سیاسی سماجی انسانی حقوق کیلے کام کرنے والے سوشل میڈیا صارف کامریڈ وسیم سفر بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ سامراج قابض گیر سے بنیادی حقوق حق حاکمیت ساحل وسائل پہ اختیار درخواست کرنے پہ نہیں قوت بازو کے زور پر چھینا پڑے گا۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ قوم اس وقت ایک نازک حالات سے گزر رہی ہیں بلوچ ساحل وسائل پر قابض لوگوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے بلوچ قوم کی سرزمین پہ یلغارِ کرتے ہوئے ان کی کوئی نہیں سنی جائیں گے اگر کسی نے سرکشی کرنے کی کوشش کی طاقت کے بل بوتے پر انہیں کچل کر صفحہ ہستی سے مٹا دینگے یہ سامراج قابض گیر قوتوں کی بیانیہ ہے،،
حالیہ دنوں تعلیمی اداروں کے اندر بلوچ طلباء طالبات کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ہراساں کرنے جبری گمشدگیوں ماروائے عدالت اغواء نما گرفتاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہیں ۔
دوسری جانب بلوچ تاجر برادری کے کاروباری سرگرمیوں پہ مکمل پابندی عائد کردی گئی ہیں بلوچستان میں ہرشے پر انہی مقتدرہ قوتوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ختی تک بلوچ ڈیاڈی والے مزدور بغیر سامراجی طاقتوں کی اجازت کے بغیر مزدوری نہیں کر سکتا قدرتی وسائل سے خود کفیل دھرتی کے باسی نان شبینے کا مختاج بنا دیا گیا ہے بلوچ ساحل وسائل سے مستفید دوسرے لوگ بلوچوں کے حصے میں ترقی بلوچ نسل کشی پراجیکٹس نے کیا ہے روز بروز بلوچ قتل عام کمپنی کو مزید مستحکم منظم کرنے کیلئے نت نئی ایجادات دریافت کیا جا رہا ہے آگر یہ سلسلہ جاری رہی معذب دنیا نے اس سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں پہ توجہ نہیں دی تو برصغیر ایشاء میں انسانی بحران جنم لینگے ۔
اس کی زمہ مہذب دنیا انسانی حقوق کے خود کو علمبرداروں پر عائد ہوگی ،ساتھ ہی عالمی پائیدار امن کیلئے خطرہ کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ بلوچستان میں ریاستی فورسز ملکی بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں یونائیٹڈ نیشن بین الاقوامی میڈیا انسانی حقوق کی تنظیموں کے لوگ بلوچستان میں آزادانہ سروے کریں انہیں خود اندازہ ہوگا بلوچستان بلوچ قوم کیسے ازیت ناک کیفیت سے گزر رہی ہیں ۔
انھوں نے کہاہے کہ انہوں نے باقاعدہ طور پر عالمی انٹرنیشنل کمیونٹی کی توجہ کو مرکوز کرنے کیلئے نیشنل پرویشنل اسمبلی سینٹ میں باقاعدہ طور پر اپنی پیوریٹ کے لوگوں کی کثیر تعداد بھرتی کیئے ہوئے ہیں۔
اپنے ہی بنائے گئے ملکی آئین کے اندر روز نئ ترمیم کی جا رہی ہیں جو اختیارات مقتدرہ قوتوں کے پاس پہلے آئینی و قانونی طور پر نہیں تھے اب انہیں باقاعدہ Provide کر رہے ہیں،،
حالیہ ایک نئے قانون سازی کرنے کیلئے نیشنل اسمبلی سینٹ میں قراد داد پاس ہوئی ہیں ۔
