تحریر :جمال بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچ سرزمین ہمیشہ ایسے بہادر سپوتوں سے زرخیز رہی ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں کو قومی آزادی، شعور اور مزاحمت کے سفر میں وقف کیا۔ انہی سرفروشوں میں ایک درخشاں نام شہید کریم جان بلوچ کا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی بلوچ قومی شعور کی آبیاری، فکری تربیت اور عملی مزاحمت کے لیے وقف کر دی۔
کریم جان بلوچ شفیع محمد بلوچ کے گھر مستونگ میں پیدا ہوئے۔ ان کی درست تاریخِ پیدائش معلوم نہیں، تاہم یہ طے ہے کہ ان کا جنم ایک ایسے انقلابی زمانے میں ہوا جب بلوچ نوجوان شعور کی نئی لہروں سے روشناس ہو رہے تھے۔ ان کے والد نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بچوں کی بہتر تربیت و تعلیم کے لیے شال (کوئٹہ) کی جانب ہجرت کی، جہاں انہوں نے مستقل سکونت اختیار کی۔
شہید کریم جان نے میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پولی ٹیکنک کالج میں داخلہ لیا۔ اسی تعلیمی ادارے میں ان کی ملاقات بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) سے وابستہ راج دوست اور باشعور نوجوانوں سے ہوئی، جن کی صحبت نے ان کی فکری سمت متعین کی۔ جلد ہی وہ اپنے ساتھیوں سمیت BSO کا حصہ بن گئے اور تنظیمی سرگرمیوں میں بھرپور انداز میں متحرک ہو گئے۔
پولی ٹیکنک کالج اور بعد ازاں ڈگری کالج میں، شہید کریم جان نے بلوچ طلبہ کو منظم کرنے، شعور دینے، اور قومی مسئلے کو علمی و سیاسی بنیادوں پر اجاگر کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے شہید حکیم جان سمیت کئی ساتھیوں کے ساتھ مل کر BSO کے تربیتی سرکلز کو فعال بنایا اور نوجوان نسل کو سیاسی تعلیم، نظریاتی شعور، اور قومی مزاحمت کی تاریخ سے روشناس کرایا۔
ان کے یہ تربیتی سرکلز محض مطالعے کی نشستیں نہ تھیں بلکہ قومی بیداری، فکری ارتقاء اور سیاسی عمل کے ابتدائی خیمے تھے، جہاں بلوچ طلبہ کو اپنی شناخت، تاریخ، جغرافیہ اور دشمن کی فطرت سے آگاہ کیا جاتا۔ ان سرکلز نے متعدد نوجوانوں کو بلوچ قومی جدوجہد سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
شہید کریم جان بلوچ اس نسل کے نمائندہ تھے جنہوں نے جدوجہدِ آزادی اور تنظیم و تربیت کو فوقیت دی۔ ان کی شہادت صرف ایک شخص کی موت نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک سمت، اور ایک تحریک کی قیمت ہے، جو قابض کے خلاف شعوری مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہے۔
آج جب بلوچ قوم اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے، تو ہمیں شہید کریم جان جیسے رہنماؤں کی زندگی سے سیکھنا ہوگا۔ ان کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حقیقی مزاحمت شعور، تنظیم، اور نظریاتی تربیت کے میدان میں لڑی جاتی ہے۔
شہید کریم بلوچ کو سلام، جنہوں نے اپنی زندگی بلوچ قوم کی بیداری کے لیے وقف کی، اور جن کا خواب ایک آزاد، خودمختار اور باوقار بلوچ وطن تھا۔
شہید کریم بلوچ نے اپنے نظریاتی ساتھی شہید حکیم بلوچ کے ہمراہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے قومی غلامی کے خلاف آگاہی مہم کا آغاز کیا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ جب تک نوجوان نسل کو اپنی تاریخ، تشخص اور اجتماعی زنجیروں کا ادراک نہ ہو، تب تک آزادی کا خواب ادھورا رہے گا۔
2005 میں بی ایس او متحدہ کا کونسل سیشن پنجگور میں منعقد ہوا، جہاں شہید کریم جان کو تنظیم کی سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے بی ایس او متحدہ کو شال سمیت بلوچستان کے طول و عرض میں ایک فعال، متحرک اور نظریاتی تنظیم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں بی ایس او متحدہ نے نوجوانوں میں سیاسی شعور، قومی تشخص اور مزاحمت کا احساس پیدا کیا۔
شہید کریم بلوچ کہا کرتے تھے:
