مشتری ہوشیار باش : تحریر: عمران بلوچ ایڈووکیٹ

‘مشتری ہوشیار باش’ ایک قانونی اور سماجی اصطلاح ہے جو اکثر ایسے موقعوں پر لاگو ہوتی ہے جب زمین کی خریداری کے وقت خریدار مذکورہ زمین کے بارے میں درست معلومات نہ لے، مثلاً:
کیا زمین کسی تنازعے میں تو نہیں ہے؟
کیا زمین پر کسی عدالت میں کوئی مقدمہ زیرِ سماعت تو نہیں؟
کیا زمین کے کاغذات درست ہیں؟
اور کیا زمین اصل مالک ہی بیچ رہا ہے؟

یعنی، خریدار کو سودا کرتے وقت مکمل معلومات حاصل کرنا لازمی ہے، ورنہ نقصان کا احتمال ہوتا ہے۔ لاطینی میں اسے "Lis Pendens Doctrine” کہتے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی نادان یا لالچی شخص بغیر تصدیق کے ایسی زمین میں پیسہ لگاتا ہے تو اس کے پیسے ڈوبنے کا امکان سو فیصد ہوتا ہے کیونکہ ایسے سودے کی آئینی اور قانونی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

بلوچ اور ریاست کا معاملہ ہمیشہ "مشتری ہوشیار باش” جیسا رہا ہے مگر ریاست نے ایک ٹھگ کی طرح بلوچ ریاست کے ساتھ ساتھ بلوچوں کے قومی وسائل کو بھی لوٹا ہے۔ انسانی وسائل کو قید و بند اور جبری گمشدگی کا شکار بنانے کے علاوہ، بلوچوں کی قومی تاریخ، زبان، اور تشخص کو بھی ہمیشہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔

1948 سے لے کر 2024 تک، بلوچوں نے ریاست کو بارہا "مشتری ہوشیار باش” کا پیغام بھیجا ہے، مگر ریاستی ٹھگ کا فیصلہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ میں اسے مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹوں گا۔ اگر کچھ ہاتھ آیا تو مفت کا مال ہے، اور اگر مالک نے میری ٹھگی کو پہچان کر مجھے ناکام کیا، تو میرا کون سا نقصان ہوگا؟ کیونکہ میں تو پہلے ہی مفت کا مال ہڑپ رہا تھا۔

قابض کا ایک رٹی رٹایا سبق یہ ہے کہ وہ مذہب اور لسانی تقسیم کے ہتھیار مقامی لوگوں کے خلاف استعمال کرتا ہے، اور مقامی لوگوں کے عقیدے، تہذیب، اور قومی تاریخ کو اپنے تابع کرنے کی کوشش میں اپنے کرائے کے لکھاریوں سے قلمی غلاظت اگلواتا رہتا ہے۔ جب برطانیہ کے غلام انگریز مقامی امریکنز/ریڈ انڈینز پر قابض ہوئے، تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کی تاریخ، تہذیب، عقیدے اور مزاج کو خود ان مقامی لوگوں سے بہتر جانتے ہیں۔ یہی دعویٰ برطانیہ نے برصغیر کے لوگوں کے بارے میں بھی کیا، کہ وہ انہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں۔

ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ محکوم قومیں اپنی پہچان اور قومی وجود یا تاریخی سچائی کا ذکر نہ کریں، یہ نہ کہیں کہ "تم اور ہم الگ ہیں”، اور خاص طور پر یہ نہ بتائیں کہ ہم نے تمہاری قوم اور سرزمین پر قبضہ کرکے تمہارے وسائل کو لوٹ کر تمہیں اپنا غلام بنایا ہے۔ قابض کا یہ انتہائی ضعیف دلیل ہوتا ہے اور خاص طور پر جب کسی محکوم قوم کی ایک منظم سیاسی تحریک چل رہی ہو، تو ایسے حربے خود قابض کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتے ہیں۔

