
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ آج اپنے انتالیسویں روز میں داخل ہوگیا۔
مظاہرین میں خواتین، بزرگ اور بچے شامل ہیں جو سخت موسم، بارش اور ریاستی بے حسی کے باوجود اپنے پیاروں کی بازیابی کا پُرامن مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج صرف چند خاندانوں کا نہیں بلکہ پورے بلوچستان پر بیتنے والے ظلم و جبر کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کے مطابق اگر عوام کی آواز دبائی گئی تو کل یہ پورے ریاستی نظام سے عوامی مایوسی اور لاتعلقی کا باعث بن سکتا ہے۔
مظاہرین نے انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں، عدلیہ اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور سیاسی آوازوں کو دبانے کے خلاف اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر اسیر رہنماؤں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ اہلِ بلوچستان کو جینے کا بنیادی حق مل سکے۔
دوسری جانب کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ جاری ہے جو آج انیسویں روز میں داخل ہوگیا۔ کیمپ میں شریک زاہد علی بلوچ کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں زبردستی لاپتا ہوئے 38 دن ہو چکے ہیں۔

زاہد علی بلوچ کے والد کے مطابق ان کا بیٹا 17 جولائی 2025 کو شام 5 بجکر 30 منٹ پر کراچی میں سواری کا انتظار کر رہا تھا جب ریاستی اداروں کے اہلکار اسے زبردستی لے گئے۔ اب تک اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ اگر زاہد پر کوئی الزام ہے تو آئین و قانون کے مطابق انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
اہلِ خانہ کا مؤقف ہے کہ جبری گمشدگیاں خاندانوں کے لیے ناقابلِ برداشت صدمہ ہیں، لہٰذا وہ انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا، اعلیٰ عدلیہ اور انصاف پسند حلقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ زاہد بلوچ کی فوری بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔
