ایک موازناتی جائزہ

تحریر: مزار بلوچ
زرمبش مضمون
ظاہری بیانیہ اور پوشیدہ مقاصد
اسرائیل اور پاکستان دونوں بیسویں صدی کے وسط میں وجود میں آئے، اور دونوں کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی: اسرائیل یہودیوں کے لیے اور پاکستان مسلمانوں کے لیے۔ سرکاری سطح پر دعویٰ کیا گیا کہ یہ ریاستیں ان مظلوم قوموں کے لیے بنائی گئیں جو اپنے اپنے علاقوں میں ظلم و ستم کا شکار تھیں۔
اسرائیل 1948 میں اُس وقت قائم ہوا جب ہولوکاسٹ کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر فلسطین کی سرزمین پر آباد کیا گیا۔ پاکستان 1947 میں اُس وقت وجود میں آیا جب برصغیر کو تقسیم کر کے ایک ہندو اکثریتی بھارت اور ایک مسلمان اکثریتی پاکستان تشکیل دیا گیا۔
پاکستان کا قیام دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہوا، جس کے مطابق مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں، جن کی تہذیب، مذہب، ثقافت اور تاریخ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔
لیکن اگر ہم ان بیانات سے آگے دیکھیں، تو کچھ گہرے اور پوشیدہ مقاصد بھی سامنے آتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں کے قیام میں اُس وقت کے برطانوی سامراج نے کلیدی کردار ادا کیا۔ برطانیہ، جو ان علاقوں سے نوآبادیاتی انخلا کر رہا تھا، نے ان خطوں کو اس انداز سے تقسیم کیا کہ یہاں مسلسل بدامنی اور تنازع برقرار رہے۔
یہ تقسیم محض مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک سیاسی حکمتِ عملی کے تحت کی گئی۔ برطانیہ اور مغربی طاقتیں چاہتی تھیں کہ ان علاقوں میں اُن کا اثر و رسوخ قائم رہے، اسی لیے انہوں نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ اور پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ایسے اڈوں کی شکل دی جو ان کے مفادات کی نگرانی کریں۔
آج بھی اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کی محافظ ریاست ہے، جبکہ پاکستان جنوبی ایشیا میں مغربی طاقتوں کے لیے ایک اسٹریٹیجک مقام رکھتا ہے، جہاں سے افغانستان، ایران، بھارت اور چین جیسے ممالک پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ ان دونوں ریاستوں کو ایسے خطوں میں قائم کیا گیا جہاں پہلے ہی تناؤ موجود تھا، اور ان کی موجودگی سے وہ تناؤ بڑھا، تاکہ مغربی دنیا کو مداخلت کا جواز میسر رہے۔
جغرافیائی حیثیت — یہ محض اتفاق نہیں تھا
اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے مقام پر بسایا گیا جہاں سے وہ تیل کی اہم گزرگاہوں اور عالمی تجارتی راستوں تک رسائی رکھتا ہے۔ اس کا محلِ وقوع ایسا ہے کہ وہ پورے عرب خطے کی نگرانی کر سکتا ہے اور وہاں کی ہر تبدیلی پر فوری ردعمل دے سکتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کی سرحدیں افغانستان، ایران، بھارت اور چین جیسے اہم ممالک سے ملتی ہیں، جس نے اسے جنوبی ایشیا میں ایک نہایت اہم بفر زون یعنی دفاعی کوریڈور بنا دیا۔ خاص طور پر سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان عالمی طاقتوں کے درمیان جاری اثر و رسوخ کی جنگ کا مرکزی میدان بن گیا۔
دونوں ریاستوں کو ایسی جگہوں پر بسایا گیا جہاں سے مغربی طاقتیں سیاسی، فوجی، اور اقتصادی اثر و رسوخ قائم رکھ سکیں۔ یہ مقامات صرف مذہبی یا تاریخی بنیاد پر منتخب نہیں کیے گئے، بلکہ ان کی جغرافیائی اہمیت کو دیکھ کر انہیں ایک حکمت عملی کا حصہ بنایا گیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان ریاستوں کا قیام عالمی طاقتوں کی اسٹریٹیجک منصوبہ بندی کا حصہ تھا — ایک ایسا منصوبہ جس کا مقصد دنیا کے حساس ترین علاقوں میں مغرب کی گرفت مضبوط رکھنا تھا۔
فوجی و صنعتی طاقت
