بین الاقوامی آزادی کی تحریکوں کے خلاف رد انقلابی پراکسی لڑائیاں ،ریاستی دہشت گردی اور داعش کا نیا مہرہ!

تحریر : مزار بلوچ – زرمبش مضمون

دہشت گردی کا مطلب ہے: کسی اور پر زبردستی اپنا نظریہ مسلط کرنا، چاہے وہ نظریہ سیاسی ہو یا مذہبی۔ اگر کوئی شخص کسی مذہب پر یقین رکھتا ہے تو یہ اس کا بنیادی حق اور شخصی آزادی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے مذہبی نظریے کو خونریزی اور تشدد کے ذریعے دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش کرے تو یہ عمل مذہبی دہشت گردی کہلائے گا۔

اسی طرح، اگر کوئی فرد کسی مخصوص سیاسی نظام یا نظریے پر یقین رکھتا ہے، ممکن ہے کہ وہ اس نظام سے ذاتی مفادات وابستہ کیے ہوئے ہو۔ لیکن اگر وہ کسی ایسے شخص یا سماج کو، جو اس سیاسی نظام سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، زبردستی اسے قبول کرنے پر مجبور کرے، تو یہ عمل سیاسی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔

مزید برآں، اگر کوئی ریاست ایک مخصوص قوم کے کنٹرول میں ہو اور وہ دیگر محکوم یا مظلوم قوموں پر زبردستی اپنا نظام نافذ کرنے اور ریاست پرستی کو جبراً مسلط کرنے کی کوشش کرے، تو یہ عمل ریاستی دہشت گردی کہلائے گا۔

ایسی ناانصافی اور عدم مساوات کے نتیجے میں بعض قومیں مجبور ہو کر اپنے اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں، نظامِ جبر کو بدلنے کی تحریکیں چلاتی ہیں، اور اپنی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرتی ہیں۔ یہ تحریکیں ناانصافی، استحصال اور ظلم کے خلاف ایک فطری ردِعمل ہوتی ہیں، جو معاشرتی انصاف اور انسانی وقار کی بحالی کی خواہش سے جنم لیتی ہیں۔

لیکن وہ قومیں جو طاقت اور اختیار کے تمام ذرائع پر قابض ہوتی ہیں، وہ کبھی بھی ایسا نظام قبول نہیں کرتیں جو دیگر محکوم قوموں کو ان کا جائز، مساوی اور خودمختارانہ حق دے سکے۔ یہ قومیں ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے موجودہ ظالمانہ نظام کا دفاع کرتی ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں ظلم، تشدد اور ریاستی دہشت گردی ہی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔

وہ تحریکیں جو ان کے تسلط کو چیلنج کرتی ہیں، انہیں دہشت گرد قرار دے کر کچلا جاتا ہے۔ ان کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے، لاپتہ کیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے، تاکہ ریاستی نظام کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔ یہ ظالمانہ اقدامات اور طاقت کا ناجائز استعمال ریاستی دہشت گردی کہلاتا ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ معاشرتی امن و استحکام کے لیے بھی ایک شدید خطرہ ہے۔

ریاستی دہشت گردی کے ذریعے مظلوم قوموں کی آزادی کی خواہش کو دبایا جاتا ہے، ان کی مزاحمت کو کچلا جاتا ہے، اور ایک ایسی فضا قائم کی جاتی ہے جس میں انصاف، مساوات اور آزادی جیسے تصورات معدوم ہو جاتے ہیں۔

ریاستی دہشت گردی درحقیقت ایک ظالمانہ اور منظم عمل ہے، جس میں حکومت یا اس کے مختلف ادارے اپنے ہی عوام یا محکوم اقوام کے خلاف ظلم و جبر، تشدد، قتل و غارت، خوف و ہراس پھیلانے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ اقدامات اکثر سیاسی، اقتصادی یا سماجی مقاصد کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں، جن کا بنیادی مقصد مزاحمت کو کچلنا، آزادی کی آوازوں کو خاموش کرنا، اور عوام میں خوف پیدا کرنا ہوتا ہے۔

ریاستی دہشت گردی کی کئی شکلیں ہوتی ہیں، جن میں فوجی آپریشنز، جعلی پولیس مقابلے، شہریوں کو بلاوجہ نشانہ بنانا، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، جبری گمشدگیاں (لاپتہ افراد)، اور دیگر ظالمانہ اقدامات شامل ہیں۔

