اسرائیل واقعی کیوں بنایا گیا تھا، اور اس سے فائدہ کس نے اٹھایا؟

تحریر: مزار بلوچ
زرمبش مضمون

تورات کے مطابق یہودی ایک ایسی قوم ہے جسے خدا نے اپنی محبت اور فرمانبرداری کے لیے چُنا۔ ان کے بزرگ حضرت ابراہیم، اسحاق اور یعقوب تھے، اور انہیں کنعان کی زمین انعام کے طور پر دی گئی۔ ان پر یہ ذمہ داری رکھی گئی کہ وہ دنیا کے لیے ایک اچھا نمونہ بنیں، انصاف، تقویٰ اور خدا کے حکم پر چلیں۔

لیکن یہ صرف وہ خوشنما کتابی الفاظ ہیں، جو سامراج ہمیشہ اپنے مفادات کے جواز میں خود تراشتا ہے، تاکہ ان کے سہارے اپنے توسیع پسند عزائم کو آگے بڑھایا جا سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس طرح بعض مسلم سلطنتوں نے بھی اپنے سامراجی ارادوں کو اسلامی رنگ دینے کے لیے قرآن کی بعض آیات کو مالِ غنیمت کے جواز میں استعمال کیا — جہاں غیر مسلم کو قتل کرنا اور اس کا مال و دولت لوٹنا گویا اللہ کی رضا قرار دیا گیا — درحقیقت یہ سب طاقت، تسلط اور لوٹ مار کی ننگی سیاست تھی۔

اسرائیل کا قیام بھی بعینہٖ انہی خودساختہ مذہبی الفاظ کی بنیاد پر کیا گیا، جو دراصل آسمانی حکم کے بجائے ایک سامراجی منصوبے کا پردہ تھے۔

اسرائیل کا وجود

ہمیں کتابی الفاظوں سے یہ یقین دلایا گیا کہ فلسطین کی یہ زمین یہودیوں کا جائے پناہ ہے؛ ایک ایسا وطن جو دکھوں کی چٹان سے تراشا گیا، تاریخ کی راکھ سے اُبھرنے والی ایک "وعدہ شدہ سرزمین” — مظلوموں کے لیے امن کا گھر۔

مگر خبروں کی سرخیوں، تاریخ کی چمکتی کتابوں، اور رسمی تقریبات کے پر وقار الفاظ کے نیچے، کہانی کچھ اور ہے۔ یہ سب محض ایک خوبصورت پردہ ہے۔ اصل میں یہ ایک سوچی سمجھی تخلیق ہے: ایک منصوبہ بند ریاست، جو جدید عالمی سیاست کے میدان میں ایک چالاک چال کے طور پر وجود میں لائی گئی۔

یہ صرف ایک پناہ گاہ نہیں، بلکہ اثر و رسوخ کا ایک مرکز ہے۔ ایک ایسی جگہ جو نہایت سوچ سمجھ کر چُنی گئی، تاکہ یہاں سے تجارتی راستوں پر نظر رکھی جا سکے، دشمنوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکے، اور مشرقِ وسطیٰ جیسے غیر مستحکم علاقے میں طاقت کا مستقل قلعہ قائم کیا جا سکے۔

یہ ریاست دراصل ہمدردی کا نقاب اوڑھ کر بسایا گیا ایک ایسا مہرہ ہے، جس کی بقا صرف مذہبی نظریات پر نہیں، بلکہ اربوں ڈالر کی فوجی امداد اور سفارتی تحفظ کے جال پر قائم ہے۔

آئیے اب وہ سچ جانیں، جو نہ پتھروں پر لکھا گیا ہے، نہ اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے، بلکہ جو خفیہ معاہدوں میں دستخط ہوتا ہے، جنگی کمروں میں سرگوشیوں میں بولا جاتا ہے — اور جسے امن نہیں، بلکہ طاقت بچاتی ہے۔

