گوادر میں ایک مرکزی امدادی اور رابطہ کیمپ قائم کیا جائے گا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

گوادر۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے گوادر پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت گوادر میں سیلاب سے آنے والی تباہی ہمارے توقعات سے بہت زیادہ ہے اور یہ پورار ریجن اس سے شدید متاثر ہے۔ آج ہم اس پر یس کا نفرنس کے توسط سے گوادر میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات، سیلاب کے اسباب، لوگوں کی حالات زندگی، نام نہاد میگا پروجیکٹ اور ترقی کی حقیقت، ریاست کی غفلت اور عدم توجہی اور امدادی کاموں پر تفصیل سے نظر ڈالے گے۔بلوچ یکیتی کمیٹی کی ٹیم گزشتہ پانچ دنوں سے گوادر میں موجود ہے اور سیلابی صور تحال و زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے گو اور اولڈ سٹی، پیشکان شھر، ڈگارو، پسّاو، جیونی شہر پلیری، پرائے توک ، سر بندر اور گرد ونواح کے علاقوں میں سروے کر رہی تھی۔ ہماری سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت گوادر اولڈ سٹی کے ساتھ جیونی، پشکان پلیری، سر بندر، کنٹانی، گنز، کلانچ اور ان کے مضافاتی علاقے سیلاب سے شدید متاثر ہے۔ ان تمام علاقوں میں سیلاب کے سبب معاشی نقصانات نے یہاں کے شہریوں کی کمر تور دی ہے اور زندگی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے،

گوادر اولڈ سٹی سے لیکر جیونی اور سر بندر تیک سینکڑوں گھر متاثر ہوئے ہیں جس میں گھروں کے چت اور دیوار گر چکے ہیں، جبکہ بلخصوص پلیری اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں تقریباً ہر گھر متاثر ہے۔ جیونی، پشکان، پلیری اور مضافاتی علاقوں میں ہزاروں لوگ بغیر چھت کے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اس پورے ریجن کی ذرائع معاش ماہی گیری ہے۔ اس پورے ریجن بلخصوص جیونی اور سر بندر میں ماہی گیر کمیونٹی کو معاشی حوالے سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، ہم نے جیونی میں درجنوں چھوٹے چھوٹے کشتیوں کو سمندرسے باہر ٹوٹ پھوٹ کی حالت میں دیکھے ہیں، جبکہ سر بندر میں ماہی گیروں کے مطابق ماہی گیری کے جال سیلابی پانی میں بہ چکے ہیں، یہاں کے ماہی گیر کمیونٹی کے مطابق وہ سیلاب کے بعد معاشی حوالے سے صفر پر کھڑے ہیں، ان کی معاشی ذرائع مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ جبکہ پیشکان اور اس کے گرد و نواح کے وہ علاقے جن کے معاشی ذرائع ایگریکلچر اور مال مویشیوں سے وابستہ ہیں وہ بھی معاشی حوالے سے شدید نقصانات کی زد میں ہیں۔ جبکہ تا حال متعدد مضافاتی علاقوں میں سیلابی پانی گھروں اور گلیوں کے اندر موجود ہے جس سے ان علاقوں میں خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے اور متعدد علاقوں میں پانی کے قلت کے سبب لوگ سیلابی پانی کو پینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس سے متعدد بیماریوں کے جنم لینے کے خدشات ہیں۔

جبکہ ان مضافاتی علاقوں میں کنٹانی سمیت دیگر ایسے بھی علاقے ہیں جہاں سیلابی پانی کے سبب وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہو رہی ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ جن جن علاقوں میں رسائی ممکن نہیں ہو رہی ہے وہاں بہت زیادہ نقصانات کا خدشات ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہم نے گوادر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سروے میں سیلاب آنے کے اسباب کو بھی زیر تحقیق میں رکھا جس سے ہم نے جو پرائمری انفارمیشن حاصل کیے ہیں اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ گوادر میں آنے والا سیلاب کسی بھی صورت قدرتی نہیں ہے بلکہ ناقص اور غلط انفراسٹرکچر پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس کے ساتھ ریاستی اداروں جیسا که محکمہ موسمیات کی غفلت کا نتیجہ ہے جنہوں نے بارش کی پیشگی اطلاع یہاں کے شہریوں اور ماہی گیری کے صنعت سے وابستہ افراد کو نہیں دی تھی ہم نے انفراسٹریکچر کی جو حالت اپنی آنکھوں سے دیکھی اور یہاں کی شہریوں سے جو معلومات حاصل کیے ہیں اس سے ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں، ریاست کے لیے گوادر کی شہری نہیں صرف گوادر کی سمندر اہمیت رکھتی ہے اور جو ترقی کے جھوٹے دعوے میڈیا میں کیے جاتے ہیں اس کا زمینی حقائق سے ایک فیصد بھی تعلق نہیں ہے۔

