نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہےکہ ریاست بلوچستان کو روز اول سے ایک کالونی کے طور پر چلا رہی ہے، اور بلوچوں کو ہمیشہ تیسرے درجے کی غلام شہری سمجھ کر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ لیکن پچھلے پچیس سالوں سے جب بلوچوں کی جدوجہد ایک نئے فیز میں داخل ہونے کے بعد ریاست اور اس سے وابستہ ادارے آخری حد تک اپنی جبر اور گھناؤنے حرکات دہرا رہے ہیں۔ بے دریغ ساحل و سائل کی لوٹنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالیاں بھی عروج پر ہیں۔
ترجمان نے کہاہے کہ بلوچ قوم کی یہ تاریخ رہی ہے کہ بحیثیت قوم ایک کمزور پوزیشن کے باوجود نہ اپنی جغرافیائی حدود پر کمپرومائز کیے ہیں اور نہ ہی اپنی سر زمین سے دست بردار ہوئے ہیں، ہر وقت کسی بھی طاقت ور سے اپنی قومی حقوق اور سرزمین کیلئے پنجہ آزمائی کرتے آ رہے ہیں۔ اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ بلوچ کو بحیثیت قوم ڈرا کر، دھمکا کر ان کو دبایا جا سکتا ہے، یا بلوچ کو ان کی جدوجہد اور سرزمین سے دست بردار کرکے چند ٹکڑوں پر خوش کیا جائے گا،تو یہ ریاست کی بھول ہے۔
انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ عالمی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق کسی بھی خطے میں کسی قوم اور کسی بھی فرد کو اس کے بنیادی انسانی، سماجی اورسیاسی حقوق ملنے چاہیے اگر کوئی بھی ریاست یا فرد کسی شخص یا قوم کی بنیادی حقوق کو سلب کرتی ہے یا مسخ کرتی ہے تو اس قوم یا فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے آواز اٹھائے، لیکن ریاست پاکستان میں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے، یہاں اس خطے میں بسنے والے تمام اقوام کے انسانی،سماجی اور سیاسی حقوق سلب کیے گئے ہیں، اور اگر کوئی بھی شخص یا ادارہ ان حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرے یا ان کیلئے آواز اٹھائے،تو ریاست اوراس کے اداروں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ لوگوں کو ڈراتے ہیں، دھمکا کر،غداری کا الزام لگا کر قتل کیا جاتا ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا ہےکہ” بلوچ راجی مچی “ کے انعقاد کے تیاریوں کے دوران ریاست اور اس کے ادارے اپنا پرانا وطیرہ اپنا کر بلوچ سیاسی کارکناں کو ہراسان کرکے، ان پر جھوٹے ایف آئی آر کرکے،جبری طو ر پر لاپتہ کرکے سنگین انسانی حقوق کے پامالیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن ریاستی اداروں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اب بلوچ قومی جدوجہد اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب بلوچ قوم کو ڈرانے اور دھمکانے سے اپنے قومی حقوق سے دست بردار نہیں کیا جا سکتا۔