دس نسلوں کی دھمکی ،اورجرنیلی غرور!

تحریر :رامین بلوچ – پہلا حصہ
زرمبش مضمون

جب جنرل یحییٰ خان نے 1969 میں یہ دعویٰ کیا کہ "بنگالیوں کی دس نسلیں بھی ’بنگال‘ کو الگ نہیں کر سکتیں”، تو درحقیقت وہ محض طاقت کے زعم میں بول رہا تھا۔ اُسے نہ بنگالیوں کی تاریخی جدوجہد کا ادراک تھا، نہ ان کی قومی شناخت کا احترام، اور نہ ہی قومی خودمختاری کے حق کی کوئی وقعت۔ اس کا نتیجہ دنیا نے 1971 میں دیکھ لیا، جب محض دو برس بعد، وہی بنگالی عوام اپنی مزاحمتی طاقت سے ایک آزاد ریاست، بنگلہ دیش، دنیا کے نقشے پر ثبت کر گئے۔ ریاستی غرور، عسکریت پرستی اور سیاسی نابالغی کا وہ تاریخی انجام آج بھی پاکستانی تاریخ کا ایک خونی باب ہے۔

اب 2025 میں جنرل عاصم منیر کا بیان کہ "بلوچوں کی دس نسلیں بھی بلوچستان الگ نہیں کر سکتیں”، دراصل اسی نوآبادیاتی ذہنیت کا عکس ہے جو آج بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ڈی این اے میں پیوست ہے۔ یہ جملہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ ریاست کی اُس سوچ کا اظہاریہ ہے جو بلوچ قومی جدوجہد کو محض ایک "سیکیورٹی مسئلہ” سمجھتی ہے، اور اس کے ہر مطالبے کو غداری، دہشتگردی یا بغاوت سے تعبیر کرتی ہے۔

یہ دونوں بیانات ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں— اُس نوآبادیاتی ذہنیت کا تسلسل، جو طاقت کے زعم میں تاریخ، عوامی شعور، اور قومی مزاحمت کی گہرائی سے یکسر ناآشنا ہے۔ ان کے الفاظ نہ صرف طاقت کے غرور میں گندھے ہوئے ہیں بلکہ وہ گوریلا جنگ، سیاسی مزاحمت اور عوامی طاقت جیسے انقلابی تصورات سے بھی نابلد نظر آتے ہیں۔ یہ بیانات اُس ریاستی بیانیے کا حصہ ہیں جو ہمیشہ سے بلوچ قومی جدوجہد کو محض چند "شرپسندوں” کا کارنامہ قرار دے کر حقیقت کو مسخ کرتا آیا ہے۔ عاصم منیر کی باتوں میں وہی پرانی نوآبادیاتی فطرت جھلکتی ہے، جو بلوچ قومی تحریک کو دبانے کے لیے عسکری قوت کو واحد ذریعہ سمجھتی ہے۔

پاکستانی ریاست نے بنگالیوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اپنایا تھا۔ اس نے بنگلہ دیش کو اپنی نوآبادیاتی شکارگاہ بنایا؛ انہیں ان کی زبان، ثقافت، اور آزادی سے محروم رکھا؛ ان کے وسائل کو پنجاب کے "ترقیاتی ماڈل” کی نذر کیا؛ اور ان کی آزادی کی جدوجہد کو "بغاوت” قرار دے کر عسکری طاقت سے کچلنے کی کوشش کی، جو بالآخر 1971 کی آزادی پر منتج ہوئی۔

اسی نوآبادیاتی ذہنیت کا تسلسل بلوچستان میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں 1948 سے ہی بلوچ قوم کی آزادی، خودمختاری اور وسائل پر اختیار کے مطالبے کو "بغاوت” کا نام دے کر فوجی طاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی۔ بلوچ سرزمین پر ریاستی پالیسیوں کا ایک مستقل سلسلہ ہے، جو سیاسی، سماجی، معاشی، لسانی اور قومی استحصال پر مبنی ہے۔ بلوچ زبان و ثقافت کو مسخ کیا گیا۔ بلوچ وسائل — خصوصاً گیس، معدنیات، اور بندرگاہیں — پنجاب اور غیرقومی مفادات کے لیے استعمال کی گئیں۔

بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیاں، فرضی مقابلے، اجتماعی سزائیں اور میڈیا بلیک آؤٹ وہی طریقۂ واردات ہیں جو بنگال میں بھی استعمال کیے گئے تھے۔

بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کوئی "سیکیورٹی پرابلم” نہیں، بلکہ یہ ایک گہری نوآبادیاتی بدمعاشی کے خلاف مزاحمت ہے۔ ریاست بلوچ آزادی کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے ایک "سیکیورٹی بیانیہ” میں محدود کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ بدمعاشی ہے جس میں پاکستانی ریاست دیگر آزاد و خودمختار قومیتوں کو ایک "یکساں”، غیر فطری شناخت میں ضم کرنے کی کوشش کرتی ہے، اور تمام قومی، ثقافتی، لسانی و تاریخی تنوع کو "غداری” یا "بغاوت” کے نام پر کچل دیتی ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ "دس نسلیں” کتنی دیر لڑیں گی؛ مسئلہ یہ ہے کہ جب ایک قوم اپنی شناخت، زبان، ثقافت، اور زمین پر مکمل حاکمیت کا مطالبہ کرتی ہے، تو وہ مطالبہ محض جز وقتی نہیں ہوتا — وہ ایک تاریخی شعور کا اظہار ہوتا ہے، ایک منظم، نظریاتی اور سیاسی تحریک، جس کی جڑیں کئی عشروں کی مزاحمتی تاریخ میں پیوست ہوتی ہیں۔

