
جبری لاپتہ افراد شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5861 دن ہوگئے، اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں کراچی ملیر سے سیاسی و سماجی کارکنان نوربخش بلوچ، گزین بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہارِ یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج بہت سے بلوچ مخبر، میر و معتبروں کی مدد سے بلوچ سیاسی تنظیموں کے لیڈروں، کارکنان کو جبری اغوا کرکے، انہیں اذیت دینے کے بعد شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتی رہی ہے، جو کہ پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو سستا پڑ رہا ہے، یعنی فوجی ساز و سامان، تیل، جہاز اور دیگر مشینری کے کم استعمال سے یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے پاکستانی فوج آپریشن سے زیادہ ٹارگیٹڈ ایکشن یعنی اُٹھاؤ، مارو، پھینکو پر گامزن رہی ہے اور دوسری وجہ یہی ہے کہ بڑی آپریشن کی صورت میں شاید عالمی برادری پاکستان پر اعتراض کرے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ مکران کے علاوہ بلیدہ، زامران، تمپ، بالگتر، ہوشاپ، پسنی، آواران، اور مشکے میں فورسز کے چھاپے، آپریشن، اور پھر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کے ذریعے بلوچوں کو شہید اور ناجائز جبری لاپتہ کرنے کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ریاستی فورسز فل چھوٹ اور دیدہ دلیری سے بلوچوں کے خلاف محاذ کھول چکی ہیں۔ ہرنائی، چمالنگ، بہلول، اور چاب میں بلوچوں کے خلاف زمینی اور فضائی آپریشن شروع کیا گیا ہے۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ادھر قلات کے گردونواح میں حالیہ دس (10) روز سے F-16 جہاز، چینی ساختہ جہاز، میزائل استعمال ہو رہے ہیں۔ جہاں تک بلوچستان کی بات ہے، تو بلوچستان کی تحریک اور بلوچ قوم کے سیاسی، معاشی، عدل و انصاف پر مبنی نظام کے لیے ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں جبکہ ہزاروں ریاستی اداروں کے اذیت گاہوں میں پابند سلاسل رکھے گئے ہیں، پوری دنیا اور اقوام کو اب ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