صہیونی تنظیم کی حقیقت اور برطانوی کردار

صہیونیت (Zionism) ایک سیاسی تحریک ہے جس کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں یورپ میں ہوا۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن قائم کیا جائے، بالخصوص فلسطین کی سرزمین پر۔ صہیونی تحریک کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی تھی کہ یہودی ایک علیحدہ قوم ہیں، جنہیں اپنی خودمختار ریاست کی ضرورت ہے۔ اس تحریک کے فروغ کی ایک بڑی وجہ یورپ میں یہودیوں کے خلاف بڑھتا ہوا امتیاز، تعصب، اور پرتشدد مظالم تھے، جنہوں نے یہودی آبادی میں عدم تحفظ اور بے وطنی کا احساس پیدا کیا۔

برطانوی حکومت کا کردار

پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ نے اپنے نوآبادیاتی اور تزویراتی (اسٹریٹیجک) مفادات کے تحفظ کے لیے صہیونی تحریک کی حمایت کی۔ 1917ء میں جاری ہونے والے بالفور اعلامیہ (Balfour Declaration) کے ذریعے برطانوی حکومت نے پہلی بار یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک قومی وطن کے قیام کی حمایت کا باضابطہ اعلان کیا۔

اس اعلامیے کے پس منظر میں کئی سیاسی اور تزویراتی مقاصد کارفرما تھے:

علاقائی مفادات: برطانیہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے نوآبادیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم تھا، خاص طور پر نہرِ سویز اور برِصغیر (ہندوستان) تک رسائی کی راہ میں فلسطین کو ایک اہم جغرافیائی مقام حاصل تھا۔

سیاسی فائدہ: برطانوی قیادت کو توقع تھی کہ یہودیوں کی حمایت سے جنگ میں امریکہ سمیت دیگر اہم ممالک کی ہمدردی اور تائید حاصل کی جا سکے گی، خصوصاً امریکی یہودی لابی کو مائل کرنے کی کوشش کی گئی۔

بین الاقوامی سفارت کاری: بالفور اعلامیہ کو بعد ازاں لیگ آف نیشنز (League of Nations) کے مینڈیٹ کا حصہ بنا دیا گیا، جس کے تحت برطانیہ کو فلسطین پر رسمی کنٹرول حاصل ہوا اور اسے یہودی قومی وطن کے قیام کی عملی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اسرائیل کا قیام اور مغربی حمایت

1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد مغربی طاقتوں، بالخصوص امریکہ، نے اس نئے قائم شدہ ریاست کی بھرپور حمایت کی۔ اس حمایت کے پیچھے متعدد سیاسی، عسکری اور نظریاتی وجوہات تھیں:

مغربی اثر و رسوخ کا تسلسل: اسرائیل کو خطے میں مغربی مفادات کے نگہبان کے طور پر دیکھا گیا، جو مشرقِ وسطیٰ میں کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک اہم مورچہ ثابت ہو سکتا تھا۔

سوویت یونین کے خلاف حکمت عملی: سرد جنگ کے دوران اسرائیل کو سوویت بلاک کے خلاف ایک اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر استعمال کیا گیا، بالخصوص عرب ریاستوں کے سوشلسٹ رجحانات کے مقابلے میں۔

توانائی اور جغرافیائی سیاست: مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر، عرب قوم پرستی کے ابھار، اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے مقابلے میں اسرائیل کو ایک قابلِ اعتماد فوجی و سیاسی شراکت دار تصور کیا گیا۔

صہیونیت: دعویٰ اور حقیقت

صہیونیت کی ابتدا یہودیوں کی اپنی ایک سیاسی تحریک کے طور پر ہوئی۔ یہ تحریک براہِ راست برطانیہ کی تخلیق نہیں تھی، تاہم برطانیہ نے اپنے سامراجی مفادات کے تحت اس کی حمایت کی اور فلسطین میں یہودی آبادکاری کی راہ ہموار کی۔ اسرائیل کے قیام کے بعد مغربی طاقتوں نے اسے اپنا اسٹریٹیجک اتحادی بنایا اور ہر سطح پر اس کی پشت پناہی کی۔ اس پورے عمل میں فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کی زمین کو منظم طور پر نظرانداز کیا گیا، جس کے تباہ کن اثرات آج تک جاری ہیں۔

