بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ حکومت کی جانب سے پرامن سیاسی کارکنوں کے خلاف ریاست کے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا فائدہ اٹھانا امتیازی اور ناقابل قبول ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ بی وائی کے مرکزی رکن شاجی صبغت اللہ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے فورتھ شیڈول میں رکھنا بلوچ اور بلوچستان کے تئیں ریاست کی آمرانہ اور استعماری ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ درحقیقت، بی وائی سی کے پلیٹ فارم سے شاہ جی کی جدوجہد بنیادی طور پر ریاست کی ایسی پالیسیوں اور طرز عمل کی مزاحمت پر مرکوز ہے جو بلوچوں کی نسل کشی کا باعث بن رہی ہیں۔
بی وائی سی نے کہا ہے کہ ملک کے آئین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت ہر شہری کو آزادی اظہار، نقل و حرکت اور پرامن اجتماع کا حق حاصل ہے۔ پرامن سیاسی جدوجہد کو دہشت گردی سے تشبیہ دینا عالمی جمہوری اصولوں کے منافی ہے اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ مزید برآں، بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے بلوچ عوام کی پرامن آوازوں کو روکنے اور ان کی حقیقی شکایات کو اجاگر کرنے کے لیے ریاستی حکمت عملی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا ہےکہ بغیر ٹھوس ثبوت کے سیاسی کارکنوں کے خلاف ریاست کی طرف سے قانون کا امتیازی استعمال نہ صرف بین الاقوامی کنونشن آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ نسل پرستی کے مترادف بھی ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا ہےکہ ہم عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے طریقوں کے خلاف تشویش کا اظہار کریں۔ بلوچ معاشرے کے تمام طبقات کو ایسے نوآبادیاتی قوانین کی مزاحمت کرنی چاہیے۔