حق دو یا حق چھینو؟: ملاہدایت الرحمٰن کے کردار کا فکری محاسبہ!

تحریر: رامین بلوچ (حصہ اول)
زرمبش مضمون

اسلام آباد، جو نوآبادیاتی اقتدار کے ایوانِ ظلم کا مرکز اور اس ریاستی جبر کی علامت ہے، وہاں کے پریس کلب کے سامنے ہزاروں بلوچ خواتین مسلسل پُرامن دھرنے پر بیٹھی ہیں۔ یہ دھرنا اُن کے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے پیاروں، بالخصوص ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ہمراہ غیرقانونی طور پر حراست میں لیے گئے مزاحمتی کارکنان کی گرفتاری کے خلاف برپا ہے۔ یہ باعزم اور غیرتمند خواتین موسمی شدت، ریاستی دباؤ، سیکورٹی حصار اور ہر ممکن رکاوٹ کے باوجود اپنے مطالبات کے حق میں سینہ سپر ہیں۔ ان کی استقامت نہ صرف اُن کے ضمیر کی صداقت کا اظہار ہے بلکہ بلوچ قومی مزاحمت کی علامت بھی بن چکی ہے۔ان کا بنیادی مطالبہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اُن اسیرانِ سیاست کو، جنہیں صرف اس بنیاد پر قید رکھا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین، شناخت اور قومی وقار کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ فی الفور رہا کیا جائے۔ ان خواتین کا دوسرا، مگر اس سے بھی زیادہ اہم مطالبہ یہ ہے کہ بلوچ سرزمین پر دہائیوں سے جاری جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو ہمیشہ کے لیے روکا جائے۔ ایک ایسا ریاستی ہتھیار، جو نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی توہین ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کے اصولوں، عالمی ضمیر اور سیاسی اخلاقیات کی صریح نفی بھی۔ بلوچ خواتین اس عمل کو ریاستی جبر کا سب سے سیاہ، سب سے بے رحم اور سب سے سفاک چہرہ قرار دیتی ہیں جو وقت کے ہر مورخ کو شرمسار کرے گا، اور ہر باضمیر انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔

تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان پُرامن، باوقار اور باہمت احتجاجی خواتین کو مسلسل ریاستی جبر، سیاسی قدغنوں اور منظم ہراسانی کا سامنا ہے۔ پریس کلب کے اطراف کے راستے بند کر دیے گئے ہیں، جگہ جگہ خار دار تاریں بچھا کر انہیں محصور کر دیا گیا ہے،۔گویا یہ پُرامن خواتین کوئی مسلح خطرہ ہوں، جنہیں سیکیورٹی رسک سمجھ کر محاصرے میں لے لیا گیا ہے۔”میڈیا پر غیراعلانیہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، تاکہ ان خواتین کی حتجاج عالمی ضمیر تک نہ پہنچ سکے۔ اطلاعات کے بہاؤ پر قدغن لگانا، ریاست کا وہ پرانا حربہ ہے جو صداقت کو دفن کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔مظاہرین کو روزانہ کی بنیاد پر ہراساں کیا جا رہا ہے، ان کی نگرانی کی جاتی ہے، اور مختلف سرکاری ذرائع سے ان پر یہ دباؤ مسلسل بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنا احتجاج کسی ‘مناسب مقام’ پر منتقل کر دیں جو درحقیقت میڈیا اور انسانی حقوق اور بین الاقوامی سفارت کاروں کے نظروں سے دور ہو، یہ محض ایک انتظامی تجویز نہیں، بلکہ ایک سیاسی چال ہے، جو احتجاج کو غیرموثر، غیرمرئی اور غیرمتعلق بنانے کی کوشش ہے۔ ریاست کو ان خواتین کے موجودگی سے نہیں، ان کی مطالبات سے خوف ہے کیونکہ یہ مطالبات نوآبادیاتی ریاست کی چہرہ نما نقاب کو چاک کر کے عالمی ضمیر کے سامنے ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