ریاست کا دعویٰ اور اصل حقیقت

ہمیں جو بتایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو ظلم و ستم سے بچنے کے لیے قائم کی گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بے گھر یہودیوں کو امن، تحفظ اور ہمدردی کے جذبے کے تحت یہاں بسایا گیا۔ یہ ایک وعدہ تھا—انصاف، سلامتی اور سکون کے نام پر۔

مگر اصل کہانی کچھ اور ہے۔

یہ صرف ایک ریاست نہیں بلکہ ایک مضبوط فوجی اڈہ ہے، جو ایک انتہائی اہم جغرافیائی خطے میں مغربی طاقتوں کے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا۔ یہ دنیا کے بڑے تجارتی راستوں کے قریب واقع ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں مغرب کے اسٹریٹیجک اثر و رسوخ کو یقینی بناتا ہے۔ ہر سال اسے اربوں ڈالر کی امداد فراہم کی جاتی ہے، جدید ترین نگرانی کے آلات دیے جاتے ہیں، اور اسے سیاسی و عسکری لحاظ سے برتری حاصل ہے۔

یہ دراصل ایک "آزاد ریاست” کے بجائے ایک عالمی طاقت کا جنگی ہتھیار ہے—ایک ایسا ہتھیار جو آزادی، جمہوریت، اور مظلومیت جیسے دل فریب الفاظ میں لپٹا ہوا ہے۔ میڈیا میں صرف دفاع، تحفظ اور جمہوری قدروں کا چرچا ہوتا ہے، مگر پسِ پردہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے: ہتھیاروں کی تجارت، قدرتی گیس کے معاہدے، اور خطے میں مداخلت کے منافع بخش سودے۔ اسرائیل صرف ایک ملک نہیں، بلکہ ایک تزویراتی آلہ (strategic instrument) ہے، جسے تاریخ نے بنایا، طاقت نے سنوارا، اور وہی چلاتے ہیں جو اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ خاموشی، رازداری، اور مکمل منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے۔

جغرافیہ: محض اتفاق نہیں، بلکہ گہری منصوبہ بندی

اسرائیل کا محلِ وقوع کسی اتفاق، محض مذہب، یا پرانی پیشگوئیوں کی بنیاد پر منتخب نہیں کیا گیا۔ اس ریاست کو مشرقِ وسطیٰ کے مرکز میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بسایا گیا۔ اس کی سرحدیں صرف زمین کے ٹکڑوں کو نہیں جوڑتیں، بلکہ دنیا کے سب سے اہم وسائل، راستوں، اور مفادات سے براہِ راست جڑی ہوئی ہیں۔

اس کے اردگرد ہیں: وہ عرب ریاستیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں؛ وہ سمندری گزرگاہیں جو ایشیا، یورپ اور افریقہ کو جوڑتی ہیں؛ اور وہ جنگ زدہ خطے، جہاں ہر وقت کسی نہ کسی مداخلت کا جواز موجود ہوتا ہے۔ یہ کوئی عام زمین کا ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک قیمتی، حساس، اور بھرپور تزویراتی مقام ہے۔ یہ ایک ایسا مورچہ ہے جو مذہبی عقائد سے زیادہ عالمی طاقتوں کی سیاسی و عسکری حکمت عملی کے تحت تراشا گیا ہے۔

اس مقام سے دنیا کے فیصلے متاثر کیے جا سکتے ہیں: تجارتی راستوں پر کنٹرول، دشمنوں کی نقل و حرکت پر نگرانی، کہیں امن قائم کرنا، اور کہیں جنگ کو ہوا دینا—یہ سب ممکن ہے، اگر آپ تاریخ کے سب سے اہم چوراہے پر موجود ہوں۔

