کتاب: بلوچ اور اُن کا وطنمصنف: فاروق بلوچ نظرثانی: اے جی بلوچ

اوّل اشاعت: 2012

باب اوّل: بلوچ

مصنف فاروق بلوچ نے اپنی کتاب ”بلوچ اور اُن کا وطن“ میں بڑی خوبصورتی سے بلوچوں کی تاریخ، مساکن اور اُن کی بنیادی سکونت پر مضبوط حوالہ جات کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اور اُن مورخین کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا جنھوں نے بلوچوں کو مہاجر، خانہ بدوش، لٹیرا، عظیم خاندانوں کے اولاد، آرین، ہنخامنشی، عرب، عراقی، راجپوت وغیرہ قرار دیا تھا۔

جب انگریزوں نے بلوچوں کی سرزمین پر قبضہ کر لیا تو اُنھوں نے کچھ ایسے مصنفوں کو بلوچوں کی تاریخ تحریر کرنے کی زمہداری دی جنھیں تاریخ اور قدیم تہذیبوں کے مطالق خاصی پکڑ نہ تھی۔ اور انھوں نے بلوچوں کی تاریخ کو غیر معقول سی پیش کی اور مختلف مورخین نے مختلف نظریے سے بلوچوں کو الگ الگ جگہوں سے آنے والے مہاجر قرار دیا، جیسے کہ ایم ٹیلر نے بلوچوں کو سامی بتایا، پروفیسر روولنسن نے بلوچوں کو نمرود کے اولاد بتایا، سر ٹی ہولڈچ بلوچوں کو دراوڑ النسل کہتا ہے، اورلانگ ورتھ ڈیمز کے خیال میں بلوچ آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈاکٹر بیلیو بلوچوں کو ہندوستانی نسل راجپوت لکھتا ہے۔ اَن سب انگریز مورخین نے یہ سب نظریے تاریخ کی تحقیق و تفتیش کئے بغیر پیش کی ہیں، کیونکہ یہ سب انگریزوں کی منصوبے کا حصہ تھا کہ بلوچوں کو اپنے ہی سرزمین سے دور کرنا اور انھیں اپنی ہی تاریح سے الُجھائے رکھنا تھا۔

جب انگریز یہاں سے چلے گئے لیکن اُنھوں نے جو نظریے بلوچ اور بلوچوں کے تاریخ کے مطالق پیش کئے تھے اَن کا اثر بلوچوں پر چھوڑ چکے تھے۔ بعد میں بلوچ مورخین کی نظریات کی شکل میں ظاہر ہوا۔ جیسے کہ ایک بلوچ مصنف ہے جسٹس میر خدا بخش بجارانی مری کے خیال میں بلوچ شام کے عظیم خاندان سامی سے ہیں ۔ بلوچی کے عظیم شاعر و ادیب سید ظہور شاہ ہاشمی بلوچوں کو آرین لکھتے ہیں۔ میر گُل خان نصیر بلوچ بلوچ تاریخ میں ایک عظیم درجہ رکھتے ہیں، میر گُل خان نصیر بلوچ بلوچوں کو خانہ بدوش، لٹیرے اور ڈاکو تسلیم کرتا ہے۔

فاروق بلوچ میر گُل خان نصیر بلوچ کے اس نظریے کو مختصر اور غلط قرار دیتا ہے، اور جتنے بھی نظریے اوپر ذاکر ہوئے ہیں اُن سب کو بزریعہ حوالہ جات اور تحقیق شدہ مواد کے مدد سے اور مصنفانہ انداز میں اُنہیں غلط اور سرسری مطالعہ ثابت کرتا ہے ۔

اس کتاب میں مصنف اپنی محنت اور گہرائی سے تاریخی مطالعہ سے یہ ثابت کرتا ہے کہ بلوچ کوئی مہاجر، خانہ بدوش نہیں ہیں اور نہ ہی کسی عرب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ بلوچ 11000 ہزار سال سے یہی بلوچستان کی پہاڑوں اور صحراؤں میں آباد تھے۔

مہرین نے بلوچستان کے قدیم ٹیلوں اور دنیا کی قدیم تہذیب مہر گڑھ کی تہذیب سے کافی ثبوت اور شواہد نکلے ہیں جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی کہ بلوچ 11000 ہزار سال سے یہی سکونت ہیں ، جھنوں نے مختلف صنعتوں میں ظروف سازی، مجسمہ تراشی اور زراعت کو بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا۔

