
کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ ہفتہ کو اپنے 33 ویں روز میں داخل ہوگیا۔ سخت گرمی، حکومتی یقین دہانیوں اور مشکلات کے باوجود لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
ملیر سے لاپتہ میر بالاچ بلوچ اور لیاری کے علاقے کلری سے لاپتہ بابا پھلین بلوچ بازیاب ہوکر گھروں کو واپس پہنچ گئے ہیں۔ ان کی واپسی نے کیمپ میں شریک خاندانوں کے دلوں میں نئی امید پیدا کی۔ لاپتہ زاہد بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے کہا کہ “مزید دو نوجوانوں کی رہائی اس بات کا ثبوت ہے کہ باقی بھی بے گناہ ہیں اور وہ بھی ایک دن ضرور واپس آئیں گے۔”
کراچی کے مختلف علاقوں، خصوصاً کلری لیاری، ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوان تاحال لاپتہ ہیں۔ ان میں زاہد بلوچ، شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ، رحمان بلوچ اور چینگیز بلوچ سمیت کئی دیگر شامل ہیں۔ ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
اہلخانہ کے مطابق جبری گمشدگیوں نے پورے خاندانوں کو شدید ذہنی اور معاشی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ کئی گھروں میں معصوم بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے جبکہ خواتین گھروں کی کفالت کے بوجھ تلے دب گئی ہیں۔ بزرگ والدین اپنے جوان بیٹوں کی راہ دیکھتے دیکھتے بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
احتجاجی کیمپ میں شریک رہنماؤں اور لواحقین نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے تمام لاپتہ نوجوانوں کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کریں تاکہ ان پر لگائے گئے الزامات ثابت کیے جا سکیں یا وہ اپنے گھروں کو واپس آ سکیں۔ مظاہرین نے واضح کیا کہ جب تک آخری لاپتہ نوجوان بازیاب نہیں ہوتا، ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
