ڈاکٹر منان جان: شخصیت ایک مختصر تعارف

تحریر: دل مراد بلوچ

انسان وہ واحد مخلوق ہے جو پوری زندگی ‘انسان’ بننے کی جدوجہد میں گزار دیتا ہے مگر کم ہی لوگ ہیں جو واقعی اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں۔ دیگر انواع اس کشمکش سے آزاد ہیں مگر انسان کے ساتھ یہ المیہ جڑا ہوا ہے کہ وہ پیدا تو انسان ہوتا ہے مگر انسان بننے کا عمل اس کے لیے سب سے کٹھن جستجو بن جاتا ہے۔ یہ المیہ کب تک برقرار رہے گا، کوئی نہیں جانتا۔ فی الحال، ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ کوئی انسان پیدا ہو، انسان بن کر جیے اور انسان بن کر ہی مرے۔

ڈاکٹر منان بلوچ بھی پیدائشی طور پر انسان نہ تھے لیکن اپنی دانش، درست سمت میں سفر کی شوق اور وسیع مطالعہ نے ان کے انسان بنانے کے ارتقائی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے لیے انسان بننا ہی اصل منزل تھا۔ ایک مدرسے میں پڑھانے والے مولوی کا بیٹا، بلوچ سیاست کے آسمان پر چمکے تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک فکری اور عملی ارتقا کی کہانی ہے۔ ڈاکٹر منان بلوچ کی زندگی میں کئی ایسے لمحے آئے جو کرشمہ محسوس ہوتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر اللہ نذر کے ساتھی تھے اور ان کے رشتہ دار بھی، مگر اللہ نذر جیسے ایک قد آور شخصیت کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنانا آسان نہیں تھا۔ یہ منان بلوچ کی خاص خوبی تھی کہ انہوں نے ہنستے کھیلتے اپنی انفرادی پہچان بنا لی، ایک ایسی پہچان جو وقت کے ساتھ مزید گہری ہوتی گئی۔

ان کے سیاسی سفر کے کرشموں میں یہ بھی شامل تھا کہ 2008 کے سیشن میں وہ چیئرمین غلام محمد کے حریف تھے مگر سیشن کے اختتام کے ساتھ ہی وہ غلام محمد کے محبوب ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔ چیئرمین غلام محمد کی شہادت کے بعد ڈاکٹر منان جان اور چیئرمین خلیل بلوچ کی سیاسی سنگت نے بی این ایم کی نوک پلک سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان قد آور شخصیات کے درمیان، منان بلوچ نے نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ خود کو تسلیم بھی کروایا اور یوں وہ ایک رہنما کے درجے پر فائز ہوئے۔

بلاشبہ، کروڑوں لوگ زندگی بھر انسان بننے کی جستجو میں سرگرداں رہتے ہیں۔ کوئی سماجی خدمت کے میدان میں قدم رکھتا ہے، کوئی تخلیق و تالیف کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے اور کوئی درس و تدریس کو ذریعہ بناتا ہے مگر اکثر کے حصے میں صرف ان کا پیشہ آتا ہے، ان کی جدوجہد انہیں ایک اچھا استاد، ایک ماہر ڈاکٹر یا ایک بہترین لکھاری تو بنا سکتی ہے مگر انسان بننے کا وہ کٹھن مرحلہ بہت کم لوگ طے کر پاتے ہیں۔

منان بلوچ بھی اس جستجو سے گزرے۔ وہ استاد بھی بنے، ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی مگر انہیں چین نہ آیا۔ آخرکار، وہ سیاست کے دریا میں اترے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان بننے کے اس سفر میں انہوں نے قوم پرستانہ سیاست کو اپنا دین و دھرم بنا لیا۔ سیاست ان کے لیے محض ایک میدانِ عمل نہیں بلکہ ان کی زندگی کا محور بن گئی۔ سیاست کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کو اپنے دائرے میں سمو لیتی ہے، یہی وہ قوت ہے جو قوموں کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہے اور منان بلوچ نے اسی کو اپنی راہ بنا لیا۔

اسیر طلبہ رہنما، چیئرمین زاہد کرد نے ایک بار مجھے بتایا کہ انہوں نے کراچی میں لالا لال بخش سے پوچھا:
"لالا، تم نے پوری زندگی قوم پرستانہ سیاست میں گزار دی، اس سے تمہیں کیا حاصل ہوا؟”
لالا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
"زاہد، سیاست نے مجھے انسان بنایا۔”

