
3 ایم پی او کے تحت کئی ماہ سے جیل میں قید بی وائی سی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے گزشتہ دنوں آئی ایس پی آر کی جانب سے میڈیا کو دیے گئے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ڈی جی آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک بار پھر مجھ پر “دہشت گردوں کی ایجنٹ” ہونے کا الزام عائد کیا، جو کہ ایک سنگین اور بار بار دہرایا جانے والا الزام ہے، جو آج تک کسی ایک بھی قابلِ اعتماد ثبوت کے بغیر لگایا گیا ہے۔ یہ بے بنیاد دعوے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات کا ایک پریشان کن وطیرہ بن چکے ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ وہی خاتون ہیں جو جعفر ایکسپریس حملے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشیں لینے آئی تھیں۔ یہ کون ہے جو لاشیں مانگتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ میں بالکل واضح کرنا چاہتی ہوں: اس پریس کانفرنس کو شدید طور پر غلط انداز میں پیش کیا گیا، سیاق و سباق سے کاٹا گیا، اور میرے پیغام کو مسخ کیا گیا۔ مارچ میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں میں نے کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کی۔ میرا واحد مطالبہ شفافیت کا تھا۔ میں نے اُن نامعلوم افراد کی شناخت کے بارے میں سوال اٹھایا تھا جنہیں رات کے اندھیرے میں کوئٹہ کے قسی قبرستان میں دفنایا گیا، اُن بارہ افراد کے علاوہ جنہیں شدت پسند قرار دیا گیا تھا۔ ان گمنام لاشوں کو شناخت ملنی چاہیے، اور ان کے اہل خانہ کو اپنے پیاروں کے انجام سے آگاہی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ یہ مطالبہ نہ صرف اخلاقی ہے بلکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک قانونی حق بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سالوں سے بلوچستان میں ایک خطرناک رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے: کسی بھی پرتشدد واقعے کے بعد سیکیورٹی ادارے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کو قتل کر کے، ان کی لاشیں خفیہ طور پر دفنا دیتے ہیں، اور بعد میں انہیں “شدت پسند” قرار دیتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس واقعے میں، متعلقہ مسلح گروہ نے خود بارہ افراد کے نام، تصاویر اور تفصیلات جاری کیں۔ لیکن سول اسپتال کوئٹہ میں دو درجن سے زائد لاشیں لائی گئیں۔ میرا سوال یہی تھا: باقی کون تھے؟ اور انہیں خفیہ طور پر دفن کیوں کیا گیا؟
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے مزید کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے حالیہ الزامات کے جواب میں، میں ایک بار پھر سوال کرتی ہوں: ثبوت کہاں ہے؟ اگر پاکستان کے انٹیلیجنس اور عسکری ادارے اتنے باصلاحیت ہیں، تو اب تک میرے خلاف کوئی ثبوت کیوں پیش نہیں کیا گیا؟
انہوں نے کہا کہ میری جدوجہد پرامن، اصولی، اور آفاقی انسانی حقوق کی بنیاد پر ہے۔ میں نے ہمیشہ تشدد کی مذمت کی ہے، چاہے وہ غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ہو یا ریاست کی طرف سے۔ لیکن آج کا بلوچستان ظلم، جبری گمشدگیوں، اور انصاف و احتساب کے مکمل فقدان سے مجروح ہے۔ ان حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے، ریاست ان افراد کو بدنام کرنے کی راہ اختیار کرتی ہے جو سچ بولنے کی جرأت کرتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اس صورتحال کا نوٹس لینا ہوگا۔ بلوچستان کے عوام سازشی مہم (smear campaign)نہیں، بلکہ انصاف کے مستحق ہیں۔ وہ جوابات چاہتے ہیں، نہ کہ دھمکیاں۔ اور سب سے بڑھ کر، وہ ایک ایسے معاشرے میں جینے کا حق رکھتے ہیں جہاں انہیں خوف نہ ہو۔