اسرائیل بہت جلد مشرق وسطیٰ کی ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا۔ اُسے امریکہ سے بھاری مالی امداد اور جدید ہتھیار فراہم کیے گئے، اور وہ عالمی اسلحہ منڈی کا ایک فعال حصہ بن گیا۔ اسرائیل نے نہ صرف اپنی دفاعی طاقت بڑھائی بلکہ اپنی فوجی ٹیکنالوجی کو برآمد کر کے اسلحہ کی عالمی تجارت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
اسی طرح پاکستان نے بھی ایک مضبوط اور منظم فوجی نظام قائم کیا، جسے مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ، کی جانب سے بارہا فوجی امداد ملی۔ یہ امداد کبھی علاقائی استحکام کے نام پر، اور کبھی سویت-افغان جنگ کے دوران پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ قرار دے کر دی گئی۔
دونوں ممالک نے وقت کے ساتھ ایٹمی ہتھیار بھی تیار کیے، جو نہ صرف ان کی خطے میں طاقت کا ذریعہ بنے بلکہ مغربی دنیا کی مستقل حمایت حاصل کرنے کا وسیلہ بھی۔ یہ ایٹمی صلاحیت مغرب کے لیے ایک قسم کی انشورنس پالیسی بن گئی کہ ان خطوں میں اُن کے مفادات محفوظ رہیں۔
یوں اسرائیل اور پاکستان، دونوں مغربی مفادات کے لیے فوجی اڈے، اسلحہ کے خریدار، اور خطے کے نگران بن گئے۔ یہ سب کچھ ایک فوجی-صنعتی مشین کا حصہ تھا، جہاں جنگیں اور تنازعات طاقت کی تقسیم اور معاشی مفادات کا ذریعہ بن گئیں۔
ٹیکنالوجی، نگرانی، اور پراکسی کردار
اسرائیل دنیا بھر میں اپنی جدید نگرانی اور سائبر ٹیکنالوجی کے لیے مشہور ہے۔ اس نے ایسے آلات اور سافٹ ویئر تیار کیے ہیں جو دنیا بھر کی حکومتوں، افواج، اور خفیہ ایجنسیوں کو فروخت کیے جاتے ہیں۔ اسرائیلی کمپنیاں جاسوسی، سیکیورٹی، اور ڈیجیٹل نگرانی کے نظام میں صفِ اول میں شمار ہوتی ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی بظاہر سیکیورٹی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے، مگر اکثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان، اگرچہ اسرائیل کی طرح ٹیکنالوجی میں نمایاں نہیں، لیکن اس کا کردار مغربی طاقتوں کے لیے مختلف انداز میں بہت اہم رہا ہے۔ خاص طور پر سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران، پاکستان نے امریکہ کے لیے ایک اہم جاسوسی اور لاجسٹک مرکز کا کردار ادا کیا۔
افغانستان میں امریکی کارروائیوں، ڈرون حملوں، اور انٹیلی جنس مشنز کے لیے پاکستان کی سرزمین، فضائی حدود، اور خفیہ معلومات استعمال ہوئیں۔
اسرائیل اور پاکستان دونوں نے کئی مواقع پر براہِ راست جنگوں کے بجائے دوسرے ممالک یا گروہوں کے ذریعے اپنے یا مغربی ایجنڈے کو آگے بڑھایا، یعنی پراکسی وارز کا حصہ بنے۔ اس طرح یہ ریاستیں عالمی طاقت کے کھیل میں اہم مہرے بن گئیں۔
مالی بیعانہ امداد یا انحصار؟
اسرائیل کو دنیا کا سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک مانا جاتا ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر کی مالی، فوجی، اور تکنیکی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یہ امداد نہ صرف معیشت کو مستحکم رکھتی ہے بلکہ اسرائیل کی دفاعی اور سیکیورٹی پالیسیوں کو بھی تقویت دیتی ہے۔
دوسری طرف، پاکستان بھی عرصہ دراز سے مختلف مالی پروگرامز، قرضوں، اور فوجی امداد کے ذریعے مغربی مالیاتی اداروں اور ریاستوں سے وابستہ رہا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے اکثر پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے نام پر ایسے شرائط عائد کرتے رہے ہیں جنہوں نے ملکی خودمختاری پر سوالات اٹھائے۔
یہ مالی امداد بظاہر ترقی، سیکیورٹی، اور استحکام کے لیے دی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک ایسا بیعانہ ہے جس کے ذریعے ان ممالک کی پالیسیوں کو مغربی مفادات کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔
نتیجتاً، جب کبھی ان ریاستوں میں کوئی ایسی سیاسی یا معاشی پالیسی سامنے آئے جو مغرب کے لیے قابلِ قبول نہ ہو، تو یہ امداد روک دی جاتی ہے — گویا یہ مدد نہیں، بلکہ کنٹرول کا ایک آلہ بن جاتی ہے۔
بیانیے پر کنٹرول – میڈیا، تعلیم، اور تاریخ
