بقول ڈاکٹر ماہرنگ کے “ اگر اپنے وطن کے لئے آواز اٹھانا غداری ہے تو میں سمجھتی ہوں مجھ سمیت ,بلوچستان کا ہر فرد غدار ہے “ ۔
بلوچ قوم نے مسلح جد و جہد سے پہلے، بلکہ پر امن جد و جہد سے پہلے ، اس ریاست کو بہت سے موقعے دیے کہ وہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار ، بلوچ قوم کی رضا کے بغیر بلوچستان میں بیوپار بند کرے ،جبری گمشدگی و ماورا عدالت قتل جیسے سنجیدہ معاملوں پر بیٹھ کر بات کرے ، ایکشن لے ، اپنی عدالتوں ، اس میں پڑی قانون جو مدتوں سے نہ کھولے ہوئے کتابوں کا ڈھیر بن چکی ہے ،اسے چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت بلوچوں پر انصاف کرے جو بے گناہ ہیں انہیں با حفاظت رہا کرے ، جن کا کوئی جرم ثابت ہو انہیں قانون کے تحت سزا سنائے۔
مگر اس ریاست نے ہر اس بلوچ کو جبری گمشدگی ، ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنایا، جس نے بلوچوں پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف پر امن جد جہد کی۔
بلوچستان سے گیس نکلا بلوچ لکڑیاں جلا تا رہا ، بلوچستان سے دیگر معدنیات نکلے بلوچ کو کچھ نہیں ملا ، بلوچستان جو سالوں سے پاکستان کا پیٹ پالتا رہا ، جس سے پارلیمان میں بیٹھے سیاستدانوں سے لیکر انکے پالے ہوئے باڑے کے غنڈوں کے بینک اکاونٹس بھرتے گئے ، اور پنجاب کی گلی گلی کو بلوچستان کے وسائل اور اسکے بچوں کی خون سے سجایا سنوارا گیا ، مگر بلوچستان بھوکا رہا ، بلوچستان پانی کو ترستا رہا ، بلوچ کی ایک نسل تعلیم سے محروم رہا ، جو چھوٹی سے چھوٹی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں انہیں علاج تک موصول نہیں ۔
ہمارے خواندہ نسل جس نے تعلیم حاصل کی اپنے بنیادی حقوق جانے ، اور انکی پامالی کے خلاف جد جہد کی ،آواز اٹھایا بلوچستان بھر کو یہ پیغام دیا کہ اٹھو آنکھیں کھولو اور دیکھو جس تخت پر آج پنجاب بادشاہت کر رہی ہے وہ اصل میں کس کا ہے ، جس دولت پر پنجاب اطراتی ہے وہ اصل میں کس کی ہے ، وہ کون ہے جسے آج بلوچوں کا دستنگر ہونا تھا ، وہ کون ہیں جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بلوچستان آنا تھا ، وہ کون ہیں جنہیں بلوچ کے زیر اہتمام نوکری کرنی چاہیے تھی ، آج ہمارے نوجوان نسل کو علم حاصل کرنے کے لئے، ہمارے تعلیم یافتہ نسل جنہیں بڑے بڑے عہدے سمبھالنے تھے انہیں دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے پنجاب جاکر ذلّت سہنا پڑتا ہے ، کوئی کسی مریضی میں مبتلا ہو اسے علاج کے لئے بلوچستان سے باہر جانا پڑتا ہے ۔
اس درد اور ذلت کا حقدار بلوچ تو نہیں تھا ، وہ تو صدیوں یہاں حاکم رہے ہیں ، انکا وطن اتنا امیر ہے کہ اسےپاکستان کے تُکڑوں پہ پلنے کی اسکی جی حضوری کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ اس باشعور قوم کو پاکستان نے بہت سال اپنے بوٹوں تلے روندا ، اسکو خاموش رکھنے کی کوشش کی مگر بلوچ کے آبا و اجداد نے وراثت میں فقط دولت نہیں بلکہ علم و شعور ، بہادری بھی بلوچ نسل کو بخشی۔
