ر ضا۔۔۔۔۔پیارے برا نہیں منانااگست وہ مہینہ ہے کہ جس میں بلوچ کو کچھ زیا دہ ہی درد ملے ہیں ،اپنی دواآپ ہونے والے درد ،جن کا درمان آزادی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اسی مہینے سامراج کے آستین میں پلے بڑھے سانپ باہر نکل آیا جو نہ صرف بلوچ بلکہ پوری انسانیت کو بے دردی سے ڈس رہا ہے ،دنیا جہا ں کے عفریتوں کی جائے پناہ اور پرورش گاہ ہے،یہاں انہیں پال پوس کر ان کی نیش تیز کئے جاتے ہیں۔۔۔فربہ بنائے جاتے ہیں۔۔۔اور پھرمشرق و مغرب میں انسانیت کو ڈسنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔۔۔
آس پاس دیکھئے کون سلامت رہا، اس کی شیطانی فطرت اور ہامانی سازشوں سے ۔۔۔وہ لال قلعہ ہے ،جہاں ہندوستان کے گنگا جمنی تہذیب کے آثار جل رہے ہیں ۔۔۔یہ بمبئی کا تاج محل ہے، جہاں سے شعلے بلند ہورہے ہیں ۔۔۔وہ کابل ہے ،اپنی شیطانی منصوبوں کے لئے آئی ایس آئی کا بے دام تجربہ گاہ ہے ۔۔۔یہ سندھو دیش ہے ،درداور بیچارگی کے کفن میں لپٹی ہوئی آہیں بھررہی ہے ،سسی ایک بار پھر پنّوں کو آوازیں دے رہی ہے ۔۔۔مائی بھاگی کی آوازتھر کے صحرا میں اپنی مسیحا کی تلاش میں ہے۔۔۔سندھی شاعر وادیب تصوف میں پناہ ڈھونڈرہے ہیں۔۔۔حمل جیئند کے بچے تو تاریک راہوں میں مارے جانے عادی ہیں۔۔۔۔روز مارے جارہے ہیں لیکن ارمان اس لئے نہیں کیونکہ بقاء کی سفر میں یہ معمول بن چکا ہے ۔
رضا۔۔۔۔بی ایس او کا لیڈری اب آسان نہیں رہا ، تو نے خود ببانگِ دہل اعلان کیا تھا کہ’’وہ دور گزر چکا کہ لیڈروں کو شہداء کے فہرست کی ضرورت ہوتی تھی ، خود شہدا ء کے فہرست میں آنا لیڈری کے ضمرے میں نہیں آتاتھا،لیکن اب وہی لیڈر کہلاتا ہے جو جان ہتھیلی پر رکھنے کی یارا رکھتاہو‘‘ جو کہا تو خودجھیل جا ،اس حقیقت کو سننے کے لئے انقلابی سماعت چاہیے کیونکہ تاریخ تو کہہ رہی ہے کہ قومیں جب سچائی کو پالیتی ہیں تو ایسے جملے ہوا میں کہاں تحلیل ہوتے ہیں وہ عالمی دانش کا حصہ بن جاتی ہیں۔
غلام محمد نے ایسا سوچا اوربولا، تو چہ میگوئیاں برسرِ بازار شروع ہوئیں لیکن غلام محمد کے سر میں کچھ اورہی سودا سمایا تھا کہ پاکستانی عروس البلادلیکن بلوچ اور سندھیوں کے ارمانو ں کی مدفن کراچی میں گھن گرج کے ساتھ اعلان کرگئے کہ ’’دنیائے نوکیں رہبندءِتہا پاکستان نیست انت‘‘ ۔یہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ تھا کہ جب عظیم مقصدسے جڑے عشق کے سفر کو صحیح سمت اور جاندار تحرک ملے تو ایسے جملوں کا نزول ہوتا ہے۔ ۔۔مثبت اورتوانائیوں سے لبریز جملوں کا۔۔۔۔صبا نے بھی اپنے آفاقی تقریرمیں یہی کہا کہ’’ میں بولوں گا ،میں سچ بولوں گا‘‘تو یہ مارٹھرکنگ لوتھرسمیت کیسے کیسے نابغہ ہستیوں کا نیاجنم تھا،سچ کا بول بالا ہی رہا گوکہ ہماراسایہ دار برگد، آتشین آراء سے چیراگیا۔۔۔