
فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے غزہ میں طبی کارکنوں پر حملے سے متعلق اسرائیلی فوج کی جاری کردہ رپورٹ کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے “جھوٹ کا پلندہ” قرار دیا ہے۔ اسرائیل نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 23 مارچ کو پیش آنے والا واقعہ ایک “آپریشنل غلط فہمی” اور “احکامات کی خلاف ورزی” کا نتیجہ تھا، جس میں 15 طبی کارکن ہلاک ہوئے۔
واقعے کے روز ریڈ کریسنٹ کی ایمبولینسز، اقوام متحدہ کی گاڑی اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں پر مشتمل ایک امدادی قافلہ غزہ میں داخل ہو رہا تھا جب اسرائیلی فوج نے ان پر فائرنگ کی۔ اس حملے میں 14 طبی کارکن اور اقوام متحدہ کا ایک اہلکار جان سے گئے۔ بعد ازاں، اسرائیلی فوج نے ایک کمانڈر کو برطرف اور ایک دیگر افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کی۔
اس واقعے کی موبائل فوٹیج کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی اہلکاروں نے 100 سے زائد گولیاں چلائیں، جن میں سے کچھ صرف 12 میٹر کے فاصلے سے فائر کی گئیں۔ ویڈیو میں واضح طور پر دکھایا گیا کہ قافلے کی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس روشن تھیں اور وہ زخمیوں کی مدد کے لیے رک رہی تھیں، جب اچانک ان پر فائرنگ شروع کر دی گئی بغیر کسی انتباہ کے۔
فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی رپورٹ زمینی حقائق کے منافی ہے اور واقعے کی ذمہ داری محض ایک فیلڈ کمانڈر پر ڈالنا حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ترجمان نے اس واقعے کی آزاد اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ، جوناتھن وٹل نے بھی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضروری تحقیقات نہ ہونا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو دنیا کو مزید خطرناک بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب کے بغیر ظلم و زیادتی جاری رہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو انسانیت کے تحفظ کے اصولوں کو ختم کر سکتا ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل اپریل 2024 میں بھی امدادی کارکنوں کی ہلاکت پر چند اسرائیلی افسران کو برطرف کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اپنی کارروائیاں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع کی تھیں، جس میں 1,200 افراد ہلاک اور 251 یرغمال بنائے گئے تھے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک ان کارروائیوں میں 51,000 سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