بلوچ نیشنل موومنٹ بی این ایم کے سابق سیکٹری جنرل رحیم ایڈووکیٹ بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں جی ایچ کیو کی مسلط کردہ کھٹ پتلی حکومت کی طرف سے متعدد وکلاء، ڈاکٹرز، اساتذہ، سیاسی و اسٹوڈنٹ رہنماؤں، بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کی دفاع کیلئے سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور سماجی شخصیات سمیت ہزاروں بلوچ فرزندوں کو تحریک آزادی کی مسلح تنظیموں سے جوڑ کر ان کے نام انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے چوتھے شیڈول میں ڈالنا، انھیں مشکوک و مشتبہ قرار دینا اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ قابض پاکستانی حکمرانوں، ریاستی اداروں اور ان کے کاسہ لیسوں کو مقبوضہ بلوچستان میں نوآبادیاتی نظام کو جاری رکھنے میں بلوچ قوم کی طرف سے شدید ناپسندیدگی، بیزاری اور مزاحمت کا سامنا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچستان میں فوج اور دوسرے ریاستی فورسز کو لامحدود خصوصی اختیارات دینے کیلئے انسداد دہشتگردی کے متذکرہ بالا کالے قانون میں ترامیم اور قانون سازی کا حالیہ اعلان ہو یا زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بلوچوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کا یہ عمل، یہ سب اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچ تحریک آزادی کے سامنے قابض ریاست پاکستان کی سیاسی، اخلاقی اور عسکری حالت ریت کے ڈھیر کی مانند ہے جو آزادی کیلئے بلوچ قومی شعور اور قربانیوں کی طوفان سے مٹتا جارہا ہے۔ ریاست پاکستان گزشتہ دہائیوں میں ہزاروں بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرنے، تشدد سے مسخ شدہ ہزاروں لاشیں پھینکنے، سیاسی اور انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر قدغن لگانے اور مسلسل فوجی آپریشنز کے باوجود کے بلوچ تحریک آزادی کو کمزور نہیں کرسکی تو اب اس طرح کی فسطائی پالیسیاں اور اقدامات بھی بلوچ تحریک آزادی کو کمزور نہیں کرسکیں گی۔ اس کے برعکس ایسے ریاستی اقدامات سے بلوچ عوام اور عالمی رائے عامہ کے آگے پاکستان کا استعماری چہرہ اور ریاستی دہشتگردی مزید بے نقاب ہوگا۔
رحیم بلوچ نے کہاہے کہ اب تو قابض پاکستان کی بڑھتی ہوئی ریاستی دہشتگردی، فاشزم اور پنجابی شاؤنزم کی حدت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں اور گروہوں کیلئے بھی ناقابل برداشت بنتا جارہا ہے جو دیدہ دلیری کے ساتھ بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ اور اس کی مسلط کردہ نوآبادیاتی ڈھانچہ کو فیڈرلزم کا غیر حقیقت پسندانہ نام دے کر پاکستانی قانونی اور دستوری نظام کے اندر پارلیمانی سیاست کے ذریعے بلوچ قوم کی قومی شناخت، وقار، وطن اور وسائل پر اختیار کی حصول کا خواب خود بھی دیکھتے تھے اور بلوچ عوام کو بھی دکھاتے تھے۔ قابض ریاست کی نوآبادیاتی فطرت کے تناظر میں یہ تو طے ہے کہ اس کے پاس بلوچستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بلوچ قوم کے خلاف ریاستی دہشتگردی، تشدد و تضحیک اور امتیازی سلوک کے سوا دینے کو اور کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح بلوچ قوم کے پاس بھی اس جبری قبضہ اور نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کے سوا قومی بقاء اور وقار کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