ذمہ داری

تحریر: شہید علی جان بلوچ
زرمبش اردو

اگر کوئی فرد یا قوم اپنے وجود کو فیصلہ سازی کے عمل سے خارج کر دے، اپنے حالات کو کسی بیرونی طاقت کی پیداوار سمجھے اور ان پر اثرانداز ہونے کی سعی نہ کرے، تو وہ غلامی کو اپنی فطری حالت سمجھنے لگتی ہے۔ ایسا طرزِ فکر انسان کو اپنے شعوری امکانات سے محروم کر دیتا ہے۔

غلامی محض زنجیروں کا نام نہیں، بلکہ ایک ذہنی کیفیت ہے جو انسانی آزادی کو محدود کر دیتی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنی حالت کو مقدر مان کر اس پر سوال اٹھانا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ "اللہ کی طرف سے” ہے، یا "وقت ایسا ہی ہے”، اور یوں اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جاتا ہے۔

جب انسان اپنی حالت پر قابو پانے کی کوشش ترک کر دیتا ہے تو وہ بے بس، مجبور اور محکوم بن جاتا ہے۔ یہی ذہنیت غلامی کی بنیاد ہے۔ اس کے برعکس، ذمہ داری قبول کرنا انسان کو اختیار، قوتِ ارادی، اور تبدیلی کے راستے دکھاتا ہے۔

یہی فرق ایک زندہ قوم اور ایک مردہ قوم کے درمیان ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو حالتِ غلامی میں ہوتے ہیں، وہ اکثر اپنی حالت کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ وہ سوال اٹھانے والوں کو گمراہ، گستاخ یا فتنہ پرور سمجھتے ہیں۔ وہ استحصال کار کے کے خلاف بات کو "فنا کے فیصلے” کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں۔ گویا مظلوم خود ظالم کا نظریاتی دفاع کرنے لگتا ہے۔ یہ نفسیاتی الجھن ایک ایسی جکڑ ہے جو کسی بھی انقلابی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی غلامی کو ذمہ داری کیوں نہیں سمجھتا؟

اس لیے کہ اسے ایسا سکھایا گیا ہے۔

جبر کو تقدیر کا نام دے کر، غلامی کو شکر گزاری سے جوڑ کر، سوال کو گناہ بنا کر اور مزاحمت کو بغاوت ٹھہرا کر پورے نظامِ جبر کو تقدیس کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ غلامی کی سب سے خطرناک شکل وہ ہے جسے "مقدس” سمجھا جائے۔ ایسی حالت میں ظلم محض طاقت سے نہیں بلکہ عقیدے سے نافذ ہوتا ہے، اور عقیدہ جب جبر کا ہتھیار بن جائے تو آزادی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ فخر و افتخار حاصل کرنے کے لیے سب سے بنیادی شرط "ذمہ داری” ہے۔ یہی شرط کسی فرد یا قوم کی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے، کیونکہ جس طرح غیر ذمہ داری زوال اور تنزل کی وجہ بنتی ہے، اسی طرح اس کا الٹ یعنی ذمہ داری، ترقی اور بلندی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ تنزل کا الٹ ترقی ہے، اور ترقی کا راستہ صرف اس وقت ممکن ہے جب قوم اور معاشرے کے افراد اپنی ذمہ داریوں کو شعوری طور پر قبول کریں۔

غلامی، اپنی تمام صفات کے ساتھ، صرف ذلت و شرمندگی کا باعث نہیں بلکہ ہر قسم کے انفرادی و اجتماعی زوال کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ تاریخ میں آج تک کسی غلام قوم کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ غلامی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی قوم کیلئے ترقی کا خواب ایک ایسا سراب ہے جس کے پیچھے دوڑتے ہوئے پیاسا آخرکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب ایک غلام قوم ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کرتی ہے تو انجام کار وہ صرف اپنی توانائیاں کھو بیٹھتی ہے، اور اس کی جان نکلنے میں دیر نہیں لگتی۔