فلک کی گردش صدیوں کا چکر پورا کرتی ہے، تب ارتقاء من موج میں آتاہے ،اپنی لطف و مہربانیوں سے قوموں کو بہرہ ور کرتی ہے۔۔ ۔اور ایسے تاریخی جملوں کا نزول ہوتی ہے ۔۔۔بلوچ وطن آج انہی مراحل سے گزر رہا ہے ۔ایسے جملے ریڈیائی لہروں کے ساتھ دنیائے اثیر میں پورب سے پچھم اور اُتر سے دَکشن کا سفر سیکنڈوں میں طے کرکرکے دلوں میں اُترتی ہیں ۔۔۔اثر کرتی ہیں۔۔۔اب پوری دنیا انہی جملوں کا کسی نہ کسی حوالے سے پیروی کررہاہے،یہ جہدِبلوچ کی آفاقیت ہے کہ لال خان تو پرانا پاپی ، برگشتہ اور لادین کمیونسٹ ہے جو پاکستان کے وجود پر سوالیہ نشان لگاتا پھرتا ہے ۔۔۔بی رامن اور کرس میسن جیسے لوگ تو پاکستان کے اسلامی قلعے اور اُمہ کے نگہبان کی اولین دشمن ہیں،اُن کی نظرمیں توپاکستان ایک ناسُور ہے۔۔۔احمد رشید کوبلوچ جہدِآزادی کے ہر سرمچار کے کندھے پر انڈین کلاشنکوف نظر آتا ہی ہو سہی مگر پاکستان کے عالم ِنزع میں ہونے کے اعلان کرنے میں سب سے باج لے گئے ، خواہ لاہور میں ہوں یانیویارک میں۔۔۔۔ڈاکٹر مبارک علی پنجابیوں کی فطری بزدلی اور باجگزاری پر پردہ ڈال ڈال کر بھی نظریہ پاکستان کے چھاؤں چھپر تلے سسکتی پاکستان کے لئے اچھے دنوں کی اُمید توڑ چکا ہے ۔۔۔اور تو اور اب دائیں بازو کی پہلے صف کے ٹھیٹ پنجابی ایاز امیر بھی پاکستا ن کی موجودہ سرحدوں کو غیرفطری قرار دینے میں عافیت جان چکے ہیں ۔
رضا۔۔۔۔۔بلوچ وطن دشمن کے ہاتھوں پامال ہورہا ہے لیکن اس تخریب میں کیسی تعمیر مضمر ہے کہ جلے جلائے خرمن کے راکھ کو نجات کے سفر میں زادِ راہ بنا کر خستہ تن ۔۔۔خالی شکم ۔۔۔برہنہ پاء تیرے ساتھی اپنی فگار فگار نواؤں کے ساتھ قطار اندر قطار تھکے ، اُکتائے بغیر جیون کی کینوس میں نئے رنگ بھررہے ہیں جو انمٹ ہیں۔۔۔ انمول ہیں ۔۔۔اور ابدمان بھی ۔
رضا ۔۔۔۔۔تو شاعر بن کرمعتوب ٹھہرا ،اپنوں کی نظرمیں ، اوروں کی نظر میں بھی ،کھیل بچوں کا ہو ا ،دیدہ بینا نہ ہو ا،فراز بھی شاعرتھا’’بیست ءُیکمی کرن ءِ جوان‘‘ جیسی نظمیں تخلیق کرتے رہے ، سرمچاریں میرل بھی شاعر تھے ۔۔۔ قربانی کا تاج سر پر سجا کر امر ہوگئے ۔۔۔رضا آپ تو پوری عمر اپنی شاعرانہ مزاج اور جمالیاتی احساس کے ساتھ جہد میں نئے زاویے ،نئی تکنیک متعارف کراتے رہے ، شاعری کی پر کیف شاموں میں ہمیں اُداسیوں سے نکالتے رہے ۔۔۔ قاضی ،جس سے تم بہت پیار کرتے تھے ،بھی انقلابی شاعری کا صلیب کندھے پر لئے اُفتادگانِ خاک کے درد میں ساحل بلوچ کو کبھی ہنساتی، کبھی رُلاتی ہے ، تو نے گولے اپنے سینے پر سہے اور قاضی نے اپنی نظموں کے ذریعے گھر میں بم پھوڑوائے۔۔۔ زندان کا مزہ بھی چکھا لیکن باز نہیں آتا۔