اس احتجاج کو سبوتاژ کرنے اور اس کی معنویت کو مسخ کرنے کے لیے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت چند افراد کو بطور "پراکسی مظاہرین” میدان میں اتارا گیا ہے، جن کا تعلق بالعموم پنجابی پس منظر سے ہے۔ یہ افراد، جو ریاستی ایجنڈے کے ترجمان کا کردار ادا کر رہے ہیں، نہ صرف بلوچ تحریکِ آزادی کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں، بلکہ مظلوم و مقہور بلوچ قوم کی جدوجہد کا منفی شبیہ دکھارہے ہیں۔یہ گروہ، جو خود کو کبھی "بلوچ” نمائندہ تو کبھی "پنجابی ہمدرد” کے طور پر پیش کرتے ہیں، درحقیقت ایک تیار شدہ بیانیے کے تحت میڈیا میں جگہ حاصل کر کے تحریک آزادی کے خالص قومی و فکری مزاج کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد محض ریاستی بیانیے کو تقویت دینا نہیں، بلکہ اس تحریک کے اخلاقی و نظریاتی وقار کو کمزور کرنا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسی مصنوعی آوازیں، جو بند کمروں میں پلانٹ کی جاتی ہیں، وہ کبھی بھی زندہ قوموں کے شعور کو شکست نہیں دے سکتیں۔ بلوچ تحریک ایک زندہ، قومی، اور نظریاتی جدوجہد ہے جسے کرائے کے کرداروں، جعلی ترجمانوں، یا مسلط کردہ بیانیوں سے دبایا نہیں جا سکتا۔یہی ریاستی سرپرست یافتہ عناصر سوشل میڈیا پر منفی اور زہریلا بیانیہ پھیلا کر پُرامن دھرنے کو کبھی "غیر ملکی سازش”، کبھی "اسلام دشمنی” اور کبھی "سیاسی انتشار” کے نام سے بدنام کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف سچ کو جھٹلانا نہیں، بلکہ عوامی ضمیر کو مسخ کرنا ہے۔ یہ وہی آزمودہ اور فرسودہ حکمتِ عملی ہے جو ماضی میں بنگال سمیت دیگر آزادی پسند خطوں میں اختیار کی گئی تھی، جہاں ریاست نے قومی تحریکوں کو طاقت، دھوکہ، اور پروپیگنڈے کے امتزاج سے کچلنے کی کوشش کی۔

ریاستی ذرائع ابلاغ نے ایک طرف بلوچ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے اشکوں، صبر، استقامت اور ان کے جائز سیاسی مطالبات پر مکمل خاموشی طاری کر رکھی ہے، گویا ان کی صدائیں اس ” نام نہاد جمہوری ریاست” کے کانوں تک پہنچنے کے لائق ہی نہیں۔ وہ مظلوم چہرے، جنہوں نے پرامن مزاحمت کو اپنا شعار بنایا، آج میڈیا کی اسکرینوں سے غائب ہیں۔دوسری جانب اسی میڈیا کو ریاستی بیانیے کی اشاعت کا آلہ کار بنا کر، مخصوص اور خوشہ چین نام نہاد "تجزیہ نگاروں ” اور اینکروں کو متحرک کر دیا گیا ہے، جو بلوچ قومی تحریک کو دانستہ طور پر "دہشت گردی” سے تعبیر کرنے کی مہم میں مصروف ہیں۔ یہ میڈیا وار دراصل ایک نظریاتی استحصال کا آلہ ہے جس کا مقصد انسانی ہمدردی کو زائل کرنا، مظلوم کو مجرم دکھانا، اور سچ کو جھوٹ کے ملبے تلے دفن کرنا ہے۔یہ وہی حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے ریاست، اپنی طاقت اور میڈیا کے امتزاج سے، ایک جعلی سچائی کو واحد قومی بیانیہ بنا کر پیش کرتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سچائی سرکاری اسکرپٹ سے جنم لیتی ہے؟ کیا وہ آنکھیں، جو برسوں سے جبری گمشدہ پیاروں کی راہ تک رہی ہیں، کسی اینکر کے زہریلے تبصرے سے خاموش ہو جائیں گی؟ نہیں۔ کیونکہ بلوچ تحریک انقلاب کی دستک دے چکی ہے اور اس جہد آذادی کو کوئی اسکرین، کوئی بیانیہ اور کوئی زرخرید زبان روک نہیں سکتی۔سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس، بوٹس، اور ایجنسیوں سے منسلک نیٹ ورکس اس ریاستی موقف کو عام کرنے میں مصروف ہیں کہ بلوچ تحریک صرف چند افراد کی ایک محدود سازش ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو "سافٹ وار” کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جہاں اصل آوازوں کو شور، الزام
تراشی اور فیک نیوز میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

