشل میڈیا رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیمپئن بھی چلائی جارہی ہے۔
آپ کو علم ہے خضدار میں 18 فروری 2011 کو پاکستانی فورسز نے توتک کے گاؤں کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی لی تھی، کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی فوج کشی میں گاؤں کے تمام مرد افراد کو ایک جگہ جمع کرکے فورسز اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا بعدازاں ان میں سے کئی افراد بازیاب ہوگئے لیکن 82 سالہ محمد رحیم خان قلندرانی اور اس کے خاندان کے دیگر 16 افراد تاحال بازیاب نہیں ہوئے ہیں جن میں سردارعلی محمد قلندرانی کے تین نوجوان بیٹے شامل ہیں ۔
توتک سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عالمی انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک ہنگامی اپیل جاری کی تھی جبکہ لواحقین کی جانب سے مختلف اوقات میں مظاہرے کیئے جاچکے ہیں لیکن تاحال مذکورہ افراد بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

آپ یہ بھی جانتے ہیں مذکورہ علاقے توتک مژی سے اجتماعی قبریں ملی تھی ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی 2014 میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ ان قبروں سے کل ایک سو انہتر نعشیں برآمد ہوئے تھے جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان نعشوں میں سے صرف دو بھائیوں کی پہچان ہو پائی تھی، جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