یہ کسی الٰہی وعدے کی تعبیر کم، اور ایک شطرنج کی سوچی سمجھی چال زیادہ ہے، جہاں ہر قدم طاقت کے اصولوں کے تحت اٹھایا جاتا ہے، نہ کہ صرف مذہبی یا اخلاقی حوالوں کی بنیاد پر۔

فوجی اور صنعتی طاقت کا مرکز

اسرائیل رقبے میں تو چھوٹا ہے، مگر اثر میں بہت بڑا۔ یہ صرف ایک ملک نہیں بلکہ دنیا کی جنگی صنعت اور اسلحہ معیشت کا ایک اہم ستون ہے۔ اپنے چھوٹے سائز کے باوجود، اسرائیل دنیا کے اُن دس بڑے ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ہتھیار دوسرے ملکوں کو فروخت کرتے ہیں۔ یہ ایسے تنازعات کو ہوا دیتا ہے جو اس کی سرحدوں سے بہت دور ہوتے ہیں، لیکن فائدہ آخرکار اسی کو ہوتا ہے۔

یہاں ایک اہم ادارہ یونٹ 8200 موجود ہے، جو دنیا کی سب سے جدید سائبر جنگ اور انٹیلیجنس سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہاں ڈیجیٹل حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، اور معلومات کو ہتھیاروں سے بھی زیادہ قیمتی سمجھا جاتا ہے۔

ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد ملتی ہے، خاص طور پر امریکہ سے۔ یہ امداد کوئی احسان نہیں بلکہ ایک سودا ہے، کیونکہ اس جنگی کھیل میں صرف خون نہیں بہتا بلکہ منافع بھی بہتا ہے۔

اسرائیل ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو خود بھی ایک تجربہ گاہ ہے؛ جہاں ہتھیار آزمائے جاتے ہیں، جنگی حکمت عملیاں ترتیب دی جاتی ہیں، اور یہ سب کچھ جمہوریت کے پردے میں لپیٹا جاتا ہے۔ جہاں دوسرے ممالک جنگیں لڑتے ہیں، وہاں اسرائیل جنگوں کی تیاری اور تجارت کرتا ہے۔

یہ سب ایک منظم منصوبہ بندی، پالیسی، اور مالی مفادات کے تحت ہوتا ہے۔ اسرائیل اب صرف ایک ریاست نہیں بلکہ ایک پورا نظام ہے۔ ایسا نظام جس میں طاقت، ہتھیار اور منافع خود ریاست کی شناخت بن چکے ہیں، اور جہاں ہر فیصلہ کسی نہ کسی عالمی سودے کا حصہ ہوتا ہے۔

ٹیکنالوجی اور نگرانی کی خاموش حکومت

یہ صرف ٹینک، بندوقیں یا ڈرونز کی بات نہیں، بلکہ کوڈز، کیمروں اور ڈیجیٹل سگنلز کے ذریعے ہونے والی ایک خاموش حکومت کی کہانی ہے۔ اسرائیل کی طاقت صرف فوجیوں کے قدموں کی چاپ سے نہیں، بلکہ سیٹلائٹس، سرورز اور خفیہ سافٹ ویئرز کے ذریعے دنیا کے اندر گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔

پیگاسس اسپائی ویئر ایک ایسا خفیہ پروگرام ہے جو تمہارے موبائل میں چھپ کر داخل ہو جاتا ہے۔ یہ تمہارے پیغامات، آوازیں، اور حرکات سب ریکارڈ کرتا ہے — اور تمہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔

چہرہ پہچاننے والے کیمرے، جو اب دنیا بھر میں فروخت ہو رہے ہیں، پہلے فلسطینی علاقوں میں آزمائے گئے، اور اب وہ نیویارک سے لے کر کابل تک کی گلیوں میں نصب کیے جا رہے ہیں۔