میں نے ڈاکٹر منان بلوچ کے ساتھ بے شمار لمحے گزارے ہیں اور قربت بھی عجب چیز ہے، یہ جتنی خوشی بخشتی ہے، اتنا ہی درد دے جاتی ہے۔ ڈاکٹر سے جڑی یادیں اتنی گہری ہیں کہ جب سوچنے بیٹھتا ہوں تو خیالات کے بھنور میں پھنس کر رہ جاتا ہوں، جیسے کوئی قصہ بُننے کی کوشش کروں تو خیالات کے ردھم ٹوٹ جاتا ہے اور الفاظ ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیتے ہوئے دن، ملاقاتیں، سفر اور کچھ خاص لمحے۔۔۔یہ سب کچھ میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں، اگر منان جان گریشہ نہ آتے، تو میں کیا ہوتا؟ میری زندگی کس سمت میں جاتی؟ گریشہ کیسا ہوتا؟ سیاست کیسی ہوتی؟ شاید میں ایک عام پرائمری اسکول ٹیچر سے آگے نہ بڑھ پاتا یا ترقی کرکے کسی مڈل سیکشن تک پہنچ جاتا اوساری زندگی "مطالعہ پاکستان” نامی خرافات پڑھا کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہی بڑھاتا، منان جان نے میری زندگی کو بدل دیا۔میں آج بھی کچھ نہیں ہوں، بخدا، کچھ بھی نہیں۔ مگر میرے ضمیر میں جو سکون ہے، جو شانتی ہے، وہ بے مثال ہے۔ میں آزاد ہوں۔ میں آزادی پاکر ایک آزاد انسان ہوں یہ منان جان کے مرہون منت ہے۔
اور گریشہ۔۔۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہوتا۔ ہزاروں لوگ یہاں رہتے ہیں، شاید وقت کے ساتھ تبدیلی آہی جاتی مگر جس فکری اور شعوری تبدیلی نے منان جان کے آنے سے جنم لیا، وہ شاید بیس سال بعد کہیں جا کر نمودار ہوتی اور تب تک، پلوں کے نیچے
سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا۔

گریشہ کو بھی یہ شرف حاصل رہا کہ انہوں سالوں تک ڈاکٹر منان جان کے قدم بوسی کی اور اسی کے طفیل جہاں بھی منان جا تذکرہ ہوگا وہاں گریشہ کا ذکر بھی لازم آئے گا، ورنہ بلوچستان میں گریشہ جیسے ہزاروں خشکابہ علاقے موجود ہیں، میرے لیے گریشہ وہ مٹی ہے، جہاں میں جنما، پلا، پڑھا، میرے لیے تو منان جان کا گریشہ آنا، صرف ایک واقعہ نہیں تھا، میرے لیے یہ ایک تحریک کا آغاز تھا، ایک ایسا لمحہ جس نے وقت کی رفتار بدل دی، ورنہ بہت سارے سیاسی ورکر آج بھی کہیں ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہوتے جو تبدیلی کے انتظار میں خود کو سست رفتار ارتقا کے سپرد کرچکے ہیں۔

مجھے آج بھی اپنی پہلی ملاقات یاد ہے، ایک این جی او کی جانب سے میرے سکول کی عمارت میں ایک میڈیکل کیمپ لگایا گیا تھا، جہاں منان جان مریضوں کو دیکھ رہے تھے، جونہی میں بلڈنگ میں داخل ہوا، ڈاکٹر منان جان دور سے قہقہہ لگا کر بولے
"بیا ڑے ماسٹر، ترا خدا بیاریت! گریشگ ءَ کم از کم یک کتاب دوستے دست کپت”

شاید کسی نے میرے آنے سے پہلے مجھ ناچیز کاتعارف کرایا ہوگا مگر ان سے ملتے ہی ایسا لگا جیسے ہم برسوں کے ساتھی ہوں۔ نہ کوئی جھجھک، نہ اجنبیت۔۔۔بس ایک بے ساختہ اپنائیت، یوں محسوس ہوا جیسے ہم ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہوں، جیسے کوئی پرانی دوستی دوبارہ زندہ ہو رہی ہو۔
اگر میں آواگان پر یقین رکھتا، تو ضرور کہتا کہ پچھلے جنم میں میں اور ڈاکٹر منان ایک ہی وجود تھے جو اس نئے جنم میں دو قالب میں ڈھل گئے ہیں۔