فوج خفیہ ایجنسیوں کو باقاعدہ آئینی قانونی طور پر یہ اختیارات دیئے گئے ہیں 6 مہینے تک کسی بھی شخص کو بغیر کسی وارنٹ گرفتاری شک کی بنیاد پر پکڑ کر جبری طور پر لاپتہ کرنے کی اختیارات قانونی طور پر دی گئی ہیں۔
اب یہ جعلی قانون سازی کس کیخلاف استعمال ہوگا بلوچ سندھی پشتون جو اپنی بقاء تخفظ کی بات کرتے ہیں ۔
ہماری مزاحمت جدوجہد کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے اسے بند کر کے غیر قانونی قرار دی جائے ،
اس ملک کے مقتدرہ قوتیں عوامی مطالبات کے برعکس اپنی طاقت کے بل بوتے پر اسے قانونی شکل دی جا رہی ہیں تاکہ اس سے زیادہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کر کے بلوچوں کو اس سے زیادہ اذیت میں مبتلا کردیا جائے ،
اینٹر نیشنل کمیونٹی انسانی حقوق کی تنظیمیں یونائیٹڈ نیشن کو بھی باقاعدہ طور پر انفام کیا گیا ہے ان تمام غیر آئینی غیر جمہوری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے بارے میں آگاہ مکمل ادارک ہیں ،
جسکی خاموشی اختیار کی جانے کی وجہ ابھی تک بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کی اس ملک کیساتھ چند مفادات ہیں جو کہ عالمی انٹرنیشنل کمیونٹی انسانی حقوق کے علمبردار تنظیموں یونائیٹڈ نیشن کی خاموشی نظریں چرانے کے باعث بن رہے ہیں ۔
انھوں نے الزام لگایا ہے کہ مقتدرہ نادیدہ قوتیں کے کہنے پر دنیا کی توجہ مرکوز کرنے کیلئے ملکی جعلی نام نہاد الیکٹرونک پرنٹ میڈیا کبھی حقائق پر مبنی رپورٹ سامنے نہیں لاتے ہیں،
وہ وہی سامراجی بیانیہ کو ہائی لائیٹ کرتے ہیں جو ظالم کا بیانیہ ہے مظلوم کی بیانیہ کو سپورٹ کرنے کیلئے یہاں ہر چیز کاؤنٹر کیا گیا ہے ،
اب بلوچ قوم کے سیاسی نظریاتی شعور یافتہ لوگوں کے پاس کیا آپشن ہے اس نازک حالات اپنے آپ کو نکالنے ان تمام مصائب مشکلات سے سے گزر کر اپنی بقاء تشخص کی پاسداری کرنے کیلئے وقت حالات کی اشد ضرورت Unity ہے اب وہ یہ دور نہیں بلوچ کریڈیٹ نام آواری کی خاطر ایک دوسرے سے دست گریباں متنفر ہو جائے ۔
بلوچ قوم کے پاس کوئی دیگر وسائل نہیں سوائے اس کی شعور بیداری unity سے عین اسی وقت بلوچ اگر ہوش کے ناخن نہیں لئے ایک نقطے پر متفقہ اتفاق نہیں کیا گیا جو بلوچ قوم کی اشتماعی مفادات میں ہیں ،
عدم اعتماد عدم برداشت کی پالیسی پہ عمل پھیرا ہوتے اب ہم اکھٹے نہیں ہوئے آئندہ ادوار میں بلوچ کیلئے مزید دشواری کا سامنا کرنے اشتماعی نقصان کا باعث بنتی ہیں
سامراجی قابض گیر قوتوں کی پالیسی طاقت کا استعمال تقسیم در تقسیم کے ذریعے مظلوم محکوم قوموں کی استحصال کیا جائے ۔
جیساکہ انوار الحق کاکڑ سرفراز بگٹی جیسے لوگوں کو وزیراعظم وفاقی وزیر داخلہ مرکزی سطح پہ لاکر ریاستی جبر جارہیت جسٹیفائی کرنے کیلئے بلوچ قومی مقدمات کو دبانے کیلئے انہی نام نہاد جیسے کرائے داروں سے کام لیا جاتا ہے اب وزیر بلوچستان میں سارے ریاستی ٹکڑوں پہ پلنے والے لوگوں کو اقتدار پہ بٹھایا گیا ہے کیوں کس وجہ سے تاکہ وہ ہر جائز ناجائز عمل کرنے میں ریاست مشنیری کا دفاع کریں ،