یونٹ 8200 کے ماہرین نے ایسی سائبر ٹیکنالوجی تیار کی ہے جو آج دنیا بھر کی حکومتوں کو اپنے شہریوں پر نگرانی کے لیے دی جا رہی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ٹیکنالوجی اور حکومت ایک دوسرے میں ضم ہو چکے ہیں۔ یہاں نہ صرف رویوں کو پہچانا جاتا ہے بلکہ یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ: کس پر نظر رکھی جائے، کس کو خاموش کیا جائے، اور کس کو خطرہ سمجھا جائے۔

آج کئی حکومتیں اسرائیلی کمپنیوں سے وہ ٹولز خرید رہی ہیں، جن سے وہ اپنے ہی صحافیوں، ناقدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی نگرانی کرتی ہیں۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی کے سامنے پرائیویسی تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔

اور جو آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہیں… وہ کبھی جھپکتی نہیں۔

اسرائیل کے وجود سے فائدہ کسے ہو رہا ہے؟

اسرائیل کے قیام نے مغربی ممالک، بالخصوص امریکہ اور برطانیہ، کو تاریخی اور موجودہ دور میں کئی اسٹریٹجک، معاشی اور سیاسی فوائد فراہم کیے ہیں۔

تاریخی فوائد (قیام کے وقت)

کولڈ وار میں مغربی مفادات کا تحفظ:

1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت، اسے مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس حمایت کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو روکنا تھا۔ امریکہ نے اسرائیل کو خطے میں ایک "جمہوری اتحادی” کے طور پر دیکھا، جو مغربی مفادات کا نگہبان بن سکے۔

تیل کے وسائل تک رسائی:

مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، کو یہ خدشہ تھا کہ عرب ریاستیں تیل کی فراہمی روک سکتی ہیں۔ اسرائیل کی حمایت نے انہیں خطے میں ایک ایسا اسٹریٹجک اتحادی فراہم کیا، جس کے ذریعے تیل کے ذخائر تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکا۔
یہودی اثر و رسوخ کا استعمال

مغربی طاقتوں، خصوصاً برطانیہ، نے صہیونی تحریک کی حمایت اس لیے کی تاکہ یورپ میں یہودی آبادی کے سماجی دباؤ کو کم کیا جا سکے اور ان کے مالی وسائل سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ صہیونیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی حمایت دراصل ایک سیاسی چال تھی، جس کے ذریعے یورپ نہ صرف اپنے داخلی مسائل سے جان چھڑانا چاہتا تھا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک قابلِ اعتماد اتحادی کا قیام بھی ممکن بنانا چاہتا تھا۔

موجودہ دور میں فوائد

  1. فوجی اور سیکیورٹی تعاون

اسرائیل، امریکہ کا خطے میں سب سے بڑا فوجی اتحادی ہے، جسے 1948 سے اب تک 310 ارب ڈالر کی فوجی امداد مل چکی ہے۔ یہ تعاون ڈرون ٹیکنالوجی، میزائل ڈیفنس سسٹمز (جیسے آئرن ڈوم)، اور مشترکہ فوجی مشقوں کی صورت میں جاری ہے۔ امریکہ کے دفاعی ماہرین اسرائیلی تجربات سے براہ راست سیکھتے ہیں، خاص طور پر شہری علاقوں میں لڑنے کی مہارت اور ٹیکنالوجی کے عملی استعمال کے حوالے سے۔

  1. ٹیکنالوجی اور معیشت میں شراکت

اسرائیل کی ہائی ٹیک انڈسٹری، خصوصاً سائبر سیکیورٹی، مصنوعی ذہانت، اور میڈیکل ٹیکنالوجی کے شعبے، مغربی کمپنیوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ گوگل، مائیکروسافٹ، اور انٹیل جیسی امریکی کمپنیاں اسرائیل میں ریسرچ سینٹرز چلاتی ہیں، جس سے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس تعاون نے اسرائیل کو ایک "اسٹارٹ اپ نیشن” میں تبدیل کر دیا ہے۔