کیمپ کے منتظمین نے شہر سے ایک لیڈی ڈاکٹر بلائی تھی مگر شاید وہ اپنے فیلڈ کی اہل نہیں تھیں۔ کیمپ کے اختتام پر، جب وہ جانے لگی تو منان جان نے مسکراتے ہوئے کہا
"محترمہ، بحیثیت بلوچ آپ میرے لیے بے حد قابلِ احترام ہیں، لیکن بطور ڈاکٹر، بالکل نہیں! آئندہ میرے ساتھ کسی میڈیکل کیمپ میں مت آنا۔”

یہ بات بظاہر تلخ تھی مگر منان جان کے کہنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ وہ ہنستے ہنستے کہہ گئے اور لیڈی ڈاکٹر بھی ہنس کر رہ گئیں۔
مجھے پہلے ہی دن اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ شخص کچھ بھی کہہ سکتا ہے، بے باک، بے ساختہ اور بغیر کسی بناوٹ کے۔ اس لیے سوچا، احتیاط سے رہنا چاہیے مگر میری یہ احتیاط چند ہی لمحوں میں ہوا ہو گئی اور میں منان جان کے قہقہوں میں کھو گیا۔

منان جان کا ساتھ ہمیشہ خوشیوں اور ہنسی مذاق سے بھرپور رہا۔ وہ ہر محفل میں بذلہ سنجی سے جان ڈال دیتے، قہقہوں کی گونج ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے بیزاری یا بوجھل پن محسوس ہوا ہو۔ حتیٰ کہ جب ہمیں معلوم ہوا کہ جوانسال شہید نورالحق ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی تھے اور میں جب نورالحق کا ذکر چھیڑتا، تب بھی ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ وہ ہنستے ہنستے نورالحق، ڈاکٹر اللہ نذر اور اپنی کہانیاں سناتے، جیسے ہر واقعہ ایک دلچسپ قصہ ہو۔

ان کی باتوں میں سچائی اور بے ساختگی ہوتی تھی۔ وہ ایسے شگفتہ مزاج اور بے تکلف تھے کہ صرف ایک جملے سے پوری محفل کو کُشتِ زعفران بنا دیتے۔

ہم ہر بات پر مذاق کر سکتے تھے اور کرتے بھی تھے، بے تکلفی کی حد پار کر کے۔ کبھی وہ جملہ چست کرتے، کبھی میں اور وہ ہمیشہ خوب محظوظ ہوتے۔ شاید کبھی میری خاطر ایسا دکھاتے ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں بناوٹ نام کی کوئی شے موجود نہیں تھی جو کچھ کہتے، دل سے کہتے۔ جو کچھ کرتے، پوری سچائی کے ساتھ کرتے۔

منان جان اصل میں ‘دل کے آدمی’ تھے۔ ان کا دماغ علم کا خزانہ تھا مگر وہ علم کو ذخیرہ کرنے کے بجائے اسے جینے کا ذریعہ بناتے تھے۔ فیصلہ ہمیشہ دل سے کرتے، تعلق ہمیشہ دل سے بناتے۔ شاید اسی لیے وہ چلے گئے اور میں، آج اپنے انجام کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے خاک نصیب ہوگی یا نہیں

لوگ اکثر ڈاکٹر منان جان کی معذوری کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے پاؤں لوہے کے راڈز سے جڑے ہوئے تھے، مگر ان کا عزم فلک بوس اور ناقابلِ تسخیر تھا۔ میں سوچتا ہوں، معذور ڈاکٹر منان جان تھے، یا ہم؟ وہ لوگ جو زبانی دعوے تو بڑے کرتے ہیں، مگر عمل کے وقت انہیں بخار آجاتا ہے، کیا معذور وہ نہیں؟

وہ آج بھی زندہ ہیں، چل پھر رہے ہیں، بلند دعوے بھی کر رہے ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اصل معذور ہم ہیں، جو ابھی تک سفر کا آغاز ہی نہیں کر سکے۔ اور منان جان؟ وہ تو کب کا اپنی منزل پا چکا۔
آہا، منان جان دل کے آدمی تھے، ان کا عزم اور عمل قابلِ رشک تھا۔ وہ کبھی تھکتے نہیں تھے، اور خوف تو جیسے ان کی ڈکشنری میں شامل ہی نہیں تھا۔ اجنبیت کا مفہوم ان کے لیے اجنبی تھا۔ آپ بس انہیں کسی بلوچ کے گھر لے جائیں، خونی رشتہ بجاکہ آپ سے ہو لیکن ایک لمحے میں آپ کا خونی رشتہ بے معنی ہوجاتا اور منان جان ایک لمحے میں گھر کا فرد بن جاتے۔ ان کے لیے اصل رشتہ احساس، فکر اور مقصد کا تھا۔