قوم کی "فوتگی” سے مراد اس کا تدریجی خاتمہ ہے، یعنی وہ اپنی شناخت، شعور اور وجود کھو بیٹھتی ہے۔ جب ایسے انجام کی جھلکیاں آنکھوں کے سامنے ہوں تو کیا کوئی غلام قوم واقعی ترقی کا خواب دیکھ سکتی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ کیونکہ اس خواب کو غلامی کی موجودگی میں حقیقت کا روپ دینے کی کوشش اپنی قومی بقا سے دستبرداری کے مترادف ہے۔ اپنی قوم کی بقاء کو زوال کی صورت میں دیکھنا اور محسوس کرنا ہر قوم دوست، ہر باشعور فرد کے لیے سب سے تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔

غلام اقوام صرف خواب دیکھ سکتی ہیں۔ یہ خواب ان کے اندر محرکات ضرور پیدا کرتے ہیں، مگر ہر حرکت، ہر کوشش، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔

عمل کی تعریف کرتے ہوئے مجھے "انقلابِ روس” نامی کتاب کے مصنف مسعود کے الفاظ یاد آتے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
"ہر وہ کام جو کوئی نتیجہ پیدا کرے، عمل کہلاتا ہے۔”

وہ ایک سادہ سی مثال دیتا ہے: ایک شخص اپنے کمرے کو جھاڑو دیتا ہے، اسے صاف ستھرا رکھتا ہے؛ دوسرا شخص کمرے میں رہتا ہے مگر جھاڑو نہیں دیتا، نتیجتاً گرد و غبار جمع ہو جاتی ہے۔ اس کے مطابق جھاڑو نہ دینا بھی ایک عمل ہے، کیونکہ اس کے نتائج پیدا ہوئے — یعنی گندگی اور بیماری۔ اگرچہ وہ شخص باہر سے کوڑا کرکٹ لا کر کمرے میں نہیں پھینکتا، مگر اس کی سستی اور بے حسی نے بھی ایک منفی نتیجہ پیدا کیا ہے۔ اس کا ذمہ دار آخر کون ہے؟
اگر ہم سچائی سے کام لیں تو اس شخص کو کسی صورت بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا جس نے کمرے میں رہتے ہوئے بھی صفائی کی زحمت نہ کی۔

اب سوال یہ ہے: کیا ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، اس میں منشیات کی آزادانہ فروخت، چرس، ہیروئن اور دیگر زہریلی اشیاء کی فراوانی کے ذمہ دار ہم نہیں؟ کیا ہماری خاموشی ایک "عمل” نہیں جو نتائج پیدا کر رہا ہے؟

آج منشیات فروش ہماری خاموشی کے سبب خود کو بہادر سمجھنے لگے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس زہر کے سبب اپنی خاندانی، قومی اور سماجی ذمہ داریوں سے غافل اور قاصر ہوتی جا رہی ہے۔ دشمن ریاست اس خاموش زہر کو بلوچ قوم کے خلاف ایک "خاموش ہتھیار” کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ وہ ہمیں میدان جنگ میں ہی نہیں، بلکہ کیمیکل کے ذریعے تباہ کر رہا ہے۔

یہی کاروبار جو کل تک پردوں کے پیچھے ہوتا تھا، آج سرعام سڑک کنارے کیبنوں میں ہو رہا ہے۔ میڈیکل اسٹوروں میں نشہ آور گولیاں کھلے عام فروخت کی جا رہی ہیں، اور یہ زہر بلوچ نوجوانوں کو بیچنے والے اکثر خود بلوچ کاروباری افراد ہیں، جو دولت کی ہوس میں اندھے ہو چکے ہیں۔

کیا یہ سب کچھ صرف ظالم کا عمل ہے؟ یا مظلوم کی خاموشی بھی اس ظلم کو ممکن بنانے میں برابر کی شریک ہے؟