اگرچہ بین الاقوامی سطح پر ان اقدامات کو عمومی طور پر دہشت گردی کی تعریف میں شامل نہیں کیا جاتا، لیکن معروف دانشور ناؤم چومسکی جیسے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ریاستی دہشت گردی کو بھی دہشت گردی کے دائرہ کار میں شامل کیا جانا چاہیے، تاکہ عالمی انصاف اور انسانی حقوق کی حقیقی حفاظت ممکن ہو سکے۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور باشعور دانشور ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور انصاف، مساوات اور امن کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔

حقیقی امن اور ترقی تبھی ممکن ہے جب ہر قوم کو اس کے جائز حقوق دیے جائیں اور ہر انسان کو عزت، وقار اور آزادی کے ساتھ جینے کا موقع فراہم کیا جائے۔

ریاستی دہشت گردی کے ذریعے مظلوم قوموں کی آزادی کی خواہش کو دبایا جاتا ہے، ان کی مزاحمت کو کچلا جاتا ہے، اور ایک ایسی فضا قائم کی جاتی ہے جس میں انصاف، مساوات اور آزادی کا تصور معدوم ہو جاتا ہے۔ ریاستی دہشت گردی دراصل وہ منظم اور ظالمانہ عمل ہے جس میں حکومت یا اس کے ادارے اپنے ہی عوام یا محکوم اقوام کے خلاف ظلم، تشدد، قتل و غارت، خوف و ہراس اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ یہ اقدامات عموماً سیاسی، اقتصادی یا سماجی مقاصد کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں، جن کا بنیادی مقصد مزاحمتی تحریکوں کو ختم کرنا، آزادی کی آوازوں کو خاموش کرنا، اور عوام کے اندر خوف پیدا کرنا ہوتا ہے۔

ریاستی دہشت گردی کی متعدد شکلیں ہوتی ہیں، جن میں فوجی آپریشنز، جعلی پولیس مقابلے، شہریوں کو نشانہ بنانا، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، جبری گمشدگیاں، اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر ان اقدامات کو "دہشت گردی” کے دائرے میں شامل نہیں کیا جاتا، تاہم معروف مفکر نوم چومسکی جیسے دانشور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ریاستی دہشت گردی کو عالمی دہشت گردی کی تعریف میں شامل کیا جانا ناگزیر ہے، تاکہ عالمی انصاف اور انسانی حقوق کی حقیقی حفاظت ممکن ہو سکے۔

اسی تناظر میں، پراکسی وار ایک ایسا خطرناک ہتھیار ہے جو طاقتور ریاستیں اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس میں وہ براہِ راست مداخلت کی بجائے مقامی یا غیر ریاستی مسلح گروہوں کو اپنی جنگ لڑنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ گروہ ریاستی سرپرستی میں مسلح، تربیت یافتہ اور مالی طور پر معاونت یافتہ ہوتے ہیں، تاکہ وہ آزادی پسند تحریکوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مزاحمتی قوتوں کو دبانے کے لیے استعمال کیے جا سکیں۔

پراکسی وار کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں میں تشدد، خونریزی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور سیاسی و سماجی عدم استحکام میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان جنگوں سے عام شہریوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ ریاستی دہشت گردی اور پراکسی تنظیموں کا امتزاج ایک ایسا عالمی مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف مقامی امن کو بلکہ عالمی استحکام اور انسانی وقار کو بھی خطرے میں ڈال چکا ہے۔

پاکستان کی ریاست بلوچستان میں اس وقت اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس نے داعش خراسان جیسے گروہوں کو بلوچ آزادی پسند تحریکوں کے خلاف متحرک کر دیا ہے۔

حال ہی میں پشتو زبان میں جاری کردہ 36 منٹ طویل ویڈیو میں داعش خراسان نے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور ان کے اتحادی گروہوں کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ کیا ہے۔ ویڈیو میں ان تنظیموں پر "سیکولر قوم پرستی” کے فروغ اور "اسلامی اقدار” کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مستونگ میں اپنے ایک مبینہ کیمپ پر حملے کا الزام بھی بلوچ جنگجوؤں پر لگا کر داعش نے بدلہ لینے اور خودکش حملوں کی دھمکی دی ہے۔

مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ ویڈیو میں عام شہریوں، لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو براہِ راست دھمکیاں دی گئی ہیں کہ وہ بلوچ حقوق کے لیے نکالی جانے والی ریلیوں اور مظاہروں سے دور رہیں، کیونکہ یہ اجتماعات اب داعش کے نشانے پر ہیں۔ ویڈیو میں ان مظاہروں کی تصاویر شامل کر کے انہیں "علیحدگی پسندوں کے حامی” قرار دے کر متنبہ کیا گیا ہے، جو بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ داعش جیسے شدت پسند گروہ اب سامراجی ایجنڈے کے تحت عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب استعماری قوتیں کسی پرامن اور نظریاتی تحریک کو فوجی طاقت، سیاسی حربوں یا داخلی فسطائیت کے ذریعے دبانے میں ناکام ہو جاتی ہیں، تو وہ ایسی دہشتگرد تنظیموں کو پالتی ہیں جو مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیل کر ہر آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ مظلومیت، انسانی وقار اور جدوجہد پر مبنی تحریکوں کو بارود اور دھمکیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

