شہید فدائی سمیہ قلندرانی — بلوچ دھرتی کی بیٹی، مزاحمت کا استعارہ

تجابان،کرکی میں پاکستانی فوج پر حملے میں ایک اہلکار کو ہلاک دو کو زخمی کیا،بی ایل ایف – 1

تحریر: سنجر قلندرانی
زرمبش مضمون

تاریخ ہمیشہ انہیں یاد رکھتی ہے جو قربانی دیتے ہیں، اور جب قربانی کا رنگ عورت کے لہو سے رقم ہو، تو وہ تاریخ محض تحریر نہیں، صدیوں کی روشنی بن جاتی ہے۔ بلوچ سرزمین کی آزادی کی تحریک میں جہاں ہزاروں نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، وہیں بلوچ بیٹیوں نے بھی اس جدوجہد میں اپنے حصے کی عظیم قربانیاں دے کر تاریخ رقم کی ہے۔ انہی دلیر بیٹیوں میں سے ایک تابندہ نام شہید فدائی سمیہ قلندرانی کا ہے۔

سمیہ کا تعلق بلوچستان کے زخم خوردہ اور تاریخی علاقے توتک، خضدار سے تھا۔ توتک وہ علاقہ ہے جہاں ریاستی اداروں نے مظالم کی انتہا کرتے ہوئے پوری آبادی کو خوف، جبری گمشدگیوں اور اجتماعی قبروں کا سامنا کرایا۔ 18 فروری 2011 کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے سمیہ کے خاندان پر قیامت ڈھا دی۔ ان کے دادا، چچا، کزنز اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا۔ یہ وہ زخم تھے جن کا آج تک نہ کوئی مرہم ہے، نہ کوئی جواب۔

انہی پہاڑوں میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جہاں درجنوں بلوچ نوجوانوں کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ یہ مقام، جو کبھی سرسبزی اور سکون کی علامت تھا، بلوچ نسل کشی کا ناقابلِ فراموش نشان بن گیا۔

ایسے پُرظلم ماحول میں پروان چڑھنے والی سمیہ نے ظلم کی شکل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے صرف ماتم نہیں کیا، بلکہ سوال اٹھایا۔ اور یہی سوال بعد میں انقلابی شعور میں ڈھل گیا۔ سمیہ نے نوجوانی ہی میں بلوچ قومی جدوجہد کو سمجھنا شروع کیا۔ انہوں نے نہ صرف حالات کا تجزیہ کیا بلکہ اپنی زندگی کو مزاحمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

سمیہ قلندرانی نے اپنی فطری ذہانت، تعلیم اور اظہار کی صلاحیت کو بلوچ تحریک کے لیے وقف کیا۔ انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی تنظیم کے میڈیا وِنگ میں ایک باصلاحیت صحافی اور لکھاری کے طور پر ابھریں۔ پانچ سال تک انہوں نے بلوچ مزاحمت، شہداء کی داستانوں، ریاستی مظالم اور قومی بیانیے کو اجاگر کیا۔ ان کی تحریریں محض رپورٹس نہیں ہوتی تھیں بلکہ وہ قوم کے درد، سوال اور مزاحمت کی ترجمان ہوتی تھیں۔

ان کا صحافتی کام کئی محاذوں پر ریاستی بیانیے کے لیے ایک چیلنج تھا۔ ان کے الفاظ دشمن کے لیے تلوار سے کم نہ تھے۔ وہ مزاحمتی صحافت کی علمبردار تھیں، جنہوں نے خاموش آوازوں کو تحریر میں ڈھال کر دنیا تک پہنچایا۔

لیکن سمیہ نے صرف قلم کی جنگ پر اکتفا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے شعور کو عمل میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ چار سال قبل انہوں نے رضاکارانہ طور پر بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ میں بطور فدائی شمولیت اختیار کی۔ مجید بریگیڈ، بلوچ تحریک کی وہ خفیہ اور انتہائی تربیت یافتہ شاخ ہے، جو قربانی اور کاروائی دونوں کے فلسفے پر کاربند ہے۔

سمیہ نے چار سال تک سخت ترین تربیت حاصل کی۔ ان سے بارہا پوچھا گیا کہ آیا ان کا فیصلہ کسی دباؤ، جذبات یا وقتی ردِعمل کا نتیجہ تو نہیں؟ مگر وہ ہر بار اور بھی زیادہ پختہ یقین کے ساتھ کہتی تھیں:
"میں اپنی مرضی، شعور اور ایمان سے اس راہ پر آئی ہوں۔ میری زندگی بلوچ قوم کی امانت ہے۔”

اور پھر 24 جون 2023 کا وہ دن آیا جب سمیہ بلوچ نے بلوچستان کے اہم شہر تُربت میں پاکستانی فوج پر ایک کامیاب فدائی حملہ کیا۔ اس حملے میں دشمن کو شدید جانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا۔ سمیہ بلوچ اپنے مشن میں کامیاب رہیں اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔

یہ حملہ محض ایک عسکری کارروائی نہ تھا بلکہ ایک فکری اور سیاسی پیغام بھی تھا کہ بلوچ بیٹیاں اب شعور، بندوق اور قربانی، تینوں محاذوں پر دشمن کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں۔ یہ سمیہ بلوچ کا اعلان تھا کہ آزادی کی جنگ میں عورت کا کردار محض مظلومیت کا نہیں، قیادت کا ہے۔

سمیہ بلوچ کا تعلق ایک انقلابی خاندان سے تھا۔ وہ فدائی ریحان بلوچ کی منگیتر تھیں، جو خود بھی بلوچ تحریک کے ایک ممتاز فدائی تھے۔ وہ بلوچ لبریشن آرمی کے بانی جنرل اسلم بلوچ کی بہو تھیں، جنہوں نے افغانستان میں ایک حملے میں جامِ شہادت نوش کیا اور بلوچ تحریک کو عالمی سطح پر شناخت دلائی۔

یوں سمیہ بلوچ کا فکری و انقلابی ورثہ تین نسلوں پر محیط ہے — دادا لاپتہ، والد مزاحم، شوہر شہید، اور وہ خود ایک فدائی۔ یہ خاندان بلوچ تحریک کے ہر مرحلے میں قربانی کی علامت رہا ہے۔

سمیہ بلوچ کی شہادت، بلوچ قومی مزاحمت میں ایک ایسا لمحہ ہے جو صرف ماتم کا نہیں، بلکہ فخر کا استعارہ بھی ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب شعور قربانی سے جُڑ جائے تو وہ انقلاب بن جاتا ہے۔ بلوچ بیٹی نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ صرف پشت پر چادریں ڈالنے والی مخلوق نہیں بلکہ قوم کی صفِ اوّل کی سپاہی بھی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ڈیرہ بگٹی: سوئی سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں دو نوجوان جبری طور پر لاپتہ

منگل جون 24 , 2025
بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں پاکستانی فورسز نے دو نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آج صبح تقریباً دس بجے، ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے سوئی کی طوطا کالونی سے رحمان ولد مٹھل بگٹی کو اُن کے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