اگر ہم واقعی قوم دوست ہیں، اگر ہم اپنی بقا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی ذمہ داری کا شعور حاصل کرنا ہوگا۔ کیونکہ غلامی صرف زنجیروں سے نہیں، بلکہ غیر ذمہ داری سے جنم لیتی ہے۔ اور ترقی، صرف خوابوں سے نہیں بلکہ عمل، قربانی اور شعوری ذمہ داری سے
ایک وقت تھا جب بلوچ سماج میں منشیات سے کسی حد تک احتیاط برتی جاتی تھی۔ مگر جب قومی تحریک نے ابھرنا شروع کیا، تو دشمن نے ہمارے نوجوانوں اور بزرگوں کو برباد کرنے کے لیے انہی زہریلی اشیاء کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا۔ آج یہ زہر گلی کوچوں میں آسانی سے دستیاب ہے۔ اگرچہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کی مسلسل کارروائیوں نے اس ناسور پر کسی حد تک اثر ڈالا، مگر اب اس کاروبار کی سرپرستی وہی بلوچ کُش مافیا کر رہی ہے جو غیروں کے حکم پر عمل پیرا ہے اور دولت کے انبار اکٹھے کرنے میں مصروف ہے۔

میں اس مثال کے ذریعے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ غلامی کے خلاف ہماری خاموشی کیا بذاتِ خود ایک عمل نہیں؟ کیا یہ خاموشی غاصب اور قابض کو مزید مضبوط نہیں کر رہی؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مظلوم ہو، اس پر ظلم روا رکھا جائے، اور وہ خاموشی سے سب کچھ سہتا رہے، پھر بھی دعویٰ کرے کہ وہ اس ظلم میں شریک نہیں؟ کیا ظالم سے لاتعلقی اور مظلوم سے اظہارِ یکجہتی نہ کرنا بھی جرم نہیں؟

مجھے حیرت ہے کہ بلوچ معاشرے میں ایک خاص سوچ پنپ رہی ہے کہ "ہم درمیان کے لوگ ہیں، ہمیں کسی سے کوئی سروکار نہیں”۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کے درمیان کھڑا ہونے والا وہ "درمیانی انسان” درحقیقت سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ نہ ظلم کو روکتا ہے، نہ مظلوم کا ساتھ دیتا ہے۔ وہ صرف خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غلامی کے خلاف اس "چپ کا روزہ” رکھنے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ خاموشی ایک مجرمانہ عمل نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"ظلم کو اپنے ہاتھ سے روکنا افضل، زبان سے روکنا ایمان کا دوسرا درجہ، اور دل سے برا جاننا ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔”

اس حدیث کے مطابق ظالم اور مظلوم کے درمیان نیوٹرل رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ نیوٹرل رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ظلم کو قبول کر رہے ہیں، اور یہی طرزِ عمل معاشرے میں بگاڑ اور خونریزی کو جنم دیتا ہے۔

یہی وہ شترمرغ ہے جو طوفان کے وقت ریت میں سر چھپا لیتا ہے، گویا کہ طوفان ٹل جائے گا۔ کیا یہ حقیقت سے فرار نہیں؟ حقیقت سے فرار اختیار کرنے والے ہمیشہ تقدیر کے پیچھے چھپتے ہیں۔ وہ تقدیر کو ایسی دیوار بنا لیتے ہیں جس کے پیچھے اپنی ذمہ داریوں سے بچا جا سکے۔

اگر ہم یہ مان لیں کہ بلوچستان کی پاکستان میں بزور شمولیت تقدیر کا فیصلہ تھی، تو پھر ہمیں احمد یار خان اور غدار سرداروں کے کردار پر بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمیں محمد علی جناح یا دیگر پاکستانی اکابرین کی مذمت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔

لیکن اگر غلامی کو تقدیر کا حصہ مان لیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی منشا ہی یہی تھی کہ بلوچ قوم غلامی کی زندگی گزارے۔ کیا یہ تصور کفر کے قریب نہیں کہ ہم ظلم، جبر، اور استحصال کو خدا کی منشا کہہ کر جواز فراہم کریں؟

اسی لیے پاکستانی ریاست کے زیرِ اثر علماء بلوچ مزاحمتی تحریک کے کارکنوں کو "کافر” قرار دیتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق یہ لوگ مشیتِ ایزدی کے خلاف سرگرم ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ اللہ اب بلوچوں کو آزادی اور عزت سے نوازنا چاہتا ہے، تو کیا پاکستانی فوج اور ریاست اس خدائی فیصلے کی مخالفت کر کے خود کفر کے مرتکب نہیں ہو رہے؟

روزِ محشر، اعمال نامہ، جزا و سزا کا تصور ہمیں صاف طور پر یہ پیغام دیتا ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ذمہ دار ہے۔ اگر سب کچھ تقدیر میں لکھا ہے، تو پھر قیامت کا دن، حساب کتاب، عدل و انصاف کا نظام کیوں قائم کیا گیا؟ اگر سب کچھ پہلے سے طے ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اگر وہ چوری اس کی تقدیر میں تھی، تو یہ عدل نہیں، بلکہ جبر ہوتا۔

علی عباس جلالپوری اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ "تقدیر کا مطلب ہے اندازہ”۔ یعنی جو کچھ انسان کرتا ہے، وہ پہلے سے طے نہیں ہوتا، بلکہ اس کے اپنے عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر جبر کا یہ نظریہ عوام، خاص طور پر سادہ لوح بلوچوں کو ان کے حقوق سے غافل رکھنے کا ایک مؤثر حربہ رہا ہے۔ انہیں سکھایا گیا ہے کہ ان کی غربت، غلامی، جہالت، سب ان کی تقدیر ہے۔

لیکن جدید سائنس اور انقلابی نظریات نے اس جبر کو چیلنج کیا ہے۔ آج انسان نہ صرف فطرت کو تسخیر کر رہا ہے، بلکہ اپنے حالات، اپنے سماجی اور معاشی نظام کو بھی بدلنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اگر ہم اپنے اعمال، افکار، اور کردار کے ذمہ دار ہیں تو ہم بہتر معاشرہ، بہتر قوم، اور بہتر دنیا تخلیق کر سکتے ہیں۔

اسی لیے اموی خلافت کے خلاف عباسی داعیوں نے "قدر و اختیار” کے نظریے کو فروغ دیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسانوں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار بنائے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔ لیکن جب وہ خود اقتدار میں آئے تو اسی جبریت کا سہارا لینے لگے۔

یہی وجہ ہے کہ انقلابی افراد اپنے افعال کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ وہ جواب دہی سے نہیں گھبراتے۔ وہ فکری و عملی جدوجہد سے معاشرے میں اثر پیدا کرتے ہیں، اور قوم کے لیے آئیڈیل بن کر ابھرتے ہیں۔

کیوبا کے فیڈل کاسترو، جو نہ صرف جنگ میں خندقوں میں شریک تھے، بلکہ صدر بننے کے بعد بھی راتوں کو گنے کے کھیتوں میں مزدوروں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ یہی جذبہ، یہی مثال، قوموں کو بیدار کرتی ہے، ان میں احساسِ ذمہ داری جگاتی ہے۔

جب پوری قوم ذمہ دار بن جائے، تو آزادی کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔ یہی احساسِ ذمہ داری پارٹی کی کارکردگی کو بڑھاتا ہے، اور منزل کو قریب لے آتا ہے۔ اگر ہم سب ذمہ دار بن جائیں، تو مشکلات رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ کیونکہ محنت اور ذمہ داری لازم و ملزوم ہیں۔