ان کی بہادری کا عالم یہ تھا کہ جن لوگوں پر شبہ ہوتا کہ شاید وہ ریاست کے لوگ ہیں، وہ بے نیازی کے ساتھ ان کے گھروں میں جاتے، انہیں منہ پر کھری کھری سنا دیتے اور ان سے پارٹی کے لیے کام بھی نکال لیتے۔ یہ ہنر صرف انہیں حاصل تھا، حالات جیسے جیسے بگڑتے گئے وہ اور زیادہ ان لوگوں کے پاس جاتے۔ انہیں اپنے یقین پر اتنا بھروسا تھا کہ وہ جانتے تھے، کوئی انہیں نقصان پہنچانے کی جرات نہیں کرے گا۔

منان جان قائد تھے، لیڈر تھے اور ہر لیڈر کی اپنی ایک منفرد پہچان ہوتی ہے۔ کچھ بہترین منتظم ہوتے ہیں، کچھ غیر معمولی پیش بینی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اسٹیج پر آگ لگا دیتے ہیں۔ منان جان ان میں سے کون تھے؟ شاید اس کا مکمل فیصلہ ابھی باقی ہے۔ ہم اکثر اپنےرہنماؤں کے جانے کے بعد فوری فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ وہ کن خصوصیات کے حامل تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت اور تاریخ، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ لیڈر کو دریافت کرتی رہتی ہے۔

البتہ، منان جان ایک کھلی کتاب تھے، جس نے دیکھا، اس نے ضرور اپنی سمجھ کے مطابق ان کو پڑھا ہوگا۔ اگر مجھے اجازت دی جائے تو میں کہوں گا کہ منان جان بنیادی طور پر ایک غیر معمولی موبلائزر تھے۔ ان کا کام منجمد ذہنوں کی برف پگھلانا تھا، جہاں گئے، وہاں سوچوں کی زمین زرخیز کر دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ نے شاید آج تک ان جیسا موبلائزر پیدا نہیں کیا۔ ان کا رویہ، ان کا لب و لہجہ، ان کی بذلہ سنجی، ان کا وسیع مطالعہ، ان کا مجلسی مزاج، یہ سب کچھ ایسا تھا کہ جہاں بھی جاتے، نقش چھوڑ جاتے۔

وہ لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن جانتے تھے اور سامنے کوئی بھی ہو، انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔ انہیں صرف مقصد سے لگاؤ تھا اور اظہار کا موقع چاہیے تھا، وہ کھل کر بولتے، اپنا موقف واضح کرتے اور ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے۔ جب میں کل وقتی پارٹی کے لیے نکلا تو میں نے بے شمار سفر کیے لیکن جہاں بھی گیا، محسوس ہوا کہ منان جان وہاں مجھ سے پہلے پہنچ چکے ہیں۔ منان جان شاید وہ واحد لیڈر تھے، جن کے حصے میں اتنا سارا بلوچستان آیا ہے جو اتنی وسعت میں پھیلے، اتنے ذہنوں میں جا بسے اور جن کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔

بلوچ کی بدقسمتیوں میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ اس کی سیاست ہمیشہ چھوٹے بڑے شہروں اور قصباتی مراکز کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ شاید ہمارے اسلاف نے دیہات، گاؤں اور پہاڑی سلسلوں میں سیاسی بیداری کو ضروری نہیں سمجھا یا شاید وہ اسے ممکن نہ بنا سکے۔ مگر منان جان پہلے سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے سیاست کو شہروں کی آلودہ ذہنیت اور محدود دائروں سے نکال کر دیہی وسعت، پہاڑوں کی بلندیوں اور ان ذہنوں تک پہنچایا، جنہیں ہمیشہ سیاسی شعور سے محروم رکھا گیا تھا۔
انہوں نے ایک ایسا سبق پڑھایا جو محض الفاظ میں نہیں، عمل میں تھا۔ شاید سب لوگ ان کے نظریے پر عمل نہ کر سکے، مگر وہ آج تک منان جان کی سحر انگیزی سے باہر نہیں آ سکے۔ وہ ذہنوں میں ایک تحریک بن کر زندہ ہیں اور ان کی فکر کا دائرہ اب بھی پھیل رہا ہے۔

