
ضلع کیچ: تربت کے علاقہ بگ سے تعلق رکھنے والے ایک متاثرہ خاندان نے ہنگامی پریس کانفرنس میں پاکستانی فورسز کے مظالم اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ہانی بلوچ نے درجنوں خواتین کے ہمراہ تربت پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خاندان 2013 سے ریاستی جبر کا مسلسل نشانہ بنا ہوا ہے۔
ہانی بلوچ نے کہا کہ ان کے گھر پر پاکستانی فوج کے جانب کئی بار چھاپے مارے گئے، خواتین کو ہراساں کیا گیا اور نوجوانوں کو اغوا کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں ان کے خاندان کے پانچ افراد کو اغوا کر کے دو ہفتے تک بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جنہیں نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2017 میں ان کے بڑے بھائی اقبال بلوچ کو اغوا کیا گیا، جو 14 ماہ کی جبری گمشدگی اور شدید ذہنی و جسمانی اذیت کے بعد رہا ہوئے۔ ان کی جان بچانے کے لیے انہیں بعدازاں دبئی جانا پڑا۔
پریس کانفرنس کے دوران ہانی بلوچ نے کہا کہ ان کے چھوٹے بھائی، جیئند بلوچ، جن کا گھریلو نام عدنان ہے اور جو تربت یونیورسٹی میں قانون کے طالبعلم ہیں گزشتہ رات پاکستانی فورسز نے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں اغوا کر لیا۔ عدنان ایک محنتی اور غیر سیاسی طالبعلم تھے جو صرف اپنی تعلیم پر توجہ دیتے تھے۔
ہانی بلوچ نے کہا کہ ان کے خاندان کو محض اس بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ان کے بڑے بھائی، ناصر بلوچ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی رہنما ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ریاست جیئند کو محض رشتہ داری کی بنیاد پر مجرم سمجھتی ہے تو اسے قانونی طریقے سے عدالت میں پیش کرے نہ کہ چھاپوں اور اغوا جیسے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرے۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر ہانی بلوچ نے ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ جیئند بلوچ کو تین دن کے اندر بازیاب کر کے عدالت میں پیش کیا جائے، بصورت دیگر وہ غیر معینہ مدت کے لیے احتجاج اور دھرنے پر مجبور ہوں گے۔