بقول ڈاکٹر ماہرنگ کے ،”ہمارے آبا و اجداد نے پاکستان کو حقیقی سیاست سکھائی “ ، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں پانچ پانچ سال حکومت کرنے والے ، دس سال حکومت کرنے والے ، نہ ملک میں امن لا سکے نہ ترقی ، چوری چکاری ، ملک کے لئے بھیک مانگ کر پر اس پیسے سے اپنی خواہشات پوری کرنا ، ملک کے عوام کو بے وقوف بنانا ، تخت ملتے ہی رئیسی کے نشے میں دُھت اپنے ملک کے باسی اور انکی ترقی جیسے کئی وعدے صرف باتیں رہ جاتی ہیں لیکن ۔۔، جب الیکشن آتے ہیں پھر وہی سیاستدان کل تک جو ہمارے دکھ درد اور بے بسی پر خاموش تھے جو ہماری نسل کشی جیسی سنجیدہ معاملے پر خاموش تھے ، ہماری ماوں بہنوں ، بزرگوں کی پر امن احتجاج پر تشدد کرنا ، انہیں دہشتگرد قرار دینا ، انکے آنسووں پر ہنسنا انکے درد کا مزاق اڑانا ، پورے سوشل میڈیا پر چلا کر ملک کے اندر اور باہر سب نے اسکی مذمت کی ، مگر میں نے نہ اختر مینگل اور نا بلاول بھٹو اور نہ دیگر سیاستدانوں میں کسی کو وہاں اسلام آباد جا کر ان سے اظہار یکجہتی تو دور سوشل میڈیا پر حوصلہ افضائی کی ایک پوسٹ تک ڈالتے دیکھا ، اب بلاول سے لیکر ڈیتھ سکواڈ کے ممبران جو اب کی الیکشن میں امیدوار تھے ، سب کو بلوچوں سے ہمدردی ہونے لگی ۔
اس بار بلوچ کسی سیاستدان کی ٹگھی میں نہیں آئی، ہمیشہ کی طرح پاکستان کی کٹ پتلی پارلیمنٹ میں ، جاہل اور گواروں کی خریداری ہوئی ، بولیاں لگائی گئیں جو بھی سستے میں ملا اُٹھا کر بیھٹا دیا پارلیمنٹ کی کرسی پر۔
ایک طرف ریاستی جبر دوسری طرف مزاحمتی للکار اور بلوچ نے اپنا راستہ خود چُنا ہے ، وہ ان سیاستدانوں کی جھوٹے لاروں میں نہیں آنے والی۔
ماہرنگی بلوچستان میں صرف دو زبانیں بولی جاتی ہیں ، مھر ، مزاحمت ۔
یہ مزاحمت بلوچستاں کی گلیوں میں ماہرنگ اور اسکا کاروان ہے ، اور بلوچستان کے برز و بلند پہاڑوں میں بلوچستان کے بہادر بچے ، جو سرمچار ہیں جو فدائی ہیں ، جو غلامی کی زنجیروں کو اپنے خون کے قطروں سے توڑ رہے ہیں، جن کی وطن سے محبت ، موت کو گلے لگا کر فنا ہونے کا جذبہ ہمیں مضبوط اور نہ شکستہ حوصلہ عطا کرتی ہے۔
جب تک بلوچستان پر پاکستان قابض ہے ، جب تک بلوچ پنجابیوں کے غلام ہے تب تک بلوچوں کو نقصان پہنچتی رہیگی، جبری گمشدگیوں میں مزید اضافہ ہوگا ، مسخ شدہ لاشوں کی تعداد کم نہیں ہوگی ، مگر اب جب بھی کوئی بلوچ اٹھایا جائے گا تو اسکا خاندان خاموشی اختیار کرنے کی بجائے مزاحمت کا راستہ اپنائے گی۔