جولائی کے ماہ میں اسلام آباد کی ایک پرانی کتابوں کی دکان "مسٹر بک” کے فیس بک پر موجود آفیشل پیج کا معائنہ کر رہا تھا کہ شاید کوئی نئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہو جو میرے کام کی ہو۔ اسی دوران میری نظر میر ہزار خان رحمکانی کے حوالے سے چھپنے والی ایک کتاب کے سرورق کی تصویر پر پڑی۔ فوراً اسلام آباد میں موجود ایک بلوچ وکیل دوست کو کال کرکے کہا کہ میرے لیے یہ کتاب خرید لو۔ میرے دوست نے فوراً جاکر کتاب کی مانگ کی، مگر مسٹر بک والوں نے بتایا کہ کتاب ابھی پرنٹنگ پریس کے پاس ہے اور ایک ہفتے میں چھپ کر مارکیٹ میں آ جائے گی۔

تب میں نے اپنے دوست سے کہا کہ پیشگی طور پر میرے لیے دو کتابیں بک کروا دو۔ اس دوران میرا دوست بار بار پبلشر کے پاس جاتا رہا اور پبلشر کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا تھا کہ پریس والے نے نجانے کیوں دیر کر دی ہے۔ ہر بار پوچھنے پر یہی کہا جاتا کہ کتاب اگست کے مہینے میں، شخصیت سے منسوب برسی کے موقع پر، چھپ کر آ جائے گی۔ مسلسل رابطے میں رہنے پر ایک دن پبلشر نے بتایا کہ اب یہ کتاب کبھی بھی چھپ کر نہیں آ سکتی کیونکہ کچھ قوتیں، جو قلم اور کتاب سے ڈرتی ہیں، سارا مواد اپنے ساتھ لے گئی ہیں اور ہمیں سختی سے منع کر دیا گیا ہے کہ آئندہ ایسا کوئی اقدام اٹھانے پر ہمیں سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

میں نے ان کی بات کو سچ مان کر مایوسانہ انداز میں خاموشی اختیار کر لی لیکن کچھ دنوں بعد یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اسی کتاب کی تقریب رونمائی سرکاری سطح پر منعقد کی گئی ہے، اور مزید حیرت یہ تھی کہ سرفراز بگٹی تقریب میں عالم فاضل بن کر خطاب کر رہے ہیں۔ بہرحال، کسی ذریعے سے کتاب کی ایک کاپی ہاتھ لگی اور پڑھ کر معلوم ہوا کہ اقوامِ متحدہ کے فلور پر آستین سے ناک صاف کرنے والے شہباز شریف اور غریبوں کی زمین ہڑپنے والے آصف زرداری نے کتاب کے حوالے سے اضافی نوٹس/تبصرے لکھے ہیں۔

درحقیقت، کتاب میر ہزار خان کی ہے ہی نہیں، بلکہ ان کی وفات کے چار سال بعد ان کے نواسے سے منسوب کرکے لکھوائی گئی ہے اور یہ نواسہ پاکستان کی فوج میں ملازم ہے۔
کتاب کو لکھنے والوں میں سے ایک خالد فرید ہے، جو فوج میں ملازم ہے۔ یہی وہی خالد فرید ہے جس پر بلوچستان میں (باپ پارٹی) بنانے کا الزام ہے۔ دوسرا نام عمار مسعود کا ہے، جو خود اپنے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ان کا نثر سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ جس مواد کو انہوں نے کتاب کا نام دیا ہے، وہ مجھے کتاب سے زیادہ تصویروں کا البم لگا۔ تبھی تو ابتدا میں میرے دل سے کتاب کے نہ چھپنے پر جو افسوس کی صدا نکلی تھی، اس نے لمحہ بھر میں مجھے تسلی دی اور کہا کہ: "پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا”

اس بار کتاب کو "مسٹر بک” کے بجائے (سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور) نے نہایت عجلت میں چھاپا ہے اور مواد میں مزید رد و بدل کیا ہے۔ اتفاق سے مسٹر بک نے اپنے آفیشل پیج پر کتاب کے سرورق کی جو تصویر دی تھی، اس میں سنگ میل والوں نے کچھ تبدیلیاں کرکے کتاب کو دوبارہ چھاپا ہے۔ یہ سب اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ کتاب کے چھاپنے والوں کے مزموم عزائم خاک میں مل گئے ہیں۔