اسوقت بلوچ قوم کے منظم مربوط کیسے پالیسی ہیں انہیں بروکار لاکر اپنی تحفظ بقاء کی پاسداری کرنے کیلئے استعمال کریں تاکہ بغیر اپنی قوم کو اس دلدل سے نکال کر اپنی ساحل وسائل کی حفاظت کر سکیں ،
ایک ایسی پالیسی اختیار کی جائے اس سوچ کو پروان چڑھائیں تاکہ وہ سامراج قابض گیر ٹولہ کے غرور حاک میں مل کر انہیں شعوری نظریاتی سیاسی طور پر شکست دے سکے اخلاقی شکست تو بہت پہلے کھا چکے ہیں،
لیکن بلوچ قوم کو اپنی بقاء کی پاسداری کرنے کی خاطر جزباتی نہیں سیاسی نظریاتی طور پر دفاع کرنا چاہیے
عین اسی وقت ایک دوسرے سے دست گریباں آپس کی اختلافات اپنے آپ کے اندر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش دائمی نقصانات کے باعث بن سکتی ہیں جسکی ازالہ کرنا ناممکن ہے،
ایک طرف وہی مقتدرہ دیدہ نادیدہ قوتیں مشترکہ آپ کو تھوڈنے کی شب روز کوششوں میں مصروف عمل ہیں دوسری جانب ہم اپنی نادانی آنا بغض کینہ پسند ناپسند کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے ہیں باہمی تضادات کے شکار لوگ بہت آسانی سے دشمن کے شکار ہو سکتے ہیں ،
بلوچ سرزمین قومی تشخص بقاء کی دفاع پاسداری بغیر کسی مفادات کی خاطر ہر کوئی قربانیاں دی جا رہی ہیں کسی کا کوئی اغراض مقاصد نہیں ہیں پھر یہ اختلافات کہاں سے پیدا ہوئی ہیں
آپس میں چند وجوہات طریقہ کار پہ اگر کسی سیاسی نظریاتی کارکن کو ایک دوسرے کیساتھ کوئی سیاسی اختلافات ہیں بشرطیکہ کہ وہ ذاتی نہیں سیاسی نظریاتی اختلافات کا حل نکالا جا سکتا ہے ،
سامراج نے ہر طرح ہماری قومی قوت کو منتشر کرنے کیلئے ہمیں مختلف قوم قبائل زبان پارٹی علاقوں میں تقسیم کر کے ایک بہت سی مدت میں انہی مندرجہ چیزوں کے نام پہ تقسیم کر کے آپس میں لڑایا ہے
پارٹیاں بنیں صحیح ہے لیکن ہر سیاسی جماعت اسکے قیادت و کارکنوں ایک ہی سرزمین کے باسی ہونے کے ناطے ایک دوسرے کیساتھ سلام دعا تک کرنے کو گورا نہیں کرتے ہیں آخر کیوں ؟
یہ حالات ابھی تک ختم نہیں موجود ہیں ہم نہیں بدلے ہیں ابھی تک اپنی کینہ انا عداوت بغض پہ قائم آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے آپس کی دست گریبانی مقابلہ بازی کو فخر محسوس کرتے ہیں ۔
اگر ان 77 سالوں سے ہماری بلوچ قوم کی مقابلہ آپس کی بجائے سامراج قابض گیر قوتوں سے ہوتی ہم کب تک اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکے ہوتے تھے ،
جیساکہ کہ وفاقی پارلیمانی پارٹیاں ایک دوسرے کیساتھ شدید اختلاف رکھتے ہیں اس کے باوجود بلوچ سندھی پشتون کی نسل کشی استحصال لوٹ مار کرنے کیلئے ان سب کی ایک ہی بیانیہ اسکی لیڈر شپ اوپر نچلے طبقے ہی مائینڈ رکھتے ہیں،
چاہیے مسلم لیگ ن ، ہو یا کہ پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف ، دیگر کوئی چھوٹی موٹی وفاقی جماعتیں بلوچستان دیگر مظلوم محکوم قوموں کی قبضہ گیری استحصال کیلئے ایک ہی نظریہ ا رکھتے ہیں ۔
