
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سکریٹری جنرل رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ رارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی (بلوچستان ترمیم) ایکٹ 2025، جسے مقبوضہ بلوچستان کی ڈمی اسمبلی نے منظور کیا ہے، جبری گمشدگی کے گھناؤنے جرم کو قانونی شکل دینے کی کھلی کوشش ہے۔ لوگوں کی جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے بجائے اس کو قانونی ڈھال دینے کی کوششیں بلوچستان میں استعماری راج کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلی ایم پی اے کے پاس قانون بنانے کا کوئی قانونی موقف یا اخلاقی حق نہیں ہے کیونکہ انہیں بلوچستان کے عوام نے منتخب نہیں کیا بلکہ کور کمانڈر کوئٹہ نے منتخب کیا ہے۔ وہ جرم میں ساتھی ہیں۔ کوئی بھی قانون جبری گمشدگی کو قانونی حیثیت نہیں دے سکتا۔
رحیم بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ ان پر نہ صرف پاکستانی فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر سیکورٹی اداروں کی طرف سے بلکہ ریاست پاکستان کی طرف سے ظلم و ستم اور نسل کشی کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی ریاستی مقننہ، اس کی ایگزیکٹو، عدلیہ اور ٹاؤٹ میڈیا سبھی بلوچستان میں فوج کے جرائم کو قانونی احاطہ سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب جانتے ہیں کہ مقبوضہ بلوچستان پر فوج، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور ان کی سرپرستی کرنے والی نجی ملیشیاؤں کی حکومت ہے۔ مقبوضہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کی سربراہی سرفراز بگٹی کر رہے ہیں جو خود بُگٹی امن فورس نامی ایک پرائیویٹ ملیشیا سے تعلق رکھتے ہیں جسے ان کے بھائی آفتاب بگٹی چلا رہے ہیں۔