ہماری سروے ڈیٹا کے مطابق ریاست نے گوادر کے لیے جو انفراسٹریکچر پالیسی اپنائی ہے گوادر کے شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ صرف گوادر پورٹ اور اس کے نام نہاد میگاپروجیکٹ سی پیک کے لیے ہے اور اسی انفراسٹریکچر میں پیر ونی لوگوں کو سہولیات دینے کے لیے مقامی لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیاگیا ہے۔ گوادر پورٹ، ایئرپورٹ اور پی سی ہوٹل کو سہولیات دینے کے لیے جان بوجھ کر اونچی سٹر کیں اور دیواریں تعمیر کی گئیں جس سے اولڈ سٹی گوادر سیلابی پانی میں ڈوبا ہے، مقامی لوگ سیلابی پانی میں بے یار ومددگار پڑے ہیں جبکہ باہر سے آئے لوگ پی سی ہوٹل سے بارش اور موسم کا مزہ لے رہے ہیں، ہم سجھتے ہیں یہ قومی استحصال کی ایک شدید قسم ہے جبکہ سب سے اہم بات ہم نے گوادر سٹی سے لیکر جیوٹی اور سر بندر تک کے تمام علاقوں میں سروے کیے ہیں اس سروے میں ہمیں ہم نہاد ترقی کے آثار بھی نظر نہیں آئے ہیں بلکہ ہم نے نام نہاد میگا پروجیکٹ اور ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی اور سماجی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،

یہاں کا واحد زریعہ معاش ماہی گیری ہے اور یہاں کے لوگ پاکستان بننے سے بہت قبل صدیوں سے اس ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں لیکن اس نام نہاد سی پیک نے ان کی ذرائع معاش کو تباہ کیا ہے جبکہ سماجی حوالے سے نارمل زندگی کو ایک سیکورٹی زون میں تبدیل کیا گیا ہے اور لوگوں کو خوف زدہ رکھنے کے لیے ریاستی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس گوادر میں جہاں عام. لوگ رہتے ہیں پینے کے پانی تک موجود نہیں ہے جبکہ دوسرا گوادر میڈیا میں ہے جس کو دبئی اور سنگا پور بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ گوادر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں دبئی اور سنگار پور نہیں چاہیے ہمیں وہ گوادر چاہیے جس میں ہم دو وقت کی روئی عزت اور احترام کے ساتھ کھا سکیں اور سکون کی زندگی جی سکیں جو صدیوں سے ہمار میراث تھا لیکن دبئی اور سنگار پور بنانے کے چکر میں ہم سے دو وقت کی روٹی چھینا گیا اور آج ہمارے گھر کی چت بھی چھن گئی اور ہم اس شہر کے مالک کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ آج گوادر اور اس کے مضافاتی علاقے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں جب کہ دوسری طرف صرف میڈیا میں جھوٹے دعوے کیے جارہے ہیں اور ریاستی کار کردگی کا شوشا چھوڑا جارہا ہے جہاں جہاں ممکن ہو رہا ہے لوگ وہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پانی کو نکال رہے ہیں اداروں نے جو پانی نکالنے کے لیے مشینیں لیے تھے ان کے پیٹرول بھی ختم ہوئے ہیں یہ ریاستی نااہلی کامنہ بولا ثبوت یہ ہے انہوں نے کہا کہ ہم اس پر یسکا نفرنس کے توسط سے پوری دنیا پر یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گوادر، جیونی پیشکان، پلیری، گنز ، کنٹانی، سر بندر، کلانچ اور دیگر علاقوں میں تاحال کوئی بھی ریاستی امداد نہیں پھنچا ہے صرف جھوٹے دعوے کیے جارہے ہیں جبکہ یہاں کے شہریوں کے مطابق ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمیں یقین ہے کہ گوادر کے نام پر ملنے والے امداد اسلام آباد پہنچ جائے گے۔ اس سے قبل بھی متعدد دفعہ اس طرح ہو چکا ہے کہ گوادر کے نام پر ملنے والے بین القوامی امداد گوادر کے لوگوں تک نہیں پہنچے ہیں۔

