لیڈر ڈاکٹر منان بلوچ

جہانزیب بلوچ

آج 30 جنوری ہے اور 9 سال قبل اسی دن میں قابض ریاستی فورسز نے مستونگ کے نواحی گاؤں کلی دتو میں ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کے دوستوں بابو نوروز، حنیف بلوچ، ساجد بلوچ اور اشرف بلوچ کو شہید کر دیا۔

ڈاکٹر منان بلوچ کون ہیں؟

ویسے لیڈروں اور ان کی بہادری کے قصے مجھے بچپن میں سنائے جاتے تھے۔ لیکن غلام قوموں میں لیڈر کو تب ہی پہچانا جاتا ہے جب اس نے اپنی جان قوم کے لیے قربان کی ہو۔ پتہ نہیں کیوں ڈاکٹر منان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے۔شاید بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق اور موجودہ قائدین اور ان کے قریبی دوست ڈاکٹر منان بلوچ اور دیگر شہید ساتھیوں کی زندگیوں کو تحریری شکل میں قوم کے سامنے لائیں۔

30 جنوری کو میں اپنے قائد ڈاکٹر منان اور ان کے ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اگر مجھے زندگی میں موقع ملا تو میں اپنے قائد کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ڈاکٹر منان کی گاؤں ضرور جاؤں گا، اور مجھے امید ہے کہ بی این ایم بھی جلد ہی اپنے قائدین اور شہداء کے بارے میں لٹریچر تیار کرے گی۔

ڈاکٹر منان بلوچ 3 نومبر 1969 کو مشکے کے چھوٹے سے گاؤں نوکجو میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر منان جان کے والد کا نام مولوی اللہ بخش ہے۔ ڈاکٹر منان ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ڈاکٹر منان اپنے چچا کے ساتھ مشکے گجر میں رہنے لگے اور جب ڈاکٹر منان 7 سال کے تھے تو وہ نوکجو میں اپنے والد کے پاس واپس آ گئے۔ ڈاکٹر منان نے ابتدائی تعلیم نوکجو سے اور ثانوی تعلیم گجر سے حاصل کی مزید تعلیم کے لیے تربت گئے اور تربت عطا شاد ڈگری کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت ڈاکٹر منان طلبہ سیاست سے وابستہ تھے۔ ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد ڈاکٹر منان نے جھاؤ میں بطور استاد بچوں کو پڑھانا شروع کیا اور اپنی ڈاکٹری کی تیاری بھی شروع کر دی۔ ایم بی بی ایس کی وجہ سے انہیں ٹیچری کا کام چھوڑنا پڑا اور ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے مختلف جگہوں پر بحیثیت ڈاکٹر اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرنا شروع کردیئے۔

ڈاکٹر منان، بلوچ آزادی پسند تنظیم بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر، اور ڈاکٹر دین محمد اچھے دوست تھے۔ ان تینوں نے ایک ساتھ طلبہ سیاست میں قدم رکھا اور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔

آپ ایک مدت تک طلبہ سیاست میں شامل رہے، اسی دوران ڈاکٹر اللہ نذر نے بی ایس او آزاد کی بنیاد رکھی۔ طلبہ سیاست میں اپنے دور کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر نے مسلح تنظیم بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور آج وہ بی ایل ایف کے سربراہ بھی ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد نے بلوچ سیاسی تنظیم بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کی اور 2009 میں ڈیوٹی کے دوران انہیں پاکستانی قابض افواج نے لاپتہ کردیا اور وہ اب تک زندان میں قید ہے اور ازیتیں سہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر منان نے طلبہ سیاست سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میڈیکل کا پیشہ اختیار کیا اور نہ صرف بیماروں کا علاج کیا بلکہ نوجوانوں کے ساتھ سیاست پر بحث و مباحثہ بھی کی۔ ڈاکٹر منان کو اخبارات اور کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، یہی وجہ ہے کہ ملکی و غیر ملکی حالات اور تاریخ پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

