بلوچ یکجہتی کمیٹی کا پس منظر اور جدوجہد!

تحریر: گریشگی ورنا
زرمبش مضمون

بلوچستان کے ابتدائی دور میں صورتحال تیزی سے تشویشناک سمت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ایسے ہی حالات میں بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے تربت (ڈنک) میں ایک المناک واقعہ پیش آیا۔ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے مسلح افراد نے ایک گھر پر ڈکیتی کی کوشش کی۔ مزاحمت کے دوران ایک بلوچ خاتون شہید ہوئیں جبکہ ان کی کمسن بیٹی برمش بلوچ زخمی ہوگئی۔

اس واقعے نے بلوچستان بھر میں ریاستی جبر اور انسدادِ دہشت گردی کے نام پر کیے جانے والے مظالم کے خلاف شدید احتجاج کی لہر دوڑا دی۔ ہر طرف ریلیاں اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ درحقیقت، اس تحریک کی علامت برمش بلوچ بنی، اور یہی تحریک آگے چل کر "بلوچ یکجہتی کمیٹی” (BYC) کے نام سے منظم ہوئی۔ یہ جدوجہد محض ایک واقعے تک محدود نہ رہی بلکہ انصاف کی تلاش میں ایک تسلسل اختیار کر گئی۔ بلوچ قوم نے غیر آئینی اور غیر قانونی ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمت کا راستہ چنا اور قومی اتحاد و یکجہتی کی راہ پر گامزن ہوئی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے قیام کا تحریکی نظریہ کمسن برمش بلوچ کی قیادت اور قربانی سے متاثر ہو کر ترتیب پایا۔ بلوچستان میں ریاستی جبر کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ 24 نومبر 2023 کو ایک اور المناک واقعہ تربت (آبسر) کے علاقے میں پیش آیا، جب غیر ریاستی ڈیتھ اسکواڈز نے چار نوجوان بلوچ — بالاچ مولا بخش، شکور بلوچ، سیف بلوچ اور دیگر — کو غیر قانونی انسدادِ دہشت گردی کارروائی کے دوران بے دردی سے شہید کر دیا۔

اس بربریت کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے تربت میں شہید فدا چوک پر بالاچ مولا بخش کی میت رکھ کر پرامن احتجاج شروع کیا۔ یہ احتجاج بلوچستان بھر میں پھیل گیا اور بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوگیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے مزاحمتی سفر کو مزید منظم اور طاقتور بنایا، اور زیادہ حساس علاقوں تک اپنی تحریک کو منتقل کیا۔

بلوچ قومی سلامتی اور بقاء کے لیے BYC نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے "لانگ مارچ” کا آغاز کیا۔ یہ لانگ مارچ تربت سے اسلام آباد تک کیا گیا اور ریاستی دہشت گردی و بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک جراتمندانہ اقدام تھا۔ لانگ مارچ کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بے شمار تکالیف برداشت کیں اور ریاستی عدلیہ سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ تاہم، ریاستی اداروں نے نہ صرف انصاف دینے سے انکار کیا بلکہ کمیٹی کی قیادت اور بلوچ ماؤں و بہنوں کے ساتھ درندگی اور بدترین رویہ اختیار کیا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ تو نام نہاد پارلیمانی جماعتوں نے، اور نہ ہی ریاستی صحافت نے اس ظلم پر آواز بلند کی۔ اس کے باوجود، بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک منظم، پرامن اور مستقل مزاحمتی تحریک کی صورت میں اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ یہ تحریک بلوچ قوم کی نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آخری سانس تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت، بشمول ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر، پرعزم اور مستحکم ہے۔ یہ قیادت نہ صرف بلوچ مسنگ پرسنز کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کر رہی ہے بلکہ بلوچ قوم کی بقا اور آزادی کی جدوجہد کو مزید قوت بخش رہی ہے۔

تحریک کی روح اور قربانیوں کا اظہار واجہ منیر مومن کی شاعری میں یوں ہوتا ہے:

ما گوں درداں مساپر جلاں بیتگ اِیں
شپ تھار ءَ پہ اوستے بلاں بیتگ اِیں

زندگی ءِ ابیتکیں نگاہاں مچار
کس نئیت اِنت اے ویرانیں راہاں مچار

نوکیں چاڑے ءُ کیپے ملارے بہ بیت
گلزمین ءَ گوں کول ءُ کرارے بہ بیت

زند ءِ بانور ءِ زهیراں مرگ لازم اِنت
ھے کن اِت سنگتاں سر گرگ لازم اِنت

گوں تئی زیبائی ءِ ترانگاں سر گریں
اے وطن روچے پر تو ما سد بر مریں

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جیل میں بھوک ہڑتال کے باعث ہمارے رہنماؤں کی طبیعت دن بہ دن تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ بی وائی سی

اتوار اپریل 27 , 2025
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی وائی سی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ، مرکزی رہنما شاہ جی صبغت اللہ، بیبگر بلوچ، بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ کی جیل میں بھوک ہڑتال کو چار روز مکمل ہو چکے ہیں۔ اس بھوک ہڑتال کے نتیجے میں ان […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