  1. جاسوسی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ

اسرائیل، مشرق وسطیٰ میں مغربی ممالک کو انٹیلیجنس فراہم کرنے والا ایک اہم ذریعہ ہے۔ خاص طور پر ایران، حماس، اور حزب اللہ جیسے "دہشت گرد گروہوں” کے خلاف معلومات کا اشتراک مغرب کی پالیسیوں میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسرائیلی خفیہ ادارہ موساد، دنیا کے طاقتور ترین انٹیلیجنس نیٹ ورکس میں شمار ہوتا ہے۔

  1. سیاسی اثر و رسوخ

اسرائیل، عرب ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنانے میں ایک فعال کردار ادا کرتا ہے۔ 2020 میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ امن معاہدے (ابراہیم معاہدے) اس کی مثال ہیں۔ ان معاہدوں کے ذریعے مغرب کو خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کا موقع ملا، اور اسرائیل کو سفارتی تنہائی سے نجات۔

امریکہ اور مغربی ممالک کا مفاد

امریکہ نے اب تک اسرائیل کو 310 ارب ڈالر سے زائد کی مالی اور فوجی امداد دی ہے۔ یہ امداد محض دوستی یا مذہبی وابستگی کا اظہار نہیں بلکہ ایک حکمتِ عملی پر مبنی سرمایہ کاری ہے۔ اس سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں، ٹیکنالوجی سیکٹر، اور پالیسی ساز حلقے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مالی امداد یا منافع کا کھیل؟

ہر سال امریکہ، اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر سے زائد کی مالی امداد دیتا ہے۔ لیکن یہ امداد دراصل ایک منصوبہ بند سرمایہ کاری ہے۔ یہ کوئی سخاوت یا ہمدردی نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے، جس کا فائدہ عام انسانوں کو نہیں، بلکہ طاقتور کارپوریشنز اور مفاد پرست حلقوں کو ہوتا ہے۔

یہ سب کیسے ہوتا ہے؟

رقم واشنگٹن سے نکلتی ہے، مگر زیادہ تر واپس آ جاتی ہے—امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ذریعے۔ یہ پیسہ نہ تو اسپتالوں پر خرچ ہوتا ہے، نہ اسکولوں پر، اور نہ ہی غریبوں پر۔ بلکہ یہ ہتھیار بنانے والوں، لابنگ گروپوں، اور ایسے منصوبوں کو دیا جاتا ہے جو صرف طاقت بڑھاتے ہیں، امن نہیں۔

"امداد” کے پردے میں اصل میں ایک ایسا نظام چلتا ہے جو عوام کے ٹیکس کا پیسہ کارپوریٹ دنیا کی جیب میں ڈال دیتا ہے۔ یہ صرف سرمایہ نہیں، بلکہ ایک بیانیہ ہے—جو محب وطن نعروں، سیکیورٹی کے بہانوں، اور دوستی کے دعووں میں چھپا ہوتا ہے۔

لیکن اس کی قیمت کون چکاتا ہے؟

سچائی مر جاتی ہے۔ امن کمزور پڑ جاتا ہے۔ انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔

اصل طاقت = بیانیے پر کنٹرول

آج کی دنیا میں طاقت صرف بندوق، پیسہ یا ٹینکوں میں نہیں، بلکہ اس میں ہے کہ کہانی کون بیان کرتا ہے اور کس کی آواز سنی جاتی ہے۔ اگر آپ سوال کریں، تو آپ پر یہود دشمنی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اگر آپ تنقید کریں، تو آپ کو نفرت پھیلانے والا قرار دے کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔

یہ بیانیہ محض ایک رائے نہیں، بلکہ ایک ڈھال ہے، جو چھپاتی ہے: طاقتور لابیوں کا اثر، فوجی کارروائیوں کا جواز، اور مالیاتی منصوبوں کا کھیل۔ یہ وہ کہانی ہے جو صحافیوں کو خاموش کرتی ہے، اساتذہ اور محققین کی زبان بند کرتی ہے، اور سیاسی اختلاف کو خطرہ سمجھ کر دبا دیتی ہے۔ کیونکہ اگر آپ سوال نہ کر سکیں، تو آپ سچ بھی نہیں جان سکتے۔ اور اگر آپ سچ نہ جان سکیں، تو یہ نظام بلا رکاوٹ چلتا رہتا ہے—ایک اخلاقی لبادے کے پیچھے چھپ کر۔