ہزار خان رحمکانی جیسے بلکہ ان سے بھی کم تر ایک پشتون کردار، جمعہ خان صوفی نے بالکل اسی طرز پر نیپ کی قیادت کے خلاف "فریب نا تمام” کے نام سے ایک کتاب لکھ کر زہر اگلنے کی کوشش کی تھی۔ جمعہ خان کی یہ کتاب آج بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ بھی ایک فوجی ملازم نے لکھا تھا، جس میں اس وقت کی بلوچ اور پشتون سیاسی قیادت کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ جس سے لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ کم از کم اس دور کے حساب سے نیپ کی قیادت جو کچھ کر رہا تھا ٹھیک ہی کر رہا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے سال کمپنی کے پروگرام "نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ” میں جمعہ خان صوفی کو بلوچ تحریک کے خلاف زہر اگلوانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں کچھ حقیقی بلوچ قوم پرست اور انسانی حقوق کے دعویداروں نے بھی شرکت کی، جو آج بھی اس کا إقرار اور دعویٰ کرتے ہیں۔ دوئم یہ کہ چونکہ جمعہ خان سابقہ انقلابی رہ چکے تھے، لہٰذا وہ محترم سلیم کرد صاحب کے مہمان تھے۔ سلیم کرد صاحب انہیں ایک دن کوئٹہ شہر گھمانے بھی لے گئے تھے۔

بقول ایک دوست، جب وہ دونوں شہر کی ایک کتابوں کی دکان پر موجود تھے تو وہاں جمعہ خان سے ان کی کتاب، اس کے پیش لفظ، اور "نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ” میں شرکت اور لیکچر کے بارے میں تنقیدی سوالات کیے گئے۔ اس پر جمعہ خان نے جواب دیا کہ "اب میں کسی کام کا نہیں ہوں، بس بوٹوں کے پیرول پر ہوں اور سب کچھ فوج نے خود لکھ کر میرے نام سے منسوب کیا ہے۔”

بالکل اسی طرز پر ریاست نے ہزار خان بجارانی مرحوم کے نام پر ایک ناکام حربہ آزمانے کی کوشش کی، جو بری طرح ناکام ہوا۔ ناکام اس لیے کہ جب بھی کوئی ریاست محکوم اقوام میں سے کسی کو ہیرو بنا کر پیش کرے، اس کی ذات کے بارے میں کتاب لکھوائے اور کروڑوں روپے اس کتاب کی تقریب رونمائی پر خرچ کرے اور مقامی قوم کے اصل ہیروز کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے تو قابض کا یہ عمل خود ایک لکیر کھینچ دیتا ہے کہ مقامی قوم کا ہیرو کون ہے اور ولن کون؟

کسی بھی انسان نے اپنی زندگی اچھی گزاری ہو یا بری، مگر اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد اس کا نام غلط طریقے سے نہ لیا جائے اور لوگ اس کے ماضی کو بھول جائیں۔ لیکن ریاست نے خود ہزار خان بجارانی سے یہ حق چھین کر بلوچوں کی نئی نسل کو یہ بتا دیا ہے کہ ہزار خان نے کب اور کیسے بلوچ قومی جدوجہد سے روگردانی کرکے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

معروف امریکی محقق اور مصنف سلیگ ہیریسن نے اپنی مشہور زمانہ کتاب (In Afghanistan’s Shadow: Baloch Nationalism and Soviet Temptations) میں نواب خیربخش مری کو ریاست کی نظر میں سب سے خطرناک سردار قرار دیا ہے۔ مصنف نے نواب صاحب کا انٹرویو کتاب میں شامل کرکے اس کی اہمیت کو مزید بڑھایا ہے۔ اپنی اسی کتاب میں انہوں نے ہزار خان کا بھی ذکر کیا ہے، جہاں انہیں ایک آزادی پسند بلوچ رہنما کہا گیا ہے۔ مگر جو فرق اس غیر جانبدار صحافی نے دونوں رہنماؤں کی باتوں کا کھینچا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ مصنف کو آنے والے وقتوں میں نواب خیربخش مری کی سیاسی اور قومی حیثیت اور ہزار خان کے مستقبل کا بخوبی اندازہ تھا۔

میر ہزار خان رحمکانی 25 اگست 2021 کو فوت ہوئے، اور ان کے مرنے کے چار سال بعد ریاست نے ان سے ایک کتاب منسوب کرکے شائع کی، جس میں مرنے والے کا اپنا لکھا یا کہا ہوا کچھ بھی شامل نہیں ہے۔ تو کیا اپنی قوم سے منحرف ہونے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے، جیسا کہ ریاست نے ہزار خان رحمکانی کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کیا؟

بلوچ ایکٹیوسٹ اور لکھاری شبیر بلوچ نے سینیئر گوریلا کمانڈر میر قادر مری کے حوالے سے ایک کتاب "گوریلا جنگ کی کہانی میر قادر مری کی زبانی” تحریر کی ہے۔ یہ کتاب 1970 کی دہائی سے لے کر حالیہ بلوچ قومی جدوجہد اور بلوچوں کی افغانستان جلاوطنی کے گرد گھومتی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ لکھاری، جو ایک نظریاتی بلوچ سیاسی کارکن ہے، اور میر قادر مری، جو گزشتہ پچاس سال سے بھی زیادہ عرصے سے عملی جدوجہد کا حصہ ہیں اور خود بھی مری بلوچ ہیں، دونوں کی مشترکہ تجرباتی بصیرت اس کتاب کو ایک مستند دستاویز بناتی ہے۔

اس کتاب میں میر قادر مری نے جلاوطنی کے دوران ہزار خان رحمکانی کی تحریک سے روگردانی کرنے اور دشمن کے کیمپ میں شامل ہونے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ یہ تمام تفصیلات کتاب کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتی ہیں اور آج کے تناظر میں اسے ایک مستند دستاویز کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اسی کتاب میں میر قادر مری نے جلاوطنی کے عرصے میں ہزار خان رحمکانی کی تحریک سے روگردانی اور دشمن کے کیمپ میں شامل ہونے کا تفصیل سے تزکرہ کیا ہے۔

کیا ہزار خان رحمکانی اپنے کردار پر پشیمان تھے؟

جب ہزار خان رحمکانی فوت ہوئے، تو ایک دن میں نے صورت خان مری سے ہزار خان، شیرو مری اور نواب خیر بخش خان مری کے سیاسی اختلافات اور ان دونوں کے بیانات، لب کشائی، اور الزام تراشی کے بارے میں دریافت کیا۔ صورت خان نے جواب دیا: "ادونوں پیٹ رکھتے تھے۔”

نواب صاحب ایک عظیم انسان اور بلوچ قومی روایات کے امین تھے، اسی لیے انہوں نے اس معاملے پر کبھی کوئی بات لبوں پر نہیں لائی۔

صورت خان مری، ہزار خان رحمکانی کی وفات کے بعد میر محمد علی تالپور کے ہزار خان کے گھر فاتحہ کرنے جانے پر سخت نالاں تھے۔ انہوں نے کہا: "میر ہزار میرا عزیز تھا، لیکن میں آج تک ان کے گھر نہیں گیا تو میر ٹالپور کو بھی نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ جو قوم اور سرزمین کا نہیں، وہ کسی کا نہیں ہوتا۔”

میں سمجھتا ہوں کہ یہاں صورت خان مری کے جذبات دراصل بلوچ قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

صورت خان مری صاحب نے مزید ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سری لنکا میں قوموں کی تحریکوں کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں انہیں مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ انہیں کراچی سے بذریعہ جہاز کولمبو جانا تھا، اور اس سے پہلے وہ کراچی میں نواب خیر بخش مری سے مل کر گئے تھے۔ اس کانفرنس میں لندن گروپ کے سابقہ کمانڈر راشد رحمان بھی مدعو تھے لہٰذا وہاں ان دونوں کی ملاقات ہوگئی۔

باتوں باتوں میں راشد رحمان نے نواب صاحب کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے جواب دیا کہ آنے سے پہلے ان کے گھر جا کر ملا ہوں۔ صورت خان مری کے بقول، راشد رحمان نے مزید پوچھا کہ کیا واپسی پر بھی نواب صاحب سے ملو گے؟ میں نے کہا کہ جب بھی کراچی جاتا ہوں، پہلے نواب صاحب سے ملتا ہوں اور واپسی پر بھی ان سے مل کر ہی لوٹتا ہوں۔