بلوچ قوم کے خلاف ریاست کا رویہ درحقیقت ایک تسلسل یافتہ نوآبادیاتی حکمتِ عملی کا مظہر ہے۔ایسی حکمتِ عملی، جس کا خمیر قبضہ، استحصال اور مقبوضہ اقوام کی آواز کو کچلنے پر مبنی ہے۔ یہاں مزاحمت کو "بغاوت” کہا جاتا ہے، اور جہد آزادی کو "دہشت گردی” کے الزام میں لپیٹ کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جب بھی ریاستیں مقبوضہ اقوام کی شناخت، خودمختاری اور بقاء
کے مطالبے کو طاقت کے زور سے دبانے کی کوشش کرتی ہیں، وہ بالآخر اپنے ہی جبر کی زد میں آ جاتی ہیں۔چاہے بات الجزائر کی ہو، جہاں فرانسیسی سامراج نے آزادی کے متوالوں کو خاک و خون میں نہلانے کی کوشش کی؛ یا ویتنام، جہاں امریکی عسکریت کے مقابل قومی مزاحمت نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا؛ یا جنوبی افریقہ، جہاں نسل پرستی اور استعماری جبریت کے خلاف نیلسن منڈیلا کی قیادت میں قومی و عوامی جدوجہد نے بالآخر ظلم کو شکست دی ہر جگہ فتح اُسی مزاحمت کے حصے میں آئی، جو سچائی، قربانی، نظریاتی وابستگی اور عوامی قوت سے جنم لیتی ہے

اگر ہم ملا ہدایت الرحمٰن کی نام نہاد "حق دو تحریک” اور اس کے زیرِ سایہ نکالے گئے لانگ مارچ کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیں، تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں دراصل ریاست کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔ جو بلوچ قومی مزاحمت کو کمزور کرنے، اس کے بیانیے کو دھندلانے اور قومی شعور کو گمراہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ملا ہدایت الرحمٰن کی سیاسی سرگرمیوں کو نہ کبھی ریاستی اداروں کی مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے، نہ میڈیا بلیک آؤٹ کا، اور نہ ہی ان پر قومی سلامتی کی وہ قدغنیں لگتی ہیں جن کا سامنا بلوچ آزادی پسند قیادت کو روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ ان کے لانگ مارچ کے لیے پنجاب میں خیرمقدمی ماحول پیدا کیا جاتا ہے؛ سرکاری مشینری ان کی آمد پر نہ صرف خاموش تماشائی نہیں رہتی بلکہ کئی مواقع پر اُن کے استقبال کے لیے عملی طور پر متحرک نظر آتی ہے۔ یہ تمام حقائق اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملا ہدایت الرحمٰن دراصل ریاست کا ایک پلانٹڈ کرداراور مہرہ ہے، جسے مخصوص ایجنڈے کے تحت بلوچ عوام کے اندر الجھاؤ اور ابہام پیدا کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ایسے کرداروں کا مقصد حقیقی مزاحمت کو معتدل نعروں میں لپیٹ کر بے اثر کرنا ہوتا ہے، تاکہ آزادی کی جدوجہد کو "شہری حقوق” کے خول میں قید کر کے قومی تحریک کی روح کو زنگ آلود کر دیا جائے۔