بلوچستان کی آزادی پسند تحریکیں اس وقت جس مرحلے میں ہیں، وہاں ریاستی جبر، شدت پسند دھمکیاں اور پراکسی حملے ان کے عزم کو مزید جِلا بخش رہے ہیں۔ آج بلوچ نوجوان، صحافی، دانشور اور عام عوام، پہلے سے زیادہ شعوری سطح پر ان مظالم کو سمجھ رہے ہیں اور مزاحمت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔

ریاستیں اور ان کی دہشتگرد تنظیمیں

جب ریاستیں اپنے جغرافیائی، سیاسی یا سامراجی عزائم کو خطرے میں محسوس کرتی ہیں، تو وہ انسانی اقدار، انصاف اور قانون کو پسِ پشت ڈال کر ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں جو تاریخ کے بدترین مظالم میں شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مکروہ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کو خفیہ طور پر پرورش دے کر ان کے ذریعے آزادی پسندوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بناتی ہیں۔

داعش جیسے گروہ بظاہر غیر ریاستی عناصر سمجھے جاتے ہیں، مگر اکثر اوقات یہ درپردہ ریاستی سرپرستی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے ریاستیں ان تحریکوں پر وار کرتی ہیں جو اس کے بیانیے، طاقت اور تشخص کے لیے خطرہ بن چکی ہوں۔ جب براہِ راست ریاستی طاقت سے ان تحریکوں کو ختم کرنا ممکن نہ ہو، تو دہشت کا یہ دوسرا چہرہ میدان میں اُتارا جاتا ہے۔

یہ پورا منظرنامہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ بلوچ مزاحمت ایک زندہ ضمیر کی پکار ہے، جو ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف انسانیت، آزادی اور وقار کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اسے دبانا اب ریاستی مشینری کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش بن چکا ہے، اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
جب ریاستیں اپنے سیاسی اقتدار، جغرافیائی مفادات یا استعماری عزائم کو خطرے میں محسوس کرتی ہیں تو وہ انصاف، قانون اور انسانی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لیتی ہیں، جو نہ صرف غیر انسانی ہوتے ہیں بلکہ ظلم و جبر کی بدترین مثال بن جاتے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں ایک خطرناک اور آزمودہ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ریاستیں خفیہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کو پرورش دیتی ہیں اور انہیں آزادی پسندوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔

یہ ایک گھناؤنی حکمتِ عملی ہے، جس کا مقصد سچائی کو کچلنا، شعور کو دبانا اور مزاحمت کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینا ہوتا ہے۔ داعش جیسے شدت پسند گروہ، جنہیں بظاہر غیر ریاستی عناصر سمجھا جاتا ہے، اکثر اوقات درپردہ ریاستی اداروں کی سرپرستی سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے اُن تحریکوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو ریاستی ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں یا جن کا وجود خود ریاستی بیانیے کے لیے چیلنج بن جاتا ہے۔

جب ایسی تحریکیں، جو آزادی، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے لیے جدوجہد کرتی ہیں، براہِ راست طاقت سے دبائی نہیں جا سکتیں، تو ان کے خلاف دہشت کا ایک اور چہرہ میدان میں لایا جاتا ہے—وہ چہرہ جو مذہب، عقیدے یا قانون کے نام پر تباہی اور خوف کا بازار گرم کرتا ہے۔

صحافی، جو قلم کی طاقت سے سچ کو بے نقاب کرتے ہیں؛ انسانی حقوق کے کارکن، جو مظلوموں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں؛ اور آزادی کے متوالے، جو اپنی شناخت، زبان اور وطن کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں—یہ سب اس خفیہ جنگ کا اولین نشانہ بنتے ہیں۔

یہ عمل نہ صرف بنیادی انسانی اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ جب دہشت گردی ریاستی پالیسی کا حصہ بن جائے تو ظلم قانونی لباس پہن لیتا ہے اور انصاف محض ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔

ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی مثالیں

سری لنکا اور تامل مزاحمت

سری لنکا میں تامل آزادی پسند تحریک، خصوصاً تامل ایلام ٹائیگرز (LTTE)، کے خلاف جب سری لنکن ریاست براہِ راست عسکری طاقت کے ذریعے کامیابی حاصل نہ کر سکی تو اس نے ایک خطرناک اور پیچیدہ حکمتِ عملی اپنائی، جسے "پراکسی وار” کہا جاتا ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت ریاست نے مختلف تامل قوم پرست گروہوں کو مالی، عسکری اور سیاسی سرپرستی فراہم کی تاکہ وہ LTTE کے خلاف ریاستی مفادات کے مطابق سرگرمِ عمل ہوں۔

ان گروہوں میں نمایاں ترین "ای پی ڈی پی” (EPDP) ہے، جس کی قیادت دوگلس دیوانندا نے کی۔ اگرچہ اس گروہ کا ظاہری مقصد تامل عوام کے لیے سیاسی حقوق کی جدوجہد تھا، مگر درحقیقت یہ سری لنکن انٹیلیجنس کے ساتھ مل کر LTTE کے خلاف مسلح کارروائیاں کرتا رہا، شہریوں کو ہراساں کرتا، اور سیاسی مخالفین کو قتل کرنے میں ملوث رہا۔

اسی طرح "پی ایل او ٹی ای” (PLOTE) اور "ٹی ایم وی پی” (TMVP) جیسے گروہ بھی ریاستی سرپرستی میں وجود میں لائے گئے۔ ان گروہوں نے تامل آبادیوں میں خوف و ہراس پھیلایا، نوجوانوں کو اغوا کیا، اور صحافیوں و انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنایا۔ TMVP کے رہنما "کرونا” نے نہ صرف ریاستی فوج کے ساتھ مل کر اپنے سابق اتحادیوں کے خلاف کارروائیاں کیں بلکہ ریاستی سیاسی جماعتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ بھی کیا، جس کا مقصد صرف اور صرف ریاستی مفادات کا تحفظ تھا۔

ان تمام گروہوں کی پشت پناہی ریاست نے اس مقصد کے تحت کی کہ تامل مزاحمتی تحریک کو اندرونی طور پر تقسیم کیا جائے، اس کی ساکھ کو عالمی سطح پر مشکوک بنایا جائے، اور سری لنکن ریاست کے کنٹرول کو مستحکم کیا جا سکے۔

یہ حکمتِ عملی ریاستی پراکسی پالیسی کی ایک کلاسیکی مثال ہے۔ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی ایسی ہی پالیسیاں اپنائی جاتی رہی ہیں، جہاں طاقتور ریاستیں براہِ راست جبر میں ناکامی کے بعد مذہب، قوم یا سیاست کے نام پر پراکسی گروہوں کو استعمال کر کے مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کرتی ہیں۔

روس اور چیچنیا کی آزادی پسند تحریکیں

روس میں چیچنیا کی آزادی پسند تحریک کو دبانے کے لیے ریاست نے ایک منظم اور کثیرالجہتی حکمتِ عملی اپنائی، جس میں عسکری طاقت، پراکسی ملیشیاؤں کی سرپرستی، اور دہشت گردی کے بیانیے کا بھرپور استعمال شامل تھا۔ 1994 سے شروع ہونے والی پہلی چیچن جنگ کے بعد روس کو یہ احساس ہوا کہ براہِ راست فوجی کارروائیوں سے چیچن عوام کی مزاحمتی قوت کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایک متوازی راستہ اختیار کیا گیا۔

ایسے چیچن رہنماؤں کو اقتدار دیا گیا جو ماسکو کے وفادار تھے۔ رمضان قدیروف اس حکمتِ عملی کا سب سے نمایاں چہرہ بن کر سامنے آئے، جنہیں چیچنیا کا صدر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے "قدیروفسی” (Kadyrovtsy) کے نام سے ایک نجی ملیشیا تشکیل دی، جو نہ صرف ریاستی مخالفین بلکہ انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور مزاحمت کاروں کے اہلِ خانہ کو بھی نشانہ بناتی رہی۔

قدیروف اور ان کی ملیشیا کو مکمل استثنیٰ حاصل تھا، اور کریملن کی جانب سے انہیں مالی و سیاسی حمایت بھی فراہم کی گئی، جس کے نتیجے میں چیچن معاشرے میں خوف و ہراس عام ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، روسی ریاست نے ہر قسم کی سیاسی مخالفت کو اسلامی انتہا پسندی یا عسکری دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی، تاکہ عالمی سطح پر چیچن مزاحمت کو بدنام کیا جا سکے اور مغربی دنیا کو اس تحریک سے ہمدردی رکھنے سے روکا جا سکے۔