رضا۔۔۔۔ادھرلیاری کے مجذوب فقیر اور ملامتی صوفی بھی درد کی حدت سے پک کر بلوچ کی جھولی میں آن گرا، دنیا جہاں کے طعنہ و تشنیع سہہ کر اور پاکستان کے درندوں کی موجودگی میں بھی چاکیواڑہ کے فٹ پاتھوں اورچائے کے سٹالوں پرآزادی کو خدا اور غلامی کو شیطان کا کارنامہ کہہ کر کبھی نہیں تھکتا،ڈر اور خوف کس بھلا کانام ہے ۔۔۔حاجی کے ڈکشنری میں یہ لفظ موجود ہی نہ تھے۔۔۔بے وجہ لوگوں کو اس کی سٹائل پر،طرزِ تخاطب پر اعتراض تھا ۔۔۔ وہ بھی ابلاغ کا بندہ تھا،بی این ایم کا مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھالیکن انداز فقیرانہ ۔۔۔قناعت اوڑھنا اور بچھونا تھا۔۔۔اس درندے نے اس طرح سفاکیت و حیوانیت کا نشانہ بنایا کہ بہن محترمہ سعیدہ سربازی بھی پہچان نہ سکی۔۔۔آخر کارلہو کی مہک نے گواہی دی تب سرزمین کے عجلہ عروسی کے سپرد کردی گئی۔۔۔زمین کھاگئی آسمان کیسے کیسے ۔۔۔اے عظیم بلوچ دانشور نوجوانوں نے تیرے قلم کو چھوم کر تھام لیا ہے ۔۔۔تیری فلسفیانہ فکروتدبراور حکیمانہ دانش تاقیامت بلوچ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتارہے گا۔
رضا۔۔۔۔تو شئے مرید بن کراپنے حانی کے حصول کے لئے تبلیغ کرتے رہے کہ "آج کے دور میں انقلابی علم و عمل کے میدان میں کمپیوٹر کی” کی بور”، بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے ، بلوچ کے پاس ابلاغی ذرائع بہت محدود ہیں ،اسے احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے لیکن یار دوستوں نے شہدا ء کے لہو کی حرمت کا یو ں خیا ل رکھ کر اس ذریعہ ابلاغ کا وہ حشر کیا کہ طالبان خواتین پر اس طرح تیزاب بھی نہیں پھینکتے جس طرح بلوچ سوشل میڈیائی شیروں نے تحریک کو داغدار کرنے کی کوشش میں نام کمایا ۔۔۔۔ "چھاج توبولی سوبولی چھلنی بھی بولی جس میں ستر چھید”۔۔۔واقعہ آپسر کے بعد ”اُن کی جئے ہو” کہ بی ایس او جیسی عظیم طلباء تنظیم اور بلوچ جہدِآزادی میں بنیادی نرسری کو "تباہ و بربا د "کرنے والے رضا جہانگیر بیوقوف دشمن کے گولوں کی نذر ہوگیا ، احمق دشمن، سوشل میڈیائی زیرک ودانا بلوچ خیرخواہوں کے سمجھانے کی باوجودیہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ نوجوان اپنے شاعرانہ فکر وخیال کی وجہ سے خود بی ایس او کا دھڑن تختہ کرنے والا ہے ، اسے مار کر زندہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے لیکن عقل و خرِد سے محروم پاکستان ان احباب کی لطف و مہربانیوں کا بارِ احسان نہ اُٹھاسکا اور چھریرے بدن والے رضا کو مار کر ہی ٹلا ۔
رضا۔۔۔۔۔تو نے عشق و الفت کی سفرمیں کبھی جتایا تو نہیں لیکن تجھے بلوچستان کے ہر گُل و بوٹے اور پتے پتے ،سنبل و ریحان نظر آتے تھے، اس لئے تو نہ کابل بھاگا اور نہ ہی خلیج ، لندن ، ناروے اور سویڈن کے جدید آسائش پسند کئے ۔۔۔ارے موقف وہی جسے یارلوگ دقیانوسی کہتے ہیں کہ ’’میرے تخیل کے پرواز کو جو مہمیز یہاں ملتی ہے وہ دیارِ غیر میں کہا ں میّسر ‘‘۔مبارک ہو آپ اپنے تخیل کے سہارے بلوچستان کے طول و عرض میں نظارہ کرتا جا اورتیری درد ہم جھیل لیں گے، البتہ یہ ایسی درد ہے جو دیگربے شمارتکالیف دبا دیتا ہے۔