ملا ہدایت الرحمٰن کو گوادر سے بطور رکنِ اسمبلی منتخب کروایا جانا درحقیقت ایک منظم ریاستی منصوبے کا حصہ تھا، جس کا بنیادی مقصد بلوچ قومی تحریکِ آزادی سے عوام کی توجہ ہٹا کر، اُس عظیم تاریخی جدوجہد کو محض روزگار، پانی، اور شہری سہولیات جیسے وقتی، سطحی اور اصلاحاتی مطالبات کے دائرے تک محدود کر دینا تھا۔ جس کے ذریعے ریاست نے کوشش کی کہ بلوچ قومی سوال، جو اپنی اصل میں ایک انقلابی، نظریاتی اور نوآبادیاتی جبر کے خلاف مزاحمتی بیانیہ رکھتا ہے، اسے دیہی پسماندگی یا محرومی جیسے غیرسیاسی مطالبات کے نیچے دفن کر دیا جائے۔اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ تحریکِ آزادی کے شہداء کی قربانیوں، اُن کی فدائیانہ کمٹمنٹ اور نظریاتی وابستگی کو ایک بے سمت، غیرانقلابی، اور معتدل
احتجاجی رخ دے کر خالص قومی مزاحمت کو "قابلِ قبول سماجی مطالبات” میں تحلیل کر دیا جائے، تاکہ ریاستی بیانیے کی راہ ہموار ہو، اور قابض قوتیں اپنی سیاسی گرفت کو نرم گفتاری اور خوش نما نعروں کے پردے میں مضبوط تر کر سکیں۔

یہ تمام مظاہر فرانز فینن کی اس تھیوری کی عملی شکل ہیں، جس میں وہ نوآبادیاتی طاقتوں کی جانب سے تیار کردہ "مقامی نمائندوں ” کو سامراجی تسلسل کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ فینن کے مطابق، نوآبادیاتی ریاست جب اپنی طاقت کو براہِ راست جبر سے نہیں چلا پاتی، تو وہ ایسے کرداروں کو عوام کے اندر سے تراش کر پیش کرتی ہے جو بظاہر قوم کے درد مند نظر آتے ہیں، مگر دراصل "نوآبادیاتی بیانیے کے ترجمان” ہوتے ہیں۔فینن لکھتاہے کہ جب مقبوضہ اقوام اپنی نجات کے لیے انہی اصطلاحات، تصورات اور سیاسی لغات کا سہارا لیں جو استعماری قوتوں نے تشکیل دی ہیں، تو وہ لاشعوری طور پر اسی غلامانہ نظام کو دوام بخش رہے ہوتے ہیں۔
ملا ہدایت الرحمٰن کی "حق دو تحریک” بھی اسی نوآبادیاتی فریم ورک کے اندر محدود ایک ایسی مہم ہے جو نہ صرف آزادی کے تصور کو ثانوی بنا دیتی ہے بلکہ عوام کے اندر قومی شعور کو شہری مطالبات میں تحلیل کرنے کا ایک سیاسی چالاکی سے بُنا گیا منصوبہ ہے۔جو استعماری قوتوں کے خلاف مزاحمت کی بجائے پانی، روزگار، تعلیم، یا صحت جیسے مطالبات کو اصل مسئلہ بنا کر پیش کرتی ہے جو کہ، کسی بھی غلام قوم کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

فینن کے فلسفے کے مطابق، ایسی تحریکیں جو سامراجی لغت میں "حقوق” مانگتی ہیں، درحقیقت اپنے استحصال اور قبضہ کو قانونی حیثیت دے رہی ہوتی ہیں۔ وہ نہ صرف نوآبادیاتی ریاست کو بطور جائز اتھارٹی تسلیم کرتی ہیں بلکہ مقبوضہ قوم کے مزاحمتی شعور کو بھی دبا دیتی ہیں۔ لہٰذا "حق دو تحریک” ایک ایسی شعوری پسپائی کی علامت ہے، جس نے غلامی کے خلاف انقلابی مزاحمت کو شہری فلاحی مطالبات میں گم کر نے کی مکروہ اور لاحاصل کوشش کررہی ہے۔ فینن کے مطابق، جب نوآبادیاتی ریاست کو جبر کے بجائے مقامی چہرے میسر آ جائیں تو وہ مفاہمت کا ڈھونگ رچاتی ہے تاکہ انقلابی شعور کو مسخ کر کے قبضہ گیریت کے غلبے کو "نارمل” بنا سکے۔یہ وہی فکری جال ہے جسے فینن نے "کالونائزڈ ذہن” کا نام دیا تھا، جو استعماری آقاؤں کی زبان میں اپنی محرومی کو بیان کرتا ہے اور انہی سے ریلیف کی توقع بھی رکھتا ہے۔