2006 میں روس کی معروف صحافی آنا پولٹکوفسکایا کو قتل کر دیا گیا۔ وہ چیچنیا میں ہونے والی ریاستی زیادتیوں، فوجی بربریت اور قدیروف حکومت کے مظالم پر تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہی تھیں۔ ان کا قتل نہ صرف ریاستی جبر کی ایک مثال تھا بلکہ اس امر کا ثبوت بھی تھا کہ روس اپنے سیاسی مقاصد کے لیے نہ صرف پراکسی فورسز کا استعمال کرتا ہے بلکہ حق گو آوازوں کو خاموش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

روس کا یہ ماڈل آج دنیا کے کئی دیگر خطوں میں دہرایا جا رہا ہے، جہاں آزادی پسند تحریکوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر ان کی جدوجہد کو مسخ کیا جاتا ہے، اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو قومی سلامتی کے نام پر چھپا لیا جاتا ہے۔

ترکی میں کردوں کے خلاف اندرونی پراکسی وار

ترکی میں کردوں کے خلاف ریاست کی "اندرونی پراکسی وار” ایک پیچیدہ اور گہری حکمتِ عملی کی عکاس ہے، جس میں ریاست نے محض عسکری قوت پر انحصار نہیں کیا، بلکہ خفیہ معاونت، پروپیگنڈہ، اور شدت پسند گروہوں کے استعمال کو بھی اپنی پالیسی کا حصہ بنایا۔ اس حکمتِ عملی کا مرکزی ہدف کرد آزادی پسند تحریک، بالخصوص "کردستان ورکرز پارٹی” (PKK) تھی، جو کئی دہائیوں سے کردوں کے لیے ثقافتی، لسانی اور سیاسی خودمختاری کی جدوجہد کر رہی ہے۔ ترک ریاست نے PKK کو مسلسل دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف ہزاروں فوجی آپریشنز، فضائی حملے، اور سرحدی کارروائیاں کیں، مگر یہ سب کچھ عسکری محاذ تک محدود نہ رہا۔

ترک ریاست نے خفیہ طور پر بعض شدت پسند اسلام پسند گروہوں، جن میں داعش کے بعض دھڑے بھی شامل تھے، کو شام اور عراق کی سرحدوں کے قریب سرگرم رہنے دیا۔ اس کا مقصد شامی کردوں کی مزاحمتی تنظیم YPG کو کمزور کرنا تھا، جسے PKK کی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ متعدد بین الاقوامی رپورٹس اور تجزیہ نگاروں کے مطابق، ترکی نے ان گروہوں کو اسلحہ، لاجسٹک سپورٹ، اور سرحدی آمد و رفت کی سہولت فراہم کی، تاکہ YPG کو شام میں زمینی برتری سے محروم کیا جا سکے۔ یہ پراکسی حکمتِ عملی نہ صرف شام میں ترک مفادات کے تحفظ کے لیے اپنائی گئی بلکہ بالواسطہ طور پر ترکی کے اندر موجود کرد تحریک کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ریاست اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے ہر حد تک جا سکتی ہے۔

اس تمام عمل کا بنیادی مقصد کردوں کی قومی شناخت، مزاحمتی قوت اور سیاسی تنظیموں کو کمزور کرنا تھا۔ ترکی کی یہ پالیسی اُن تمام ریاستوں کے لیے ایک سبق ہے جہاں مزاحمتی تحریکوں کو محض عسکری قوت سے نہیں، بلکہ پراکسی عناصر، شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی، اور قانونی و سماجی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم، تاریخ نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ قوموں کی آواز کو وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے، مگر مٹایا نہیں جا سکتا۔

افغانستان میں داعش خراسان کی سرگرمیاں

افغانستان میں داعش کی موجودگی اور سرگرمیاں ایک گہری اور پیچیدہ سیاسی و جغرافیائی سازش کی عکاس ہیں، جس کے تانے بانے نہ صرف داخلی عوامل سے جُڑے ہوئے ہیں، بلکہ اس کے پسِ پردہ علاقائی طاقتوں کے مفادات اور پراکسی جنگوں کی حکمتِ عملی بھی کارفرما ہے۔ بالخصوص کابل حکومت متعدد بار یہ دعویٰ کر چکی ہے کہ پاکستان نہ صرف افغان سرزمین پر امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے میں ملوث ہے، بلکہ وہ مبینہ طور پر داعش خراسان جیسے شدت پسند گروہوں کو خفیہ پشت پناہی بھی فراہم کر رہا ہے، تاکہ افغانستان کے اندر حکومتی اداروں، سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔

2022 میں کابل کی ایک مسجد میں ہونے والے ہولناک خودکش حملے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، نے ان خدشات کو مزید تقویت دی۔ اس واقعے میں درجنوں بے گناہ نمازی شہید ہوئے، جن میں سیکیورٹی اہلکار اور سول ملازمین بھی شامل تھے۔ افغان حکام نے نہایت واضح انداز میں اس حملے کے بعد یہ الزام عائد کیا کہ داعش کے جنگجو پاکستانی سرحدی علاقوں سے افغانستان میں داخل ہوئے تھے، اور انہیں وہاں محفوظ پناہ گاہیں حاصل تھیں۔ افغان وزارتِ داخلہ کے بعض افسران کے مطابق یہ حملہ محض ایک مذہبی اجتماع کو نشانہ بنانے کی کارروائی نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم اور گہری سازش کارفرما تھی، جس کا مقصد افغانستان کے داخلی استحکام کو مزید کمزور کرنا تھا۔

یہ الزامات محض سیاسی بیانات نہیں، بلکہ اس خطے میں جاری پراکسی جنگوں کی ایک مستقل علامت ہیں، جن میں ریاستیں اپنے جغرافیائی یا نظریاتی مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے شدت پسند گروہوں کو بطور آلہ کار استعمال کرتی ہیں۔ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں—خصوصاً اقلیتوں، تعلیمی اداروں، خواتین کارکنان، اور مذہبی اجتماعات کو نشانہ بنانا—اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ ان کا مقصد صرف تخریب کاری نہیں، بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنا، خوف و ہراس کو پھیلانا، اور افغان عوام کو اپنی ہی ریاست سے مایوس کرنا ہے۔

یہ پہلو بھی نہایت قابلِ غور ہے کہ داعش خراسان کی سرگرمیاں اکثر ان علاقوں میں زیادہ شدت اختیار کرتی ہیں، جو پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ہیں، جیسے ننگرہار اور کنڑ۔

ان علاقوں میں پہلے ہی سے ریاستی کنٹرول کمزور رہا ہے، اور یہی خلا شدت پسند گروہوں کے لیے زمین کو زرخیز بناتا ہے۔ افغان تجزیہ نگار اس نکتے پر بھی زور دیتے ہیں کہ جب طالبان حکومت یا سابقہ کابل حکومت کسی آزاد پالیسی کی طرف مائل ہوتی ہے، یا کسی علاقائی معاہدے میں خود مختاری کا مظاہرہ کرتی ہے، تو ایسے مواقع پر داعش کی سرگرمیوں میں ایک مشکوک شدت دیکھنے کو ملتی ہے۔

افغانستان میں داعش خراسان کی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ گروہ محض ایک خودمختار دہشت گرد تنظیم نہیں، بلکہ اس کی کارروائیاں پاکستانی ریاستی مفادات سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں۔ یہ گروہ اکثر ان عناصر کو نشانہ بناتا ہے جو پاکستان کے سیاسی یا جغرافیائی منصوبوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو داعش کی کارروائیاں نہ صرف افغانستان اور ایران کے خلاف مرکوز رہتی ہیں، بلکہ پاکستان مخالف بلوچ تنظیموں کو بھی ہدف بناتی ہیں، جس سے یہ تاثر مزید تقویت پاتا ہے کہ داعش خراسان کو بعض ریاستی اداروں کی خاموش حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

شام میں داعش اور ریاستی کردار

شام کی خانہ جنگی، جو 2011 میں عوامی احتجاجوں سے شروع ہوئی، جلد ہی ایک پیچیدہ اور خونی بحران میں تبدیل ہو گئی، جس میں متعدد علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر شامل ہو گئیں۔ اس شورش زدہ ماحول میں داعش (دولتِ اسلامیہ) کے حیران کن اور تیز رفتار ابھار نے عالمی برادری کو حیرت زدہ کر دیا۔ اگرچہ داعش کا ظاہری بیانیہ خلافت کے قیام اور اسلامی قانون کے نفاذ پر مشتمل تھا، مگر اس کے اقدامات، اہداف، اور پسِ پردہ حمایت کے حوالے سے جو انکشافات سامنے آئے، وہ اس تنظیم کو محض ایک نظریاتی یا مذہبی گروہ نہیں، بلکہ ایک مخصوص سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

شام کی حکومت اور متعدد بین الاقوامی مبصرین نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ داعش کو ابتدائی ایّام میں بعض خلیجی ریاستوں اور مغربی طاقتوں کی خاموش یا بالواسطہ حمایت حاصل رہی۔ ان ریاستوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بشار الاسد کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے اور اسے اقتدار سے بے دخل کیا جائے۔