"بلوچ قوم آج تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں اگر ہم نے شعوری مزاحمت اور بیداری کا راستہ نہ اپنایا تو ہمارا انجام بھی ریڈ انڈینز جیسا ہوگا۔ ہمیں اپنی بقاء، اپنے وسائل، اور اپنی زمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔”
ان کا یقین تھا کہ بلوچ نوجوان قومی تحریک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہی نوجوان اگر تربیت یافتہ، باشعور اور نظریاتی ہوں تو وہ ہر ظلم، جبر اور استعماری سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ طلبہ سرکلز، سیاسی نشستوں، اور تنظیمی مباحث میں اس بات پر زور دیتے کہ:
"بی ایس او متحدہ صرف ایک تنظیم نہیں بلکہ آزادی کا وہ روشن مشعل ہے جس نے غلامی کے اندھیرے میں جدوجہد کا علم بلند کیا۔”
شہید کریم بلوچ کا وہ کردار جو اکثر نظروں سے اوجھل رہتا ہے، درحقیقت سب سے زیادہ اہم تھا — وہ کردار جس میں انہوں نے نوجوانوں کی فکری تربیت، نظریاتی پختگی اور تنظیمی وابستگی کو پروان چڑھایا۔ وہ ایک استاد، رہنما، انقلابی اور نظریہ ساز تھے، جن کی گفتار میں دلیل، فکر میں وضاحت، اور کردار میں اخلاص نمایاں تھا۔
بدقسمتی سے بلوچ قومی تحریک میں جہاں بہت سے شہداء، رہنما اور کارکنوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے، وہیں بعض اہم کردار ایسے بھی ہیں جو مکمل توجہ سے محروم رہے۔ انہی میں ایک اہم مگر نسبتاً کم بیان کردہ کردار شہید کریم بلوچ کا ہے، جنہوں نے نہ صرف بلوچ قومی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ بلوچ خواتین کی شعوری تنظیم سازی میں بھی بانیانہ کردار ادا کیا۔
شہید کریم بلوچ نے ابتدائی ادوار میں ہی اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ خواتین کو سیاسی اور قومی جدوجہد میں منظم کیے بغیر تحریک نہ تو مکمل ہو سکتی ہے اور نہ ہی پائیدار۔ وہ ہر سیاسی و تنظیمی دیوان میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ خواتین کو صرف ہمدرد یا حمایتی کے طور پر نہیں، بلکہ ایک فعال انقلابی قوت کے طور پر تحریک کا حصہ بننا چاہیے۔ ان کا یہ موقف نہ صرف عملی تھا بلکہ انقلابی نظریات کی روح سے ہم آہنگ بھی۔
شہید کریم بلوچ کے نزدیک خواتین کی شمولیت کوئی عارضی یا حرباتی ضرورت نہ تھی بلکہ ایک نظریاتی، اصولی اور ساختیاتی تقاضا تھی۔ وہ کہا کرتے تھے:
"خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی تحریک اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔”
شہید کریم بلوچ، شہید حکیم جان، اور ان کے ہمراہ بی این ایم و بی ایس او کے دیگر انقلابی رفقاء نے جس فکری اور تنظیمی بنیاد پر بلوچ تحریک کی تعمیر کی، اس میں خواتین کی شرکت کے سوال کو ہمیشہ مرکزی اہمیت دی گئی۔ ان کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ کامریڈ مولاداد جیسے رہنماؤں نے بھی بلوچ خواتین کو منظم کرنے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ ان ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ "بلوچ خواتین پینل” جیسے پلیٹ فارمز نے جنم لیا، جنہوں نے بلوچ خواتین کو شعوری، سیاسی اور انقلابی محاذ پر یکجا کیا۔
بلوچ خواتین پینل کی بہادر بہنوں نے نہ صرف احتجاجی مظاہروں میں صفِ اول کا کردار ادا کیا بلکہ انہوں نے بلوچ تحریک کو اس کی نظریاتی بنیادوں پر ازسرِنو استوار کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کا وجود اس حقیقت کا عملی اظہار تھا کہ تحریک کی کامیابی کا دار و مدار صرف مردانِ حریت پر نہیں بلکہ ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں پر بھی ہے جو اپنے گھروں کو شعور و مزاحمت کا قلعہ بناتی ہیں۔ وہ مائیں جو اپنی گود کو درسگاہ بناتی ہیں، وہ بہنیں جو اپنے بھائیوں کو وطن کی محبت میں رخصت کرتی ہیں، اور وہ بیٹیاں جو غلامی کے خلاف مزاحمت کو اپنا شعار بناتی ہیں — یہ سب تحریک کی اصل بنیاد ہیں۔