اس کتاب کے ذریعے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہء قدیم سے خطہ بلوچستان جنگوں اور مظالم سے بہت متاثر رہا، کبھی وحشی آریاؤں سے، کبھی منگولوں سے، کبھی عربوں سے شکست ہوئی اور کبھی ایرانی بادشاہ قباذ بن نوشروان کا کوہِ البرز کے بلوچوں پر اچانگ بلائے ناگہانی حملہ۔ یہ بات غلط نہ ہوگی کہ بلوچوں کو ہر زمانے میں سمبھلنے کا موقعہ نہیں ملا۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ بلوچوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو ختم نہ ہونے دی۔ ابھی بھی بلوچ معاشرے اپنی تہذیب و ثقافت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اب بھی بلوچستان میں دور تک پھلیے اور بکھرے ہوئے ٹیلے ہیں جو محقیقین کے منتظر ہیں۔

مصنف نے اس کتاب میں کچھ مورخین کا ذکر اور اُن کے کتابوں کا حوالہ جات اچھے پیمانہ پر دی ہے۔ جیسے کہ ایران کی درباری شاعر ابوالقسم فردوسی کی کتاب شاہنامہ فردوسی، بانیِ تاریخ ہیروڈوئس اور بابائے عمرانیات ابن خلدون۔ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد اور مصنف کی معقول حوالہ سے آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاؤ گے کہ بلوچ عرصہء دراز سے بلوچستان ہی میں سکونیت ہیں۔

یہ کتاب بلوچوں کی اصلی سکونت کو تلاش کرتا ہے اور اپنی تاریخ کی تلاش میں نکلا ہوا انسان، اس کتاب کی صفحات میں گُم ہو جاتا ہے۔

باب دوئم: بلوچ وطن

مورخین و تاریخ دان بلوچستان کی جغرافیہ بیان کرتے وقت کبھی بھی اتفاق رائے نہیں رکھتے ہیں۔ مختلف مصنف مختلف جغرافیہ پر ایمان لاتے ہیں، اکثر و بیشتر مورخین بوچستان کا رقبہ 3,40,000 مانتے ہیں لیکن مصنف نے اَن تمام پیمائیشوں کو بلوچ سر زمین کا سیاسی نقشہ قرار دیتا ہے۔ مصنف نے بڑی خوبصورتی سے یہ ثابت کیا ہے کہ بلوچستان نہ صرف پاکستان میں بلکہ وہ ایران اور افغانستان میں بھی منقسم ہے۔ بلوچستان کی سر زمین کیسے اِن تینوں ریاستوں میں تقسیم ہوا یہ سب کچھ اس کتاب میں شفاف طریقے سے ظاہر کیا ہے اور ہر ورق پلٹنے کے بعد آپ کو واضح ہوتا چلا جائے گا۔

اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں ہر بار اور ہر صدی میں طاقتور قوتوں نے اس خطہ کو ٹکڑوں میں بانٹتے رہے جیسے کہ ہنخامنشی دور کے سائرس ہو، قباذ بن نوشیروان ہو یا پھر مقدونیہ کے شہزادے سکندر ہو ہر کسی نے بلوچستان کی سر زمین کو تقسیم ہی کیا، اَن کے بعد جو کسر بچی تھی وہ انگریزوں نے آکر پوری کی، اُن ظالموں نے بس ایران کو خوش کرنے کے لیے بلوچستان کے مغربی صحرا کا وسیع علاقے اسے دیدیا اور بلوچوں کی قوت کو قدرے کم کرنے کے لیے اور کچھ حصہ افغانستان کو اور کچھ حصہ پنجاب اور سندھ میں بھی شامل کر دیا۔ بلوچ قبائل کے شدید مسلح اور سیاسی و آئینی مزاحمت بعد آخر کار 12 اگست 1947 میں انگریزوں سے چوٹکارہ حاصل کرتے ہیں لیکن 27 اور 28 مارچ 1948 میں ایک بار پھر پاکستان بلوچستان کی آزادی سلب کر دیتی ہے۔ بلوچستان اپنے باسیوں کے طرح نہ صرف تقسیم ہیں ہے بلکہ ہر حصہ اپنی جگہ شدید قومی، سیاسی اور جغرافیائی بحران کا شکار ہے۔