داعش کو اس پورے منظرنامے میں اس لیے کارآمد سمجھا گیا کہ وہ ایک شدت پسند اور خونخوار گروہ کے طور پر شامی ریاستی اداروں کو کمزور کر سکتی تھی۔ بعض رپورٹس کے مطابق، اس گروہ کو ابتدائی مراحل میں اسلحہ، مالی وسائل اور تربیتی امداد اُن ذرائع سے ملی جو براہِ راست ان بین الاقوامی اتحادیوں سے جڑے تھے جو خود کو جمہوریت کے علَم بردار کہتے ہیں۔

داعش کی پیش قدمی کے دوران سب سے زیادہ نقصان شامی عوام کو اٹھانا پڑا، خاص طور پر وہ طبقات جو ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے یا جو جمہوریت، انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے علمبردار تھے۔ کرد آزادی پسند گروہ، جیسے کہ YPG، جو ایک سیکولر اور جمہوری نظام کے قیام کی کوشش کر رہے تھے، داعش کا اولین ہدف بنے۔ ان علاقوں پر، جہاں کردوں نے خودمختاری کا اعلان کیا، داعش نے وحشیانہ حملے کیے، جن میں خواتین، بچوں اور بزرگوں کو بھی بخشا نہیں گیا۔

دوسری جانب، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ ان افراد نے نہ صرف داعش کے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا، بلکہ شام کی ریاستی افواج کی طرف سے ہونے والی بمباری، کیمیائی حملوں اور جبری گمشدگیوں کو بھی اجاگر کیا۔ یہی دوہری مخالفت ان کی جان کا سبب بنی، اور کئی کارکن یا تو قتل کر دیے گئے یا لاپتہ ہو گئے۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ داعش اور شامی ریاست، باوجود بظاہر دشمن ہونے کے، بعض اوقات ایک دوسرے کے اقدامات سے فائدہ اٹھاتے نظر آئے۔ جب داعش انسانی حقوق کے مراکز، اسپتالوں یا مزاحمتی تحریکوں کے دفاتر پر حملے کرتی تھی، تو ریاست ان علاقوں کو مزید نشانہ بنانے کا جواز حاصل کر لیتی تھی۔
یوں داعش ایک ایسا فریق بن کر ابھری، جو بیک وقت حکومت مخالف تحریکوں، کردوں، اور انسانی حقوق کی سرگرمیوں کے خلاف محاذ پر متحرک تھی
اور اس کا فائدہ بالواسطہ طور پر شامی ریاست اور اس کے کچھ بین الاقوامی مخالفین، دونوں کو ہوتا رہا۔

یہ پورا منظرنامہ اُس بڑی عالمی پالیسی کا عکاس ہے جسے ہم "پراکسی شدت پسندی” کے نام سے جانتے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت دہشت گرد تنظیموں کو مخصوص جغرافیائی، سیاسی یا نظریاتی اہداف کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، اور بعد ازاں ان کے وجود سے خود کو لاتعلق ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ شام میں داعش کی موجودگی اسی پالیسی کا واضح ثبوت ہے کہ کس طرح مختلف طاقتوں نے ایک تنظیم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اور اس کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ شہری ظلم، خوف اور تباہی کا شکار ہوئے۔

آج بھی شام کی تباہ شدہ بستیاں، کھنڈر بنتے شہر، اور برباد زندگیوں کی گواہی یہی دیتی ہیں کہ پراکسی جنگیں صرف زمینیں نہیں جلاتیں، بلکہ نسلوں کو مٹا دیتی ہیں، تہذیبوں کو ختم کر دیتی ہیں، اور انسانیت کی روح کو لہولہان کر دیتی ہیں۔

ریاستوں کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب طاقتور حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے اخلاقی اور قانونی حدود کو عبور کرتی ہیں، تو وہ نہ صرف ریاستی مشینری کو جبر کا ہتھیار بناتی ہیں بلکہ بعض اوقات شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو بھی بطور پراکسی استعمال کرتی ہیں۔ داعش جیسے گروہوں کا ابھار، ان کی مخصوص اہداف پر مرکوز کارروائیاں، اور ان کا بیانیہ ایسے ہی ریاستی منصوبوں کا عکس ہے جن کا مقصد آزادی پسند تحریکوں کو بدنام اور کمزور کرنا، سچ بولنے والے صحافیوں کو خاموش کرانا، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خوف کی فضا میں دھکیلنا ہوتا ہے۔

بلوچستان میں داعش کا کردار

پاکستان کے تناظر میں، بلوچ آزادی پسند تحریکیں طویل عرصے سے یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ ریاست نہ صرف براہِ راست فوجی طاقت استعمال کرتی ہے بلکہ کالعدم شدت پسند تنظیموں جیسے لشکر جھنگوی، داعش خراسان اور سپاہ صحابہ کو بطور پراکسی بلوچستان میں فعال رکھتی ہے—مثلاً مستونگ، قلعہ سیف اللہ، مچھ اور پنجگور جیسے علاقے۔ 2018 کے مستونگ حملے، جس میں 149 افراد شہید ہوئے، کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، مگر اس حملے کے اثرات براہِ راست بلوچ تحریک پر پڑے، کیونکہ عوامی اجتماعات کو خطرناک بنا کر تحریک کی عوامی حمایت کو محدود کیا گیا۔