اسرائیل نے دنیا بھر میں اپنی مظلومیت اور ہولوکاسٹ کے بیانیے کو کامیابی سے پھیلایا ہے۔ ہولوکاسٹ کی ہولناکیوں کو عالمی میڈیا، ہالی ووڈ، اور تعلیمی نصابوں میں اس انداز سے پیش کیا گیا کہ وہ ایک مقدس حقیقت بن گئی، جس پر سوال اٹھانا بھی “یہود دشمنی” کہلاتی ہے۔
اسی طرح پاکستان میں “دو قومی نظریہ” اور “اسلام کے قلعے” کا بیانیہ اس قدر گہرائی سے عوام کے ذہنوں میں بٹھایا گیا کہ اس سے انحراف کو قومی غداری تصور کیا جاتا ہے۔
میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے ان بیانیات کو بار بار دہرایا گیا، تاکہ عوام ان ریاستی نظریات کو حقیقت کا درجہ دے دیں، چاہے زمینی حقائق کچھ اور ہی کیوں نہ ہوں۔
بیانیے پر اس کنٹرول کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام اپنے مسائل کی اصل وجوہات تلاش کرنے کے بجائے دشمنوں کا تصور قائم کر لیتے ہیں — اسرائیل میں فلسطینی، عرب اور مسلمان؛ جبکہ پاکستان میں بھارت، ہندو، یا داخلی غدار۔
یوں اصل مسائل جیسے بدعنوانی، معاشی بدحالی، آمریت، اور طبقاتی نظام پس منظر میں چلے جاتے ہیں، اور ریاستی بیانیہ ہی سب کچھ بن جاتا ہے۔
عالمی شطرنج اسرائیل اور پاکستان بطور مہرے
اسرائیل اور پاکستان دونوں عالمی سیاست کی اس شطرنج پر اہم مہرے ہیں جہاں اصل کھیل بڑی طاقتیں کھیلتی ہیں۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایران، شام، اور حزب اللہ جیسے عناصر کے خلاف ایک مستقل دفاعی مورچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا وجود عرب دنیا کو تقسیم کرنے، اور اسرائیل مخالف طاقتوں کو کمزور رکھنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان کو بھی کئی بار خطے میں مغربی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا گیا — چاہے وہ سویت یونین کے خلاف جہاد ہو، یا دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ ان تمام مواقع پر پاکستان کو ایک قابلِ استعمال اسٹریٹیجک پارٹنر کی حیثیت دی گئی، لیکن طویل مدتی مفادات میں اسے اکثر تنہا چھوڑ دیا گیا۔
یہ دونوں ریاستیں اکثر عالمی طاقتوں کی سفارتی، عسکری اور معاشی چالوں میں استعمال ہوتی ہیں، اور جب ضرورت پوری ہو جائے، تو انہیں دباؤ، تنقید، یا پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
لہٰذا ان کا وجود بذات خود کوئی خودمختار حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ عالمی طاقتوں کے تزویراتی کھیل میں ایک جزو کی مانند ہے — کبھی قربانی کے پیادے، کبھی دفاعی مورچے، اور کبھی حملے کے ہتھیار۔
اختتامیہ سوال جو باقی رہ گئے
اسرائیل اور پاکستان کا قیام محض مذہبی یا نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوا، بلکہ ان کے پیچھے عالمی طاقتوں کی ایک گہری حکمتِ عملی کارفرما تھی۔ ان ریاستوں نے مظلومیت، شناخت، اور مذہبی آزادی کے نام پر وجود تو پایا، لیکن بہت جلد وہ عالمی شطرنج کے کھیل میں ایسے مہرے بن گئے جو طاقتور ہاتھوں سے چلائے جاتے ہیں۔
اسرائیل آج بھی ایک نہایت منظم، ٹیکنالوجی سے لیس، اور طاقتور ریاست کے طور پر مغرب کے مفادات کی نگہبانی کر رہا ہے، جب کہ پاکستان ایک داخلی بحران، معاشی دباؤ، اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ملک ہے، جسے آئے دن اپنی بقا کے لیے نئے اتحاد اور بیانیے گھڑنے پڑتے ہیں۔
یہ موازنہ محض تاریخ کا تجزیہ نہیں بلکہ آج کے عالمی نظام کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے — کہ کیسے مذہب، شناخت، اور مظلومیت کے نام پر نئی ریاستیں قائم کی جاتی ہیں، اور پھر ان کے ذریعے عالمی نظام کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
یہ سوال آج بھی باقی ہے کہ کیا یہ ریاستیں کبھی اپنے لوگوں کے لیے واقعی خودمختار، منصف، اور آزاد ہوں گی؟ یا ہمیشہ دوسروں کے ایجنڈے کا آلہ کار بنی رہیں گی؟
یہ سوالات ہمیں تاریخ پر نظرِ ثانی، اور مستقبل پر غور کا موقع فراہم کرتے ہیںاگر ہم دیکھنا اور سوچنا چاہیں۔