رضا ۔۔۔۔خوب صورت بلوچستان کے ہر نوجوان خوب صورت اور با سیرت ہے ۔۔۔ حیا آنکھوں سے چھلکتی ہے ۔۔۔وقار تو خود فریفتہ ہے اُن پر۔۔۔انقلاب کے ارتقائی مراحل کے جان گداز سفر میں نکھر نکھر کر میدان میں اُترے ہیں ۔۔۔رضاتُوجو ہر وقت خوش تھا ،کیسی کائناتی مسکان تھی تیرے لبوں پر جو کبھی نہیں تھمتی ،وہ لوگ جوخوشی خارجی عناصر سے مستعار لیتے ہیں وہ کبھی بھی رضا نہیں بنتے ،ہاں جب خوشی کے تمام عناصر سرزمین سے جڑے ہوں تو وہ خارج نہیں اپنے من کی دنیا ہوتی ہے ۔۔۔ سراپا داخل ہوتی ہے ۔۔۔سرزمین سے جڑکر داخل اور خارج کی فرق اور دوئی مٹ جاتی ہے۔ ۔۔ایکتا لافانی بن جاتی ہے ۔۔۔جب سرزمین کی عشق سر میں سماتی ہے توایسی سازوجود میں آتی ہے کہ بجانے والا خود بھی بج سی جاتی ہے ۔اسی ساز کا نام رضا ہے۔
رضا۔۔۔۔۔تو نے "اَرزملک” اور مادروطن دونوں کی خدمت کو حذرِ جان بنالیا تھا۔۔۔ دونوں نے تجھے پیار سے نوازا ہے۔ ۔۔دونوں نے تیری پیار کا مان رکھا ۔۔۔دیکھو تو سہی اولذِکرنے تیرے وداع میں آفاقی سروں میں گیت گائے اور موخرالذِکرنے اپنے بانہیں پھیلا کر تجھے سینے سے لگایا ۔
رضا۔۔۔۔۔تو کتاب کا عاشق اور قلم کا سپاہی تھا۔۔۔تو جانتا تھا کہ انقلاب اور انقلابی عمل میں لٹریچر کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔۔ ۔پارٹیاں اور تنظیمیں تو تھیں مگر لٹریچر سے یکسر تہی دست ، ہرکسی کے پاس ایک عدد آئین کا کتابچہ ہوتا تھا وہ بھی پرائی زبان میں ۔۔۔اس میدان میں واضح خلاء تھی ۔۔۔بی ایس او نے اپنے تربیتی سیریز سے تپتے صحرا میں تشنگی بجھانے کا کام کیا ۔۔۔پھر توگویا انقلاب آیا۔ گروک ، سگار ،آزاد،پمفلٹ،بروشر اور مختلف کتابچے ،کیا کیا تیرے دستِ محنت سے سجے ،بجا کہ ٹیم ورک تھا مگر رضا تو ایسے ہی کاموں کے لئے اس دنیامیں آیا تھا ۔۔۔۔۔کہاں کہاں سے مواد جمع کرتا ، کراچی جیسی جگہ جہاں، ان کا محلہ بھی دشمن کی نظر میں آچکا تھا ،چھپتا چھپاتاکام کرنا اور کیموفلاج تو کوئی رضا ہی سے سیکھتا ۔۔۔رضا تیری محنت کو احاطہ شمار میں لانا ممکن نہیں، تیرے مضامین اوراشعار تاابد ہمارے کانوں میں رس گھولتے رہیں گے ۔۔ ۔کیونکہ ان میں بے باکی ہے۔۔۔ سچائی ہے ۔۔۔ اور سچائی پر مرمٹنے کی پُراثر درس بھی ۔