ہم شمالی کوریا کی تحریکِ آزادی کے سرخیل، عظیم انقلابی رہنما کم ال سنگ کا ایک سبق آموز واقعہ یاد کرتے ہیں۔ جب ایک کامریڈ نے مطالعے اور علمی تیاری کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لیے یہ جواز پیش کیا کہ جنگِ آزادی لڑنے کے لیے پڑھنے کی نہیں، بندوق چلانے کی ضرورت ہے۔

کم ال سنگ نے اسے خاموشی سے ایک پرچی بھیجی جس میں فوری طور پر مرکز میں حاضر ہونے کی ہدایت درج تھی۔ وہ پرچی لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا، لیکن تمام کامریڈوں نے اسے پڑھنے میں تاخیر کی اور ٹال مٹول سے کام لیا۔ جب بالآخر وہ پرچی لے کر کم ال سنگ کے پاس پہنچا، تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

کم ال سنگ نے اسے احساس دلایا کہ اگر وہ بروقت پرچی پڑھ لیتے، تو وقت ضائع نہ ہوتا اور نہ ہی ساتھیوں کے پاس جا کر منت سماجت کی ضرورت پیش آتی۔ تب اس کامریڈ کو شدت سے احساس ہوا کہ اس نے مطالعے اور علم سے منہ موڑ کر سنگین غلطی کی ہے۔ اس نے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا، اور پھر بھرپور محنت سے پڑھائی میں مشغول ہو گیا۔

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ احساسِ ذمہ داری نہ صرف ہمیں عمل پر آمادہ کرتا ہے بلکہ غلطیوں کے امکانات کو کم کرتا ہے، اور ہمیں محنت کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ آج شمالی کوریا کی خودمختار قوت، برق رفتاری سے حاصل کردہ ترقی، اور اپنے ہر منصوبے کو مقررہ وقت سے پہلے مکمل کرنے کی صلاحیت اسی احساسِ ذمہ داری سے پیدا شدہ محنتِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ یہی وہ انقلابی جذبہ ہے جس نے امریکہ جیسے سامراجی ملک کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔

اس وقت جب بلوچ قوم دشمن سے جنگِ آزادی لڑ رہی ہے، ہماری ذمہ دار بننے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اب ہمیں نہایت محتاط، کم گو، سوجھ بوجھ رکھنے والے، چھان پھٹک کرنے والے، منصوبہ ساز اور جدّت پسند بننا ہوگا۔ کیونکہ ہماری ایک چھوٹی سی غلطی بھی ہمیں لے ڈوب سکتی ہے۔

جب سمندر طوفانی ہو، اور کشتی لہروں کے تھپیڑوں سے لرز رہی ہو، تب ناخدا اور مسافر جس عزم، تدبر اور امید کے سہارے کشتی کو بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں، بعینہٖ آج بلوچ قوم اسی کشاکش سے دوچار ہے۔ وہ منزلِ آزادی کی طرف گامزن ہے، اور ہر بلوچ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے انفرادی کردار میں ذمہ دار ہو، بلکہ ہر بلوچ آزادی پسند پارٹی کا کارکن بھی اپنی پارٹی کے فیصلوں، رویّوں اور اقدامات کے لیے اجتماعی طور پر قوم کے سامنے جواب دہ ہو۔

تاکہ ہم اس جدوجہدِ آزادی کے دوران بھی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکیں، اور آزادی حاصل کرنے کے بعد پیدا ہونے والی نئی ذمہ داریوں سے بھی بطریقِ احسن عہدہ برآ ہو سکیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

دکی: پاکستانی فورسز کا جعلی مقابلہ، ایک شخص کی شناخت لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی

ہفتہ اپریل 19 , 2025
بلوچستان کے ضلع دکی میں آج پاکستانی فورسز نے ایک جعلی مقابلے میں پانچ افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں پہلے سے لاپتہ کیے گئے محمد دین مری بھی شامل ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ محمد دین مری کو فورسز نے چار ماہ قبل ہرنائی سے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