اسی نوآبادیاتی زہنیت کے تسلسل کو ایڈورڈ سعید اپنے مشہور تصور "اورینٹلزم” میں بیان کرتا ہے، جہاں نوآبادیاتی طاقتیں مقبوضہ قوم کو "غیر مہذب، جذباتی، غیر عقلی” بنا کر پیش کرتی ہیں اور ایسے ایجنٹ پیدا کرتی ہیں جو ریاست کی زبان میں نوآبادی سماج کو مخاطب کریں۔ ملا ہدایت الرحمٰن جیسے کردار "مقامی” ہوکر ریاستی ڈسکورس کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی زبان، مطالبات، اور بیانیہ سب کچھ نوآبادیاتی طاقتوں کے نقطہ نظر میں "قبولیت” کے قابل ہوتا ہے۔ گویا وہ بلوچ ہمدرد بن کر قبضہ گیر کے مہرے بن جاتے ہیں۔

ملا ہدایت الرحمٰن کی "حق دو” تحریک یا لانگ مارچ بھی دراصل ایک پوسٹ کالونیل ہیجمونک پراجیکٹ ہے، جس کا مقصد بلوچ قوم کے انقلابی و مزاحمتی شعور کو پانی، بجلی، روزگار جیسے ٹکڑوں میں بانٹ کر ریاستی بیانیے کے دائرے میں قید کرنا ہے۔ہیجیمونی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ غلام کو لگنے لگتا ہے وہ آزاد ہے۔ہدایت الرحمن کا حالیہ لانگ مارچ اور اس سے قبل کی ‘حق دو تحریک’ دراصل بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی ڈیپ اسٹیٹ کی ایک منظم سازش ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ملا ہدایت الرحمن نوآبادیاتی قوتوں کی نرسری میں پلنے والے وہ بوٹی ہے، جو ریاستی منشاء کے تحت بلوچ مزاحمت کو سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک کیا گیا ہے۔ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں اُٹھنے والی سابقہ حق دو تحریک بظاہر گوادر کے عوام کے پانی، بجلی، روزگار، اور ماہی گیری کے حقوق کی بات کرتی تھی۔ مگر سوال یہ ہے
کیا یہ تحریک ایک وسیع تر قومی بیانیے یعنی آزادی، خودمختاری، اور نوآبادیاتی قبضے سے نجات کے ساتھ ہم آہنگ تھی؟یا پھر یہ سماجی غصے کو ریاستی دائرے میں جذب کر کے آزادی کے مطالبہ کو dilute کرنے کی ایک چالاک تدبیر تھی؟

نوآبادیاتی ریاستوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی خطے میں حقیقی انقلابی یا آزادی پسند تحریکیں زور پکڑتی ہیں، وہاں "قابلِ قبول اپوزیشن” پیدا کی جاتی ہے جو:ریاست کی ساخت کو چیلنج نہ کرے عوام کے جذبات کو وقتی طور پر مطمئن کرے اور سب سے بڑھ کر مزاحمت کو نرم احتجاج میں بدل دے حق دو تحریک اسی اسٹریٹجی کا حصہ تھی۔ جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشنز، اور نوآبادیاتی لوٹ مار اور قبضہ گیریت کے خلاف کوئی ٹھوس موقف نہ لینا، ہدایت الرحمٰن کے کردار کو مشکوک بناتا ہے۔ہدایت الرحمٰن کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے، جو ریاستی نظام کا جزو ہے۔ ایک ایسا کردار جونہ کبھی ریاست کی جبری گمشدگی پالیسی پر کھل کر تنقید کرتا ہے نہ ہی بلوچ آزادی کی تحریک کو جائز تسلیم کرتا ہے بلکہ اکثر بلوچ قومی تحریک کو آلودہ کرنے والے بیانیے کو تقویت دیتا ہے ایسے میں یہ سوال جائز ہے کہ ملا ہدایت بلوچ جدوجہد کے قومی بیانیے کو کاؤنٹر کرنے کے لیے لانچ کیا گیا ریاستی پراجیکٹ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

پنجگور: لاپتہ شخص کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد

منگل اگست 5 , 2025
بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پرانا پروم کراس سے ایک لاپتہ شخص کی گولیوں سے چھلنی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے، جس کی شناخت عمر ولد بدل، ساکن گوارگو کے طور پر کی گئی ہے۔ لیویز حکام کے مطابق مقتول کے جسم پر گولیوں کے متعدد نشانات پائے گئے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