بلوچستان کا سب سے بڑا مسلہ اس دورِ جدید میں ، بلوچستان بھر میں تعلیمی اداروں کا نہ ہونا نہیں ہے ، بلوچستان میں پانی کی قلّت نہیں ہے ، بلوچستان میں فاقہ نہیں ہے ، بلوچستان میں ہسپتالوں کا نہ ہونا نہیں ہے ، بلوچستان بھر میں بجلی کہ نہ ہونا نہیں ہے ، انٹرنیٹ کا نہ ہونا نہیں ہے ، جو گیس بلوچستان سے نکلتی ہے اسی بلوچستان میں رہنے والے بلوچ آج کے دور میں بھی لکڑیاں جلاتے ہیں ، بلوچ اپنے لئے آسان زندگی ، آسائش ، پکی سڑکیں ، پکے مکان تک نہین مانگ رہے ، جس سی پیک کو بلوچستان کی ترقی کا ضامن قرار دیا گیا ، جس کے نام پر چین سے پاکستان کی ایکونومی سے کئیں گنا بڑھکر روپیہ لیا گیا ، بلوچ تو اس سی پیک سے بھی کوئی امید لگا کر نہیں بیھٹا۔
بلوچستان کا سب سے بڑا مسلہ ، لاپتہ افراد کا ہے ، میں سمجھتی ہوں کہ ان کو لاپتہ افراد کہنا ، ان پر ایک بہت بڑی زیادتی ہوگی ، کیوں کہ لاپتہ وہ ہوتے ہیں جن کا کوئی پتہ معلوم نہ ہو ، جنکو لے جانے والے گمنام ہوں ، جو کہاں گئے کسی کو کچھ معلوم نہیں ہو ، مگر یہاں ایسا نہیں ہے ، ایک ایک تصویر ایک کردار ہے ، جس کو بلوچ ہونے کے جرم میں ، پاکستان کی فوج اور اسکی اینٹلی جنس ایجنسی ، اسکے بھاڑے کے چھوڑے ہوئے غنڈے ، بیشتر گھروں سے ، خاندانوں کے سامنے ، مارتے ہوئے گھسیٹتے ہوئے ، انکے بال نوچتے ہوئے لے جاتے ہیں ، کوئی اگر اپنے تعلیمی ادارے سے بھی اٹھایا گیا ہو اسکے بھی چشم دید گواہ موجود ہیں ، اگر کسی کو اسکی دکان سے لے جایا گیا ہو ،لے جانے ولا ایک ہی ہے ۔ وردی پوش غنڈے جنہیں بلوچستان میں کچھ بھی کرنے کی بے چھوٹ ہے ، جن کا بس چلے تو بلوچستان کے آسمان کو ، بلوچوں کے خون سے لال کردے ، جن کا بس جلے تو بلوچستان کے بہتے نہروں میں سے پانی نکال کر اس میں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں بہا دیں ۔
پنجابی فوج کی تاریخ میں ذلت ہے ، انکی تاریخ نے انہیں ڈرپوک لکھا ، جس فوج کو وہ عظیم قرار دیتی ہے اسے اس کی تاریخ نے پیٹو لکھا ، بقول انکے اپنے لوگوں کے کہ “ پاکستان کی فوج جنگجو فوج نہیں ہے انکے پیٹ بڑے ہیں وہ لڑ نہیں سکتے “
اس بات کی سچائی کو ہم آپریشن درہِ بولان میں دیکھ چکے ہیں ، جب ہمارے بہادر فدائی میدان جنگ میں اپنے لئے دو گولیاں بچا کر لڑتے رہے ، وہاں پاکستان کی فوج کیمپ کے باتھ روم میں چپ کر اپنے لیے دعاوں کی اپیل کررہی تھی ۔
آج جن تصویروں کی ہم بڑھتی ہوئی تعداد دیکھتے ہیں اور ان تصویروں کو اٹھانے ولے کمسن ، یا عاجزی کے عمر میں کمزور ہاتھ دیکھتے ہیں، ان بے بس آنکھوں میں جھلکتی ہوئی امید ، ان لڑکھڑاتی قدموں کا وہ بُلند حوصلہ ، جس کا نام مزاحمت ہے ، وہ مزاحمت جس کے لئے کئی ذاکر اور زاہدوں نے جنم لیا ، وہ مزاحمت جس پر ہزاروں غلام محمد اور صبا قربان ہوئے ، یہ انہی کریمہ اور شاریوں کی بوئی ہوئی بیج ہے ، جس کو ہزاروں فاروق اور فرہادوں نے اپنے خون کے قطرے دیے ، جو آج کئی مضبوط شاخوں اور سبز پتوں سے گھری ہوئی درخت بن چکی ہے ، جس درخت کو ہم مزاحمت کا نام دیتے ہیں۔
ہزاروں کردار ان فریمز میں قید تصویروں کی رہائی کے لیے آئے ، انہوں نے آواز اٹھائی ، اور خود تصویر بن گئے۔