اس کتاب میں مصنف نے بڑی دلچسپی سے بلوچستان کی خوبصورتی کو کتاب کی صفحات میں قید کر کے رکھا ہیں، جس میں بلند و نشیب خوبصورت پہاڑیاں، ریتوں سے ڈکھے اور باشیوں کے منتظر صحرائے، وسیع میدانیں، دریائے، جھیلے یا ہم توجہ دی انسانوں کو استفادہ کرنے والے جنگلی جڑی بوٹیوں کی جن سے دوایاں بنا کر کروڑوں لوگوں کی زندگی بچائی جارہی ہیں۔

باب سوئم: معدنی وسائل

مصنف نے بلوچستان میں پائے جانے والے قدرتی و قیمتی اور اہمیت کے حامل معدنی وسائل کے مطالق قابلِ دید طریقے سے اس کتاب میں بیان کی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق بلوچستان میں 150 اقسام کے معدنیات پائی جاتی ہیں اور اس کتاب میں چند معدنیات قابلِ ذاکر ہیں۔
1952 میں سوئی سے نکلنے والا قدرتی گیس جس سے پورا پنجاب، سندھ اور خیبرپختوخواہ کے لوگ فائدہ اُٹھاب رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ بلوچستان کے چند شہروں کو چھوڑ کر جو کوئٹہ کے نذدیک آباد ہیں وہ سوئی گیس کا لطف اُٹھا رہے ہیں لیکن باقی اکثر و بیشتر شہر اس اللّہ کی نعمت سے محروم ہیں، اب توڑا سا تعریف بلوچستان سے نکلنے والے تیل کی بھی کرتے چلے جو بلوچستان میں اتنے وافر مقدار میں ہے کہ بلوچستان دنیا کا تیل پیدا کرنے والا کویت کے بعد دوسرا بڑا خطہ قرار پاتا ہے، زرا خوبصورت و حسین رنگ کے سنگ سنگِ مرمر کی بات کرے جو سالانہ 591 ٹن سنگِ مر مر نکال کر کراچی لے جایا جارہا ہے جہاں سے قیمتی پھتر باہر ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے، ایک اور معدن ہے گندھک جو اسحلہ بنانے میں بہت کارآمد ہوتا ہے، دوسرے جنگِ اعظیم کے دوران برطانیہ نے خوب استفادہ اُٹھایا تھا اور بھی بہت سارے وسائل کا ذاکر اس کتاب میں موجود ہیں۔

یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ اتنا سارا قدرتی وسائل ہونے کے باوجود پورے بلوچستان کے لوگوں میں مایوسی، فاقے، بھوک ماری اور زندگی کی ہر پہلوں میں محرومی ہی محرومی پائی جاتی ہیں۔

باب چہارم: بلوچستان کی سیاسی ادوار کا مختصر پس منظر

پندرہ صفحات پر سجی اس کتاب کا آخری باب میں مصنف نے مختصراََ لیکن بہترین طریقے سے بلوچستان کی سیاسی ادوار کو سمجانے کی کوشش کی ہے۔ آرین حملہ آواروں سے لیکر ثقافتی، معاشرتی اور نفسیاتی نقوش چھوڑنے والے انگریزوں کی آمد و سرِاقتدار تک ذاکر کی ہے۔ آشوری ملکہ سیمی رامس، غزنوی، موریا یا پھر انگریزوں کا قبضہ ان سب حملہ آوار اقوام نے کس اہمیت کے پیشِ نظر یہاں پر قابض ہوئے تھے؟ اَن سب معاملات کو جاننے کے لیے ایک بار اس کتاب کو پڑھنا ہو گا۔

اس کتاب میں بلوچ اور بلوچستان کے حکمران، قمبرانی حکمرانوں سے لیکر بہادر سپاہی اور سیاستدان میر نصیر خان نوری کے 45 سالہ دور اقتدار اور اس کے دور میں بلوچستان کی عروج کا ذکر کیا گیا ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

خیبرپختونخوا: پاکستانی فوج کے قافلے پر حملہ پانچ اہلکار ہلاک ایک زخمی، ٹی ٹی پی نے زمہ داری قبول کرلی

جمعہ جون 21 , 2024
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے علاقے مزرینہ زنگی میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے پانچ اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے ۔ حکام کے مطابق سنٹرل کرم میں گاڑی کو پہلے بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا گیا اور […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