ہماری بہ ایک وقت دس دس سیاسی پارٹی سماجی تحریک تنظیمیں ہر کوئی ایک دوسرے سے الگ الگ مائینڈ رکھتے ہیں، ایک بات یاد رکھیں وہاں اسٹبلشمنٹ کبھی دس دنوں تک کوئی پارٹی سندھ خیبر پختونخوا پنجاب میں نہیں بنا سکتے ناکہ پنجاب سندھ خیبر پختونخوا کے لوگوں کو کبھی ادھر اُدھر شمولیت کرواتے ہیں لیکن اسٹبلشمنٹ کی تجربہ گاہ بلوچستان BAP پندرہ دنوں کے اندر بنتی ہیں تمام نشستوں کو جیت کر صوبائی حکومت بناتی ہیں آج مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی کی وجود نہیں یہاں الیکشن جتوا کر آج پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ بدقسمتی سے یہاں بلوچستان میں ہم آپس میں کبھی ایک دوسرے کیساتھ بیٹھنے سننے سمجھنے برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
اس طرح ہم کہاں اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں منزل پانے کے بجائے کھو رہے ہیں کیوں آخر کار کسی کے پاس کوئی دلائل نہیں بس غداری کے سرٹیفکٹ بانت رہےہیں فلاں غدار ہے وہ کہتا ہے فلاں غدار ہے انہی آپس کی شک عدم اعتماد کی بنیاد پر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ، سامراج کی ظلم جبر بربریت میں روز بروز کمی کے بجائے شدت لائی جا رہی ہے ایسا کوئی لمحہ نہیں بلوچستان کے کسی علاقے محلے گاؤں شہر میں ایک بلوچ کی لاش نہیں پہنچتا اور ایک دو درجن لوگ جبری لاپتہ نہیں ہو تے ۔
انھوں نے کہاہے کہ بنگالیوں نے مختصر وقت میں اپنی منزل حاصل کیا 1947 سے لیکر 1971 کل 24 سال کے دوران بنگالیوں نے باقاعدہ طور پر ریزلٹ حاصل کرنے کے علاؤہ کامیاب ہوئے ہیں وہ سبق بنگالیوں نے سکھائی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
ہمیں دیگر کسی قوم کی مزاحمتی تاریخ اسٹیڈی کرنے کی ضرورت نہیں صرف بنگلہ دیش بنگالیوں کی تاریخ ہمیں دیکھنی چاہیے کیوں ہم اتنی قربانیاں دینے کے باوجود دنیا کی توجہ کو اپنی جانب مرکوز کرنے میں ناکام رہے ہیں آخر کیوں بلوچ قوم کی سفارت کاری اتنی کمزور کیوں ہے آج تک دنیا کے کوئی بین الاقوامی میڈیا ادارے انسانی حقوق کی تنظیم بلوچ قومی مسئلے کے بارے میں کھل کر اظہار کرنے سے کترا رہے ہیں ۔
آخر کیا وجوہات ہیں ؟ لمحہ فکریہ ایک قومی سوال سب کیلئے جو اندرون بیرون موجود ہیں کب تک ہم اسی طریقے سے چلتے رہینگے دشمن کے ہاتھوں مار کھا کر اسی طرح جبری گمشدہ ہوتے ہوئے جعلی مقابلوں میں مرتے رہینگے ، سب سے یہی گزارش ہے بلوچ قومی معاملے کی مستقل دائمی حل کیلئے سارے بلوچ مزاحمتی تحریک تنظیم سیاسی جماعتوں کے رہنما کارکنوں تمام اسٹیک ہولڈرز اکھٹے مل بیٹھ کر متفقہ طور فیصلہ کر کے اپنے آپس کی تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مسئلے کیلئے ایک صفحہ پہ متحد ہونا چاہیے بلوچ قومی بقاء کی پاسداری تحفظ دفاع کی جنگ اکھٹے لڑنا چاہیے ورنہ یہ آپس کی عدم برداشت عدم اعتماد نے ہمیں اس نہج تک پہنچا دیا ہے مزید بربادی کی طرف جائیں گے۔