
بلوچستان کے علاقے کوئٹہ دالبندین، چاغی خاران اور کیچ میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر مختلف علاقوں میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور بی وائی سی رہنماؤں کی غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔
کوئٹہ میں “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ، خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ مظاہرین نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور ریاستی جبر کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ عید خوشی کا دن ہوتا ہے، مگر بلوچ خاندان اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال سنگین ہو چکی ہے اور جبری گمشدگیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔
اسی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی رخشان ریجن چاغی زون کے زیر اہتمام دالبندین، نوکنڈی، یک مچ، امین آباد اور چاغی کے دیگر علاقوں میں احتجاجی ریلیاں اور آگاہی مہم چلائی گئیں۔ دالبندین میں 2018 سے لاپتہ غلام حضرت بلوچ اور عبداللہ بلوچ کی بازیابی کے لیے ریلی نکالی گئی، جو عرب مسجد سے شروع ہو کر دالبندین پریس کلب پر اختتام پذیر ہوئی۔
ریلیوں میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے جن میں بلوچ عوام سے ریاستی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی اپیل کی گئی۔ پمفلٹس میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ اگر سیاسی قیدیوں پر الزامات ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا۔
ضلع خاران میں بھی عید کے روز سینکڑوں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں جبری گمشدگیوں اور بی وائی سی رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے بیان میں “عید کی خوشیاں اور غمِ بلوچ” کے عنوان سے قوم سے اپیل کی کہ وہ ریاستی جبر کے خلاف متحد ہو جائیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔
ضلع کیچ: تربت اور تمپ سمیت دیگر علاقوں میں بھی جبری گمشدگی اور ماروائے عدالت قتل کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئی جس میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