بیانیے پر قابو صرف دفاع نہیں، بلکہ غلبہ ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو سوچنے کی آزادی کو دبا کر اپنی گرفت مضبوط کرتی ہے۔ اس دنیا میں اگر آپ خاموش ہیں، تو سمجھ لیں: آپ اطاعت کر رہے ہیں۔

مسلسل کشیدگی = مسلسل فنڈنگ

یہ خطہ، جسے ہم "غیر مستحکم” کہتے ہیں، دراصل ایک مالیاتی کرنسی بن چکا ہے۔ جتنا زیادہ یہاں فساد اور تنازع ہو گا، اتنا ہی زیادہ پیسہ گردش میں آئے گا۔ زیادہ تنازعے کا مطلب ہے: زیادہ امداد، زیادہ سرمایہ کاری، اور زیادہ فوجی حمایت۔

اسرائیل کا وجود خود ایک بہانہ ہے، جس کے ذریعے فوجی فورسز بھیجی جاتی ہیں، نگرانی کی جدید ٹیکنالوجی تیار اور فروخت کی جاتی ہے، اور جنگ کی آڑ میں توانائی کے معاہدے طے پاتے ہیں۔

ہر نیا تنازع اس نظام کو مزید طاقت اور پیسہ دیتا ہے۔ ہر خطرہ مزید امداد اور فوجی طاقت کی ضمانت بن جاتا ہے۔ یہ جنگیں حل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ جاری رکھنے کے لیے ہیں۔ یہ ایک ایسا خودکار نظام ہے جہاں امن کا کوئی فائدہ نہیں، اور جنگ وہ چکر ہے جو پوری معیشت کو گھمائے رکھتا ہے۔

لہٰذا کشیدگی کوئی حادثہ یا بحران نہیں، بلکہ ایک حکمتِ عملی ہے—ایک منصوبہ بند کھیل، جس سے کچھ طاقتور ہمیشہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

عالمی شطرنج کی بساط: اسرائیل بطور پراکسی

اسرائیل صرف ایک ملک نہیں، بلکہ مغربی طاقتوں کے لیے ایک تزویراتی لانچ پیڈ ہے۔ یہ دنیا کی تیل کی سلطنتوں کے دروازے پر کھڑا ایک چوکیدار ہے، جو وسائل، توانائی، اور تجارتی راستوں کی نگرانی کرتا ہے۔

یہاں جدید فوجی ہتھیار اور نگرانی کے آلات پہلے آزمائے جاتے ہیں، پھر دنیا بھر میں بیچے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ نہ عقیدے کا ہے، نہ صرف تحفظ کا—بلکہ رسائی، کنٹرول اور اثر و رسوخ کا کھیل ہے۔

اسرائیل ایک قوم سے بڑھ کر ہے، یہ کھربوں ڈالر کی جیوپالیٹیکل حکمت عملی ہے، جو دہائیوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اس کا مقصد صرف ایک قوم کی حفاظت نہیں، بلکہ ایک ایسا طاقتور آلہ بنانا ہے جو:

مغربی اثرات کو مشرقِ وسطیٰ میں پھیلائے؛

جنگوں، اتحادوں اور معیشت کو عالمی ایجنڈے کے مطابق ڈھالے؛

اربوں ڈالر کے اسلحے اور فوجی معاہدوں کو فروغ دے؛

دفاعی ٹیکنالوجی کو آگے لے جائے؛

اور بیانیے پر مکمل کنٹرول رکھے تاکہ عوامی رائے، میڈیا اور سیاست کو ایک مخصوص رخ دیا جا سکے۔