رضا۔۔۔تو انقلابی تھا ۔۔۔محبت کا مئے پی کراور اس کی خمار میں ساتھیوں کے لئے جام چھلکاتے پھرتے ۔۔۔سیاسی دنیا کے وسیع سمندر میں بڑے بڑے دیسی اور ولایتی قسم کے ردِانقلابی نہنگوں کے بیچوں بیچ سفر کے لئے محبت ہی انقلابیوں کے قطب نما ہوتی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر چے گویرا نے اسی تناظر میں کہاتھا کہ ’’مجھے احمق کہلائے جانے کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہ کہنے دیجئے کہ سچا انقلابی ہمیشہ محبت کے شدید احسات سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔اس خاصیت کے بغیر کسی سچے انقلابی کے بارے سوچنا ناممکن ہے ۔۔۔ہمارے ہراول انقلابیوں کو لوگوں کی خاطر محبت کو آدرش بنانا چاہیے‘‘۔رضا آپ تو اس باب میں کامیاب رہے اور ہم سب کے لئے قابلِ تقلید مثال بھی چھوڑ گئے ۔
رضا۔۔۔تونے اپنی "مختصر” سی زندگی ایک خاص مقصد اور ایک خاص حکمت عملی کے تحت گزارا ،ہمیشہ دو کی جوڑی بنا کر بلوچستان کے طول و عرض میں تبلیغ کے لئے ،انقلابی تعلیمات پھیلانے کے لئے اور اپنے تنظیم کی مضبوطی کے لئے پھرتے رہے ۔۔۔۔کام کرتے رہے ۔۔۔۔۔اس بار بھی تیرا یارِغار اور ہماری چشم و چراغ امداد جان ،شہادت کی سفر میں تیرے سنگ سنگ تھا ۔۔۔۔شہادت کا ایک جام تیرے حصے میں آیا تو ایک جام امداد جان کو نصیب ہوا ۔۔۔۔یہ سفر رُکتانہیں یہ دیکھ، تیرے ساتھی اسی تندہی کے ساتھ اس مشن کی تکمیل میں جان کی بازی لگارہے ہیں ۔
رضا۔۔۔۔ایک قتلِ عام ہے بلوچ وطن میں ۔۔۔چمنِ بلوچ سے روز نوشگفتہ پھول توڑے جارہے ہیں۔۔۔ مَسلے جارہے ہیں۔۔۔پاکستانی دوز خ کی بھٹی بلوچ کی لہو سے گرم ہے ۔۔۔اور اس میں دھرتی ماتا کے فرزند،دھکتی انگاروں پر لٹائے جارہے ہیں مگر آہ نہیں کرتے۔۔۔ایسے دردناک قصے ہیں کہ دیومالائی اور اساتیری معلوم ہوتے ہیں۔
رضا۔۔۔۔ہماری شہداء کی جدائی بھی کیا جدائی ہے ،ایسے بہم ہوتے کہ ہر جگہ یہی دِکھتے ہیں۔۔۔ سورج کی کرنوں میں ۔۔۔شفق کے رنگوں میں ۔۔۔آرزوؤں کی ترنگوں میں ۔۔۔حزیں یادوں کی امنگوں میں۔۔۔جہانِ خامش کی جنگوں میں ۔۔۔آبشاروں کی جھرنوں میں۔۔۔اورکائنات کی رنگوں میں ہمارے شہداء ہی دکھائی دے رہے ہیں،فقط چشم ِبینا کی ضرورت ہے۔۔اس لئے آج تاریخ کو اپنے ماتھے پر ایسے جھومر سجنے اور سجانے پر فخرہے ۔
رضا ۔۔۔۔کرن قتل ہوتے ہیں تو لہو خورشید کا ٹپکتا ہے اور شعلہ بن جاتا ہے۔۔۔ رضا آپ تو سورج تھے ۔۔۔۔۔غلامی کے تیرہ و تاریکی میں سورج کی طرح چمکتے رہے مگر تیری نشاط انگیز جلوہ فشانی میں چاندنی کی سی ٹھنڈک تھی۔۔ ۔آنکھوں کو خیرہ اور دلوں کو سرور دینے والی ٹھنڈک۔
رضا۔۔۔۔اپنی موت کے بارے میں ‘ڈاکٹر چے گوارا’نے اپنے فکرو فلسفے کے پیروکاروں کو مخاطب کرکے جو خوب صورت اور شجاع آفرین جملے ادا کئے تھے وہ تاریخ کے جزولاینفک حصے ہیں ،انقلابی انہیں کبھی نہیں بھولتے ،ڈاکٹر چے نے کہا تھا ’’موت جہاں کہیں ہمیں متحیر کرے گی ، وہیں ہمیں اپنا استقبال کرتی ہوئی پائے گی ، بشرطیکہ ہما را نعرہ ِجنگ گوشِ اخاز تک پہنچ سکے اور ہمارے ہتھیاروں کو اُٹھانے کے لئے کچھ اور ہاتھ لپک رہے ہوں اور کچھ ایسے بھی لوگ بھی تیار ہوں جو ہمارے جنازے کے نوحے کی صداؤں کو گنگناتی ہوئی مشین گنوں کی موسیقی کے مدوجذر اور جنگ و فتح کے لئے جنگجویانہ نعروں کے ساتھ بڑھا وا دے سکیں‘‘