میر ہزار خان کے بارے میں راشد رحمان کا پیغام

صورت خان مری کے بقول، جب انہوں نے راشد رحمان سے نواب صاحب تک پہنچانے والے پیغام کے بارے میں پوچھا تو راشد رحمان نے کہا کہ "ہزار خان مری اپنے کیے پر نہ صرف شرمندہ ہیں بلکہ دوبارہ بلوچ قومی تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اس لیے ساتھیوں کو چاہیے کہ انہیں معاف کرکے ایک موقع دیں۔” صورت خان نے کہا کہ یہ سن کر میں پریشان ہوا کہ یہ بات نواب صاحب تک کون پہنچائے اور سن کر ان کا کیا ردعمل ہوگا؟

انہوں (صورت خان مری)نے کہا کہ راشد رحمان کے بے حد اصرار پر میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ بات نواب صاحب تک آپ کے پیغام کی حیثیت سے نام لے کر گوش گزار کر دوں گا، جس پر راشد رحمان راضی ہو گئے۔ ہمت جوڑ کر میں نے واپسی پر پوری بات نواب صاحب تک پہنچا دی۔ نواب صاحب نے جواب دیا: "یہ فیصلہ میرا فردِ واحد کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ اصل دوستوں کی کونسل کا اختیار ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں، میں اس کو قبول کروں گا۔”

نواب صاحب نے مزید کہا: "البتہ میں آپ ساتھیوں کا ‘کلوہ/پیغام’ ضرور ان تک پہنچا دوں گا۔” صورت خان مری کے بقول، نواب صاحب نے یہ بھی کہا کہ "دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہزار خان کو راستے اور مقصد کا بخوبی علم ہے تو وہ اپنی طرز پر جدوجہد شروع کر دیں۔ شاید کوئی ایسا موقع آئے کہ وہ اور عملی ساتھی مل جائیں اور ایک ساتھ کام کر سکیں۔”

اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہزار خان اپنی اہمیت اور حیثیت بلوچ قوم کے سامنے کھو چکے تھے اور اپنے کیے پر پشیمان تھے۔ آج ان کے نام سے بلوچ قوم پرستوں کے خلاف جو زہر افشانی کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے، ریاست اور اس کے حواری سمجھتے ہیں کہ شاید انہوں نے اس سے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ لیکن جیسے ریاست کے تمام سابقہ رد انقلابی حربے بری طرح ناکام ہوئے ہیں، یہ بھی بالکل ویسا ہی ہے۔

میر ہزار خان رحمکانی کے بیٹے شہنواز مری کی تردید

دو دن پہلے ہزار خان رحمکانی کے بیٹے، شہنواز مری، کی توسط سے ایک تردیدی بیان نظر سے گزرا جس میں وہ یہ واضح کر رہے تھے کہ مذکورہ کتاب سے ان کا اور ان کے خاندان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے اس حد تک لکھا تھا کہ ان کی جانب سے سختی سے منع کرنے کے باوجود یہ کتاب شائع کی گئی ہے۔ انہوں نے اسی بیان میں لکھا کہ ان کے والد بلوچ قومی جدوجہد سے منحرف ہونے پر نہ صرف پچھتاوے کا شکار تھے بلکہ مایوسی کا بھی اظہار کرتے تھے۔ وہ اپنی زندگی میں کہتے تھے کہ بلوچ قومی جدوجہد ایک حقیقی اور سچی جدوجہد ہے۔

میری نظر میں یہ کتاب ایک ناکام مخبر کی کہانی ہے جو ان کی زندگی کی طرح ناکام ہو چکی ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

قوم پرستی اور وجودیت پر ایک مختصر تقابلی جائزہ ۔تحریر - دینار بلوچ

ہفتہ اکتوبر 5 , 2024
وجودیت اور قوم پرستی دو ایسے نظریات ہیں جو انسانی زندگی، شناخت، اور مقصد کے حوالے سے متضاد زاویے پیش کرتے ہیں۔ وجودیت فرد کی ذاتی آزادی اور بے مقصدیت پر زور دیتی ہے، جبکہ قوم پرستی اجتماعی شناخت، قومی خود مختاری، اور ایک مشترکہ مقصد پر مرکوز ہوتی ہے۔ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