ریاست پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ انسانی حقوق کے کارکنوں، لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، اور صحافیوں کو پراکسی گروہوں کے ذریعے دھمکاتی یا نشانہ بناتی ہے، تاکہ بلوچستان میں ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کو عالمی سطح پر بے نقاب نہ کیا جا سکے۔

بلوچستان میں جاری آزادی کی جدوجہد محض میدانِ جنگ کی کہانی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے کئی پیچیدہ سیاسی، عسکری اور خفیہ طاقتوں کا گٹھ جوڑ کارفرما ہے۔ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتی آ رہی ہیں کہ ریاستِ پاکستان، بالخصوص اس کی عسکری اسٹیبلشمنٹ، بلوچستان میں داعش جیسے عالمی دہشت گرد گروہوں کو نہ صرف برداشت کرتی ہے بلکہ انہیں خفیہ معاونت فراہم کر کے بطور پراکسی استعمال کرتی ہے، تاکہ بلوچ تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔

داعش کی بلوچستان میں موجودگی اب کوئی راز نہیں رہی۔ مستونگ، قلعہ عبداللہ، اور مچھ جیسے علاقے حالیہ برسوں میں ایسے مہلک حملوں کی زد میں آئے جن کی ذمہ داری داعش نے باضابطہ طور پر قبول کی۔ 2018 میں مستونگ میں ایک انتخابی ریلی پر ہونے والے خوفناک خودکش حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، جس میں 149 معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔ اس حملے نے اس خطے میں داعش کی منظم موجودگی اور کارروائیوں کو آشکار کیا۔

تجزیہ کاروں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا ماننا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ان دہشت گرد گروہوں کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت استعمال کرتی ہے۔ یہ حکمت عملی نہ صرف بلوچوں کے بنیادی انسانی حقوق پر حملہ ہے بلکہ خود پاکستان کے جمہوری اور آئینی ڈھانچے کے لیے بھی ایک خطرناک دھچکا ہے۔

جب ایک ریاست اپنی ہی عوام کے خلاف غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ریاست اپنی اخلاقی، قانونی اور سیاسی حیثیت کھو چکی ہے۔ بلوچستان میں داعش کی کارروائیاں، جن میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، اور عام شہری بھی نشانہ بنے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ گروہ صرف ایک مذہبی ایجنڈے کے تحت سرگرم نہیں بلکہ ایک وسیع تر ریاستی منصوبے کا حصہ ہیں۔ ایسا منصوبہ جس کا مقصد بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کو کچلنا، خوف کی فضا قائم کرنا، اور دنیا کی نظروں سے سچ کو چھپانا ہے۔

بلوچستان جیسے حساس اور محروم خطے میں داعش کی حالیہ سرگرمیاں، بالخصوص آزادی پسند مسلح تنظیموں کے خلاف کھلے عام دھمکیاں، اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ یہ گروہ محض نظریاتی نہیں بلکہ ایک مخصوص ریاستی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ داعش کی جانب سے جاری کردہ دھمکی آمیز ویڈیو، جس میں نہ صرف بلوچ تنظیموں بلکہ عام شہریوں، لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، اور انسانی حقوق کے مظاہروں کو بھی نشانہ بنانے کی بات کی گئی ہے، اس امر کی علامت ہے کہ دہشت گردی کی یہ نئی لہر صرف جنگجوؤں تک محدود نہیں، بلکہ پرامن آوازوں کو بھی خاموش کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔

یہ خطرناک صورت حال نہ صرف بلوچستان میں خوف و ہراس کو جنم دے رہی ہے بلکہ خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافتی ادارے، اور عالمی مبصرین اس پیش رفت کو نہایت تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کوئٹہ میں قابض فوج پر دستی بم حملے میں تین اہلکار زخمی اور جھاؤ میں فوجی چوکی حملے میں چار اہلکار ہلاک کیئے۔ بی ایل ایف

منگل مئی 27 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے کہا ہے کہ چھبیس مئی 2025 کو بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے کوئٹہ کے علاقہ دشت، درخشاں میں پیرا ملٹری فورس کی ایک چوکی  کے باہر کھڑے تین اہلکاروں کو دستی بم حملے میں نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں […]

توجہ فرمائیں

تازہ ترین

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