رضا ۔۔۔۔شاید تہذیبوں کا فرق ہے کہ ڈاکٹر چے کی جنازہ توپوں کی سلامی میں اُٹھایا جا سکا یا نہیں لیکن یہ بلوچستان ہے ، بہادر بلوچوں کی سرزمین ہے ،آج شہداء کے جنازوں میں مشین گنوں کی سلامی کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی نظارے ہیں ،کیا عجب کہ چشمِ فلک نے ایسے مناظر کہیں اوربھی دیکھے ہوں ۔
شہید کلیم جان کی بہنوں نے اپنے شہید بھائی کومہندی لگاکر سپردِگلزمین کردیا ۔۔۔صدیق عیدو کی ماں نے اپنے راج دلارے بیٹے کے تقدس بھری میت پر زَرافشانی کی ۔۔۔۔۔رضا کی بہادر ماں نے تو شہید کے جنازے پر باجماعت گیت گائے ،وہی گیت جو شادیوں میں گائے جاتے ہیں ۔۔۔یہ تو بطورِ نمونہ مشتِ از خوارے یہاں پیش کی ،ایسے لافانی کہانیاں تو روز اس سرزمین پر لکھی جارہی ہیں۔آج شہداء اورشہداء کے ماؤں کی احترام میں آسمان سر جھکاکر انہیں سلام کرتی ہے ۔رضا آج سینکروں بلوچ نوجوان تیرے قلم کو ، تیرے عَلم کواُٹھانے کے لئے بیتاب ہیں ۔
رضا ۔۔۔۔دیکھو تو سہی تیرے شادی میں کیسے کیسے لافانی جلوے اور نظارے ہیں۔۔۔کولواہ کی وسیع دشت میں تیری باراتیوں کے لئے جگہ کم پڑگئی ۔۔۔ایسے نظارے صرف بلوچ وطن میں بلوچ فرزندوں کی دم خم سے ممکن ہیں ۔۔۔پوری بلوچ قوم ،نوکِ خارپر رقصاں ہے۔۔۔تیرے شادی میں عرش کے فرشتوں نے بھی باراتیوں کے عین اوپر پھریرے بھر کر رقص کیا ۔
رضا۔۔۔۔۔آگ میں پھول اُگانے کی ریت ورسم کی قدامت تسلیم مگر دشمن کی لگائی آگ اور اپنوں کی مسلسل پٹرول چھڑکنے کے عمل کے دوران دھکتی انگاروں اورلپکتی شعلوں میں پھول اُگاکر ان کی نمو اپنی خون سے کرکے بلوچ نوجوانوں نے جو ندرت و جدت پیداکی ہے کہ اس سے اَمرتا اور لافانیت کو نئے معانی اور نئی مقصد مل چکا ہے ،آپ کی زندگی تو اسی سے عبارت تھی۔
رضا۔۔۔۔۔تو جان چکا تھا کہ تاریخ کی چٹان ایسی سخت پیشانی پرجان دزی اور سہل پسندی سے نا م درج کرنامشکل ہی ناممکن ہے بلکہ بصیرت کو رہنماء بنا کر اس پائے کی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے کہ فگار انگلیوں کے پوروں سے آنسوبہانا پڑتا ہے ،یہی آنسو پُردرد اور پُرکیف انداز میں بہہ کر بے رحم وقت کے گلنارچہرے پر جم کر ہی انسان کودرجہ ہمیشگی حاصل کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں ۔رضا تُو کولواہ کی آنکھ سے ٹپکاہواوہ آنسو تھاجو بلوچ قومی تحریک کے چہرے پر ہمیشہ کے لئے جم گیا۔
نوٹ:یہ تحریر رضاجہانگیر اور مکران ریجن میں پارٹی کے سینئر کارکن ‘امدادبجیر’کی شہادت کے چند روز بعد لکھی، کہیں تلخی محسوس ہو تو دوش میرا نہیں اس وقت کے حالات ضرور یاد کیجئے گا۔ شکریہ