شہید کریم بلوچ بارہا اس نکتے پر زور دیتے رہے کہ اگر ہم ایسی نسل کی پرورش چاہتے ہیں جو وطن کی آزادی کے لیے قربانی دے، تو اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ایسی ماؤں کی ضرورت ہے جو خود شعور سے آراستہ ہوں۔ وہ کہا کرتے تھے:
"قوموں کی تقدیر ماں کی گود میں لکھی جاتی ہے۔”
شہید کریم بلوچ نے بی ایس او متحدہ کے ایک سینٹرل کمیٹی رکن کی حیثیت سے تاریخی کردار ادا کیا۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرے، بھوک ہڑتالیں، احتجاجی ریلیاں، ہڑتالوں کی منصوبہ بندی اور پریس کے ساتھ رابطے جیسے کئی اہم امور ان کی ذمہ داری تھے۔
شہید حکیم جان (شال زون کے صدر)، شہید چیئرمین سہراب بلوچ، مرکزی سیکریٹری جنرل سعید یوسف بلوچ، شہید آغا عابد شاہ، شہید کمبر قاضی، اور بی این ایم کے دیگر انقلابی ساتھیوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک ایسی انقلابی بنیاد رکھی جس سے بی ایس او متحدہ آگے چل کر بی ایس او آزاد میں تبدیل ہوئی۔
یہ وہ دور تھا جب ریاستی جبر اپنے عروج پر تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور دیگر انقلابی ساتھیوں کی جبری گمشدگی کے خلاف چیئرمین امداد بلوچ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ جب ان کی حالت غیر ہو گئی تو انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل پر بھوک ہڑتال ختم کی گئی، لیکن اس کے بعد بی ایس او متحدہ کے وائس چیئرمین شہید سہراب بلوچ اور جمہوری وطن پارٹی کے شہید اکبر بگٹی کے مرکزی راہنما کامریڈ غفار بلوچ نے یہ جدوجہد شال پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال کے ذریعے جاری رکھی۔ بالآخر اس تحریک کی بدولت ڈاکٹر اللہ نذر اور ان کے ساتھی چودہ دن کے اندر بازیاب ہوئے۔
شہید کریم بلوچ صرف ایک سیاسی کارکن نہ تھے، وہ ایک متحرک نظریاتی وجود تھے۔ ان کی مسکراہٹ، ملنساری، اور گفتگو کا انداز آج بھی اُن کے ساتھیوں کی یادوں میں زندہ ہے۔ وہ ہر بی ایس او پروگرام میں سب سے پہلے پہنچتے، سوال اٹھاتے، مکالمہ کرتے اور مسلسل فکری بحث و مباحثے میں مشغول رہتے۔ وہ بابا خیر بخش مری اور شہید غلام محمد بلوچ کو اپنا فکری و انقلابی آئیڈیل مانتے تھے۔
جب ریاست کی نظریں ان پر گڑ گئیں اور دوستوں نے انہیں شال چھوڑنے کا مشورہ دیا تو وہ ہنستے ہوئے کہتے: "کچھ اہم پارٹی کام مکمل کر لوں، پھر چلا جاؤں گا۔” لیکن وہ دن کبھی نہ آیا۔ ایک دن وہ ژوب سے واپسی پر اپنے دوست کے ہمراہ جبری گمشدگی کا شکار بنے۔ ان کے ساتھی تو بازیاب ہو گئے، لیکن شہید کریم جان کی تشدد زدہ لاش 17 اپریل 2011 کو سردار کاریز کے مقام سے ملی۔ ان کے جسم پر ریاستی تشدد کے وہ نشانات تھے جو ان کے صبر، ہمت اور قربانی کی گواہی دے رہے تھے۔
ابتدائی طور پر ساتھیوں نے ان کی تدفین شہدائے بلوچستان کے قبرستان، نیو کاہان میں کرنے کی خواہش ظاہر کی، مگر اہلِ خانہ کے اصرار پر ان کی تدفین ڈگری کالج شال کے عقبی قبرستان میں کی گئی۔
شہید کریم بلوچ کی زندگی بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک مکمل فکری درس ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ مزاحمت صرف بندوق نہیں، بلکہ شعور، تنظیم، مکالمہ، اور عوامی رابطے کا بھی نام ہے۔ ان کا نظریہ آج بھی بی ایس او، بی این ایم، اور دیگر انقلابی تنظیموں کی روح میں زندہ ہے۔ ان کی جدوجہد ہمیں راستہ دکھاتی ہے کہ مزاحمت کے سفر میں نہ صرف مرد، بلکہ خواتین اور نوجوان نسل کی ہمہ جہتی شرکت ہی آزادی کی ضمانت ہے۔
شہید کریم بلوچ زندہ ہیں — ہر اُس لمحے میں جب ایک بلوچ نوجوان سوال اٹھاتا ہے، جب ایک ماں آزادی کی لوری دیتی ہے، اور جب قومی شعور کی شمع جلتی ہے۔
آج جب ہم کریم بلوچ کو یاد کرتے ہیں، تو یہ صرف ان کی شہادت کا نوحہ نہیں، بلکہ اس مشعل کا احیاء ہے جو انہوں نے ہمارے ہاتھوں میں دی۔ ہمیں اس شعور، اس مزاحمت اور اس نظریے کو آگے بڑھانا ہے جس کے لیے وہ جیے، لڑے اور آخرکار شہادت پا گئے۔