یہ کہانی صرف مذہب یا بقا کی نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ جنگ ہے: طاقت، منافع، اور کنٹرول کی جنگ۔

اسرائیل کا ہمشکل: ریاست پاکستان

اگر تاریخ اور عصرِ حاضر پر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو ایک اور ریاست سامنے آتی ہے، جسے برطانیہ نے اپنے سامراجی منصوبے کے تحت تخلیق کیا—اور یہ اسرائیل کے قیام سے چند ماہ قبل وجود میں آئی۔ وہ ریاست ہے: پاکستان۔

پاکستان کا قیام برصغیر کی تقسیم کے ذریعے عمل میں آیا، جسے "دو قومی نظریے” کی بنیاد پر جائز قرار دیا گیا۔ مگر اگر ہم اس نظریے کی جڑوں کو کھودیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی سامراج نے مسلم خودمختاری کی خواہش کو ایک الگ ریاست کے مطالبے میں تبدیل کر دیا۔

جس طرح برطانیہ نے صہیونی تحریک کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا، اُسی طرح اس نے برصغیر میں ہندو اور مسلم انتہاپسندوں کو ہوا دی، فرقہ واریت کو ابھارا، اور فسادات کی آگ بھڑکائی—تاکہ باہمی ہم آہنگی ختم ہو جائے۔

یوں خون کی ہولی کھیل کر ایک نئی ریاست، پاکستان، وجود میں آئی—جو بعد ازاں گریٹ گیم اور کولڈ وار میں مغرب کے لیے بفر زون بن گئی۔

اسرائیل اور پاکستان: سامراجی مورچے

اسرائیل اور پاکستان محض ریاستیں نہیں، بلکہ سامراجی منصوبہ سازوں کے وہ مورچے ہیں جنہیں عالمی حکمتِ عملی کے تحت آباد کیا گیا۔ ان کے عوام کو مخصوص قومی بیانیے دیے گئے، تاکہ ریاستی شناخت کو تقدس بخشا جا سکے، اور ہر ظلم کو "حفاظتی اقدام” کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

برطانیہ اور مغرب نے نہ صرف ان دونوں کو نیوکلیئر طاقت بننے دیا، بلکہ بھرپور مالی، عسکری اور سفارتی مدد بھی فراہم کی—تاکہ ان کے مخالفین انہیں ختم نہ کر سکیں۔

دونوں ریاستوں نے اپنے ہمسایوں کی سرزمین پر قبضہ کیا:

اسرائیل نے فلسطین، مصر، لبنان اور دیگر عرب علاقوں پر؛

پاکستان نے بلوچستان کو بزورِ طاقت شامل کیا اور کشمیر پر دعویٰ کر کے ایک مستقل تنازعے کو جنم دیا۔

دونوں کو اندرونی مزاحمت کا سامنا ہے:

اسرائیل فلسطینیوں پر بمباری، محاصرے اور نسل کشی کر رہا ہے؛

پاکستان میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور ڈرون حملے ایک معمول بن چکے ہیں۔

مگر اقوامِ متحدہ میں، دونوں کو امریکی چھتری کا تحفظ حاصل ہے۔

یہ تمام حقائق ایک سنگین سوال کو جنم دیتے ہیں:

کیا اسرائیل اور پاکستان صرف ممالک ہیں؟

نہیں، یہ دونوں امریکی مفادات کے قلعے ہیں—ایسی ریاستیں جنہیں سامراج نے تخلیق کیا، سنوارا، اور بچایا تاکہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں ان کا کنٹرول قائم رہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

قلات اور گوادر سے تین لاشیں برآمد، دو کی شناخت ہو گئی

اتوار جون 22 , 2025
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگچر کے قریب سے دو افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن میں سے ایک کی شناخت سیف اللہ ولد رحیم داد کے نام سے ہوئی ہے۔ اہل خانہ کے مطابق، سیف اللہ 11 جون 2025 سے جبری گمشدگی کا شکار تھے۔ دوسری لاش […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