تاریخ گواہ ہے ، کہ بلوچ نے اپنی عورت کو مرد سے کمتر نہیں سمجھا ، اسے ہمیشہ برابری کا حق دیا ، اسے سیاسی جرگوں میں شمولیت حاصل تھی ، اسے جنگی فیصلوں میں اپنی رائے رکھنے کا اختیار حاصل تھا ، گل بی بی اور بانڑی کی عہد ہو یا کریمہ اور ماہرنگ کی ، بلوچ عورت اپنے مردوں کے شانہ بہ شانہ کڑی ہے ،بلوچستاب کی تاریخ نے اپنے پنوں میں ہمیشہ مرد اور عورت کی بجائے جانثار لکھا ، عظیم قوم کے عظیم جانثار ۔
جس طرح مجھے ماہرنگ انسپائیر کرتی ہیں اپنے بلند حوصلے اور مستقل مزاجی سے ، جب وہ سٹیج پر ہوتی ہے تو زمانے ٹھہر کے انکو سُننے لگتے ہیں ، جن کے لفظوں کا چناؤ کبھی سننے اور غور فرمانے والوں کو مایوس نہیں کرتی ، جو بلوچ قوم کو اسکی قومی زمہ داریوں سے آگاہ کررہی ہے ، جو بلوچ قوم کو ہر ظلم و جبر کے خلاف پرجوش مزاحمت پر آمادہ کر رہی ہے ، جس کی للکار نے ایک ایٹمی طاقت کو ڈر اور بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔
بلوچ قوم اپنے وطن کے حقیقی وراثوں کو آنکھوں پر بیٹانا جانتی ہے ، ماہرنگ کا اسلام آباد سے واپسی پر بلوچ قوم کو اپنی ایک پکار پر اَکھٹا کرنا ہو یا فدائیوں کا اپنے سانسوں کی قیمت پر وطن واپسی ہو ، بلوچ قوم نے ایک جھنڈ ہوکر اپنے یک موشت ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ ، اور سب سے بڑھ کر بلوچ اپنے دشمن کو پہچان چکی ہے ،یہ بلوچ قوم کی سب سے بڑی جیت ہے ، قابض فوج اور اسکی صدیوں سے چلی آرہی چالبازیوں کی شکست ہے ۔
سوائے ان بلوچوں کے جو پاکستان کی رچی ہوئی سازشوں کا شکار ہوئے ، سوائے چند بلوچوں کے جو چند سکوں کے لئے بک گئے ۔
سوا اسکے بھاڑے کے طوطوں کے جنہیں جو بھی رٹایا جائے ، وہ اسی کو دھراتے جاتے ہیں ، ہماری پُر امن جد و جھد کو بیرونی سازش کا نام دیتے ہیں، اندر ہی اندر دشمن فوج یہ بھی جانتی ہے کہ بلوچوں کو اب مزید بوٹوں تلے نہیں روند سکتا ، جس چنگاری سے وہ بلوچوں کو جلانا چاہتا تھا اب وہ ایک بھڑکتی آگ بن چکی ہے ، وہ دن دور نہیں جب یہ نفرت کی آگ پاکستان کے کونے کونے کو اپنے اندر سما لے گی ۔
جب بھی پاکستان فوج کی طرف سے بلوچ کو گمراہ کرنے کے لئے جو کٹ پتلی بھیجے گئے ، انہوں نے ہمیشہ بلوچ کو جاہل سمجھا ، ابھی تک پاکستان کی آدھی آبادی اس غلط فہمی کا شکار ہے ، وہ بلوچ کو جنگلی سمجھتا ہے ، وہ بلوچ کو انپڑھ سمجھتا ہے وہ سوچتا ہے کہ بلوچ اس کی طراح بزدل ہے ، مگر تاریخ گواہ ہے ، کہ بلوچستان میں رہنے والا ایک پہاڑی چرواہ پنجاب کے ایک پڑھے لکے ڈگری ہولڈر سے زیادہ شعور رکھتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی ایٹمی فوج پر بلوچوں کا ماہرنگ بھاری پڑگیا ، تاریخ ہمیشہ گواہ رہیگی کہ بلوچ مرنے کے ڈر سے خاموش نہیں رہا اسنے نسل در نسل قابض کے خلاف مزاحمت کی ۔
خاموشی موت ہے مزاحمت زندگی ہے۔