وہ سیاست کے داعی تھے، الفاظ کے جادوگر تھے، لکھنے کا ہنر جانتے تھے، اور جب بولتے تو ان کی زبان میں جادو ہوتا تھا۔ ان کا کام محض بات کرنا نہیں تھا وہ لوگوں کے دل جیتنے کا فن جانتے تھے—اور وہ ہمیشہ جیت لیتے۔

ہم رسمی طور پر کہتے ہیں کہ بڑے انسان کے جاتے جاتے اپنے پیچھے متبادل چھوڑ جاتے ہیں جو ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہیں لیکن میں اس سے مکمل اتفاق نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی جگہ خالی کر کے چلے جاتے ہیں، اور ان کا خلا پر نہیں ہو پاتا۔ کام تو جاری رہتا ہے، قافلہ آگے بڑھتا ہے، مگر ایک گرم و سرد چشیدہ، نشیب و فراز سے گزرنے والا لیڈر جو کچھ خود کر سکتا تھا، وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔

اگر منان جان آج زندہ ہوتے تو ان کے سکھائے ہوئے لوگ جو کام کر رہے ہیں وہ خود بے مثال کام کرتے اور مزید سیاسی شاگرد پیدا کرتے جو ان کے علم کی روشنی میں زیادہ نکھرتے، زیادہ سیکھتے اور شاید ہماری جدوجہد آج کسی اور سطح پر ہوتی۔
ہم لیڈر خور قوم ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ جنگ جاری ہے، لوگ مارے جاتے ہیں اور نئے لوگ آ جاتے ہیں، اس میں کیا مسئلہ ہے؟ مگر شاید ہم یہ احساس نہیں کر پاتے کہ کسی بڑے انسان کے جانے سے محض ایک جسم فنا نہیں ہوتا بلکہ ایک پوری فکر، ایک منفرد طرزِ سوچ اور ایک بے بدل ذہن فنا ہو جاتا ہے۔

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں دوبارہ تخلیق ہونے میں شاید دہائیاں لگ جاتی ہیں اور بعض کبھی دوبارہ تخلیق ہو ہی نہیں پاتیں۔

جیسے جیسے وقت آگے بڑھے گا، مصور کا برش، شاعر کا مصرعہ، فنکار کا فن پارہ، ادیب کا قلم اور مورخ کا کھوج، سب ڈاکٹر منان جان کی صورت گری کرتے رہیں گے۔ میں نے جس ڈاکٹر منان کو دیکھا تھا، وہ آج بھی میرے شعور میں اسی شدت سے زندہ ہیں، جیسے ابھی دہلیز پر کھڑے مسکرا کر کہہ رہے ہوں
"ماسٹر، آپ کو رات یہیں ٹھہرنا ہے، میں ابھی ایک دوست سے مل کر آتا ہوں۔”

یہ سحر، یہ تاثیر، یہ طلسم، یہ وقت کے ساتھ ماند پڑنے والا نہیں۔ یہ شراب کی مانند ہے، جتنا پرانا ہوگا، اس کا نشہ اتنا ہی گہرا ہوتا جائے گا۔

منان جان تو ایک نشہ تھے اور ہم اس نشے میں مخمور ہو کر غافل ہی رہ گئے۔ ورنہ صاحبانِ ہوش و حواس، ڈاکٹر منان جان جیسے لوگوں کو یوں کھو دینے کی نادانی کہاں کرتے ہیں؟

منان جان! مجھے آپ سے ایک گلہ ہے۔ آپ خوش مزاج تھے مگر خدانخواستہ غیر سنجیدہ تو نہیں تھے، پھر کیوں ایسا کیا؟ آپ نے ہم پر سحر طاری کر دیا، ہمیں گہرے نشے میں ڈبو دیا اور خود خاموشی سے نکل گئے۔
جب نشہ ٹوٹا تو ہم لُٹ چکے تھے۔
اب آپ کے بغیر جی لگتا ہے نہ سنبھلتا ہے۔
منان جان! پلیز، مجھے بھی اپنے پاس بلا لو۔۔۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

احتجاج کا 5715 دن ، ریاست پاکستان تسلسل کے ساتھ انسانیت کے خلاف تسلیم شدہ جرم کا مرتکب ہے۔ ماما قدیر بلوچ

جمعرات جنوری 30 , 2025
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور جن لوگوں کو ماورائے عدالت یا زیرحراست قتل کیا گیا  ہے ان کے لواحقین کو اںصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔ دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف جرم  ہے جبکہ ریاست […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