ویسے بلوچستان کے حالات 1948 سے خراب ہیں اور یہ خطہ جنگ زدہ خطہ ہے۔ 2004 میں جب ڈیرہ بگٹی کے حالات خراب ہوئے اور ریاست ان پر بمباری کر رہی تھی، ڈاکٹر منان چونکہ بلوچ سیاست سے دور نہیں تھے، اس وقت کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے بی این ایم میں شمولیت اختیار کی۔ اور بہت جلد مرکزی کمیٹی میں شامل ہو گئے۔ اتنی جلدی مرکزی کمیٹی میں شامل ہونا کوئی حیران کن بات نہیں تھی کیونکہ وہ بنیادی طور پر طلبہ سیاست میں بی ایس او کے پلیٹ فارم پر رہے تھے، اس لیے انھیں اخبارات اور کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، اسی لیے انھوں نے اپنی قابلیت کی بنیاد پر مرکزی کمیٹی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہ وقت تھی جب بی این ایم کے سربراہ واجہ غلام محمد کو 2007 میں کراچی کلری سے ریاستی فورسز نے اغوا کیا تھا۔ ڈاکٹر منان نے پارٹی کو منظم کرنے کے لیے دن رات محنت کی۔ واجہ غلام محمد 9 مہینے زندانوں میں اذیت برداشت کرنے کے بعد پارٹی اور بلوچ قوم کی احتجاج کی بدولت بازیاب ہوئے تو 2008 میں ملیر میں بی این ایم نے اپنی مرکزی کونسل سیشن کا اعلان کیا۔ مرکزی کونسل سیشن میں ڈاکٹر منان بھی چیئرمین شپ کے لیے واجہ غلام محمد کے مدمقابل کاغذات جمع کرائے۔ اس کونسل اجلاس میں واجہ غلام محمد دوسری بار پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے اور ہار کے بعد ڈاکٹر منان نے غلام محمد کے ساتھ مل کر پارٹی کو منظم کرنے کا کام شروع کیا تاکہ بلوچستان کے کونے کونے میں لوگوں کو متحرک کیا جا سکے۔ 2009 میں، پارٹی کے رہنما واجہ غلام محمد، لالا منیر، اور بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) کے جنرل سیکرٹری کو ریاستی فورسز نے عدالت سے اغوا کر لیا، اور چند روز بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ میں پھینک دی یہ وہ وقت تھا جب ریاست نے مارو اور پھینکو کی پالیسی شروع کی تھی۔ اور کئی نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں بلوچ قوم کو دینا شروع کر دی تھیں۔ ظالم لاشوں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے۔ اس مشکل وقت میں ڈاکٹر منان نے خلیل بلوچ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ پارٹی کو منظم کرنا شروع کیا اور 2011 میں پارٹی کونسل کا اجلاس بلایا گیا، اس بار خلیل بلوچ کو چیئرمین اور ڈاکٹر منان بلوچ کو مرکزی سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر منان کی بنیادی کوشش یہ تھی کہ وہ بلوچستان کے ان علاقوں کا دورہ کریں جہاں پارٹی کی رسائی نہیں ہے اور لوگوں کو پارٹی کے منشور اور اہداف سے آگاہ کرنا ہے۔ چیئرمین خلیل کہتے ہیں کہ ڈاکٹر منان اور میں ایک دورے کے دوران ایک سردار کے پاس رہے، وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ جب ان میں سے ایک نے پارٹی کے منشور کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر منان نے زمین کے مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد سب کو ایک گھر اور زمین کی ملکیت کے لیے مخصوص زمین دی جائے گی اور باقی زمین بلوچ ریاست کی ہوگی تو سردار نے کہا کہ میرے پاس بہت زمین ہے، آپ اسے آزادی کے بعد لے لیں گے؟ ڈاکٹر منان نے کہا کہ "تمام زمینیں بلوچ ریاست کی ہوں گی، جنہیں رہنے اور زمین کی ملکیت کے لیے مخصوص زمینیں دی جائیں گی۔”

2013 میں آوران میں زلزلہ آیا تو بلوچ قوم نے اپنے بلوچ قوم کی بھر پور مدد کی۔ ڈاکٹر منان نے اس امدای کیمپ میں واضح طور پر پاکستان سے مدد لینے سے منع کیا کہ اس مدد کی آڑ میں وہ فوجی آپریشن کرکے بلوچ قوم کی نسل کشی کریں گے۔ اور دنیا سے بھی درخواست کی کہ اگر آپ ہماری مدد کرنا چاہتے تو براہ راست ہم سے رابطہ کریں کیونکہ کہ ظالم ریاست سے اور پاکستان سے ہم مدد کی امید نہیں رکھتے۔

ڈاکٹر منان نے اپنے لوگوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے دن رات جدوجہد کی اور کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر منان نے کہا کہ کتابوں سے بڑا کوئی رہنما نہیں ہے اور اپنے لوگوں کو کتابوں کا مطالعہ کرنے اور موجودہ حالات سے باخبر رہنے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر منان نے پارٹی کے فیصلے پر میڈیکل کا پیشہ چھوڑ دیا، جو ان کا واحد ذریعہ معاش تھا۔ ڈاکٹر منان کی روڈ حادثہ کی وجہ سے دونوں پاؤں میں راڈ لگے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود پارٹی اور قوم کے لیے پانچ پانچ دن پیدل سفر کرکے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

2014 میں بی این ایم نے مرکزی کونسل کے اجلاس کا اعلان کیا۔ ان کی محنت، تبصروں اور عمل کی وجہ سے ایک بار پھر ڈاکٹر منان کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل اور خلیل بلوچ کو چیئرمین منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر منان اور خلیل بلوچ نے واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد پارٹی کو سنبھالا۔ ڈاکٹر منان 30 جنوری 2015 کو پارٹی کے دورے پر مستونگ گئے تھے اور اشرف بلوچ کے گھر مہمان تھے۔ ساجد بلوچ، بابو نوروز، اور حنیف بلوچ بھی ان کے ساتھ تھے۔ ریاستی فورسز نے چھاپہ مار کر ڈاکٹر منان اور ان کے دوستوں کو شناخت کر کے شہید کر دیا۔

ڈاکٹر منان کو معلوم تھا کہ وہ بھی واجہ غلام محمد اور دیگر بلوچ کارکنوں اور رہنماؤں کی طرح شہید ہو جائیں گے لیکن ڈاکٹر منان نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زندگی کی نعمت کو اپنی بلوچ قوم کے لیے وقف کر دیا۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