جبکہ ہمیں سروے کے دوران معلوم ہوا کہ دسمبر 2009 کے سیلاب متاثرین کے گھر آج تک ٹوٹ پوٹ کا شکار ہیں جن کے نام پر ملنے والے امداد کو ریاستی ادارے اور حکومتی نمائندگان ہڑپ کر چکے ہیں۔ہم پوری دنیا کو اس اہم مسئلے پر متوجہ کر کے کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی شخص یا ادارہ گوادر کے لوگوں کو مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے امداد کو ریاستی اداروں اور حکومتی نمائندگان کے حوالے کرنے کے بجائے براہ راست گوادر کے شہریوں کے حوالہ کریں اگر آپ اپنی امداد کو ریاستی اداروں یا حکومتی نمائندگان کے حوالے کریں گے تو آپ اس پر مطمئن ہو جائیں کہ آپ کی امداد کسی بھی صورت گوادر کے شہریوں تک نہیں پہنچ سکتی ہے بلکہ وہ کرپشن کی نظر ہوجائیں گے۔جبکہ پاکستانی مین اسٹریم میڈیانے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی بلوچستان میں کوئی بھی آفت یا مشکل آنے کی صورت میں اپنے دوغلے پن کو بر قرار رکھا ہے یہاں ایک طرف پورا گوادر ریجن تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے تو دوسری طرف نام نہاد مین اسٹریم میڈیا اسلام آباد میں جاری تماشے کو کوریج رہے ہیں اور گوادر کے حقیقی صور تحال میڈیا کے آنکھوں سے اوجھل ہے

جو صحافتی اصول اور معیار پر داغ ہے ہم بین القوامی میڈیا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی میڈیا کی بلوچستان کے حوالے سے بلیک آوٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے گوادر کے سیلاب اور حقیقی صور تحال کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے اپنے نمائندگان کو فوری طور پر گوادر بھیجے۔جبکہ ہم اس پر یس کا نفرنس کے توسط سے بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہمارے غم اور خوشی مشتر کہ ہے اور بحیثیت قوم ہم ریاست اور ریاست کے کرپٹ اداروں کا انتظار کرنے کے بجائے ہمیں بطور بلوچ آگے بڑھ کر اپنی قوم کی مدد کرنی چاہیے۔ ہم سجھتے ہیں کہ ہم مشکل وقت میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کر کے ایک ترقی یافتہ قوم بننے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں کیونکہ دنیا کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ قومیں دوسرے کے سہارے اور امداد پر ترقی نہیں کر سکتے ہیں بلکہ اپنی بازوں قوت پر یقین کر کے اپنی مدد آپ کی بنیاد پر قو میں آگے بڑھ سکتی ہے۔

آج ہم اس فلسفہ (دوسرے کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے بازوئے قوت پر یقین کر کے آگے بڑھنا) کو اپنا کر اس محلے سمیت پوری دنیا کے سامنے بلوچ قوم کو زندہ اور ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔ آج بلوچستان سمیت دنیا بھر میں رہنے والے بلوچ قوم کے افراد آگے بڑھیں اور گوادر سیلاب متاثرین کو ریاست کی رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مدد کریں اور ان کے زندگیوں کو بحال کریں۔بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر میں ناقص انفرا اسٹرکچر کے سبب سیلاب میں بلوچ عوام کی مدد کے لیے”ھم سنتی مہم کا آغاز کرتی ہے جس میں کل سے بلوچستان بھر میں تین روزہ امدادی کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ "ھمسنتی مہم میں ادویات، کمبل، پانی نکالنی والی مشین، راشن اور بچوں کے خوراک کے لیے بھر پور مدد کریں۔ جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گوادر شہر میں ایک مرکزی امدادی اور رابطہ کیمپ قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر شہر اور تمام مضافاتی علاقوں میں میڈیکل کیمپ اور امدادی سر گرمیوں کو جاری رکھے گا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے رابطہ اور معلومات لینے کے لیے اس کے آفیشل رابطہ نمنر، آفیشل ای میل ایڈریس اور سوشل میڈیا پیجز کے زریعے رابط کیا جاسکتا ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

تربت : کینسر سے ایک اور نوجوان اسپورٹس مین چل بسا

منگل مارچ 5 , 2024
تربت : کینسر سے ایک اور نوجوان اسپورٹس مین چل بسا

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