اگر طاقت سے قوموں کو دبایا جا سکتا، تو بنگلہ دیش آج آزاد نہ ہوتا۔ اگر دھمکیوں سے تاریخ کا رخ موڑا جا سکتا، تو بلوچ آزادی کی تحریک سات دہائیوں سے اپنے اٹوٹ تسلسل میں نہ ہوتی۔ یہ تاریخ کا اصول ہے: جب ایک قوم جاگتی ہے، تو اس کی نسلیں غلامی کا طوق توڑ دیتی ہیں — چاہے وہ دس ہوں یا سو۔

لہٰذا یہ کہنا کہ "بلوچوں کی دس نسلیں بھی آزادی حاصل نہیں کر سکتیں”، دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ بلوچ مزاحمت کو عسکری قوت سے ختم نہیں کیا جا سکا۔ اور اب وہ وقت دور نہیں جب تاریخ جنرل عاصم منیر کے اس بیان کو بھی جنرل یحییٰ خان کی طرح ایک ناکام نوآبادیاتی زعم کے طور پر یاد کرے گی۔

یہ فقط ایک دھمکی آمیز لہجہ نہیں، بلکہ بوکھلاہٹ زدہ، زوال پذیر سامراجی و نوآبادیاتی ذہن کی آخری چیخ ہے۔ یہ وہی اندازِ تکبر ہے جو ہر زوال پذیر قوت کے آخری ایّام میں اس کی زبان سے برسنے لگتا ہے۔ جب طاقت کمزور پڑ جائے، شکست سامراج کے دروازے پر دستک دے، اور قومیں شعور کی دہلیز پار کر جائیں، تب جنرلوں کی زبان گولیوں سے نہیں بلکہ خوف سے لرزنے لگتی ہے۔

اس دھمکی نما بیان میں جو زہر چھپا ہے، وہ دراصل بلوچ قومی آزادی تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت، فکری بالیدگی، اور مسلسل مزاحمت کا اعتراف ہے، جو اب پاکستانی فوجی سربراہ نے کھل کر کیا ہے۔ لیکن اب جب بلوچ نوجوان شعور کے ہتھیار سے لیس ہو چکے ہیں، جب شہداء کے لہو سے نظریہ آبیاری پا چکا ہے، جب ہر گاؤں، ہر پہاڑ اور ہر دل میں آزادی کی چنگاری شعلہ بن چکی ہے، تو سامراج کے جرنیلوں کو اپنے پاؤں سے زمین کھسکتی محسوس ہو رہی ہے۔

یہ کہنا کہ "دس نسلیں بھی آزاد نہیں کر سکتیں”، دراصل ایک شکست خوردہ سوچ کی عکاسی ہے، جو سمجھ نہیں پاتی کہ آزادی کی جنگ دھمکیوں کے شکنجے میں نہیں آتی — یہ تاریخ کا وہ فطری عمل ہے جسے نہ بندوق روک سکتی ہے، نہ توپ، نہ ٹینک، نہ جنرل۔ قوموں کی آزادی کی تاریخ گواہ ہے کہ جب مقبوضہ اقوام کے ہاں مزاحمت جنم لیتی ہے، جب مظلوم سوچنے لگتے ہیں، تو تاج اُلٹ جاتے ہیں، تخت خالی ہو جاتے ہیں، اور جرنیل تاریخ کی گمنامی میں دفن ہو جاتے ہیں۔

یہ آزادی کی وہ تحریک ہے — جو خون سے لکھی گئی، قربانیوں سے سنواری گئی، اور قومی شعور میں پنپتی رہی۔ بلوچ قومی آزادی کی یہ تحریک چھتر سالوں سے مسلسل جاری ہے۔ نہ وقت کا جبر اسے روک سکا، نہ فوجی طاقت کی یلغار اسے کچل سکی، اور نہ ہی خوف، قید، قتل اور دھمکیوں کے ہتھکنڈے اس کے عزم کو متزلزل کر سکے۔ یہ وہ تحریک ہے جس کی بنیاد غلامی کی ہر مکروہ شکل کے خلاف اعلانِ مزاحمت ہے، اور جس کی روح آزادی کی اُس ترنگ سے جڑی ہے جو انسان کو ظاہری زنجیروں سے پہلے اندرونی غلامی سے آزاد کرتی ہے۔

پاکستانی ریاست کے جرنیل ایک کے بعد ایک آتے گئے — ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف، قمر جاوید باجوہ، اور اب عاصم منیر۔ ہر ایک نے بلوچ عوام کو دبانے کے لیے طاقت، دھمکی، فریب اور قتلِ عام کا سہارا لیا۔ مگر ہر دھمکی، ہر فوجی آپریشن اور ہر جنگی جارحیت کے بعد بلوچ مزاحمت نے نئی شدت کے ساتھ جنم لیا۔

بلوچ مزاحمت کی بنیادی طاقت اس کی صداقت، قربانیوں اور نظریاتی تسلسل میں ہے۔ یہ صدیوں پر محیط احساسِ غلامی کے خلاف مسلسل شعور کی بیداری ہے، جو وقت کے ساتھ مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ ریاستی بیانیے بدلتے گئے، چہرے بدلتے گئے، لیکن بلوچ مزاحمت کا فلسفہ، اس کی اخلاقی برتری، اور اس کا مقصد ایک لمحے کے لیے بھی متزلزل نہیں ہوا۔

جنرل صاحب! آپ کا یہ جملہ ہماری آنے والی نسلوں کے لاشعور میں محفوظ ہے، جو یاد دلاتا رہے گا کہ جب قابض شکست کے دہانے پر ہوتا ہے، تو اس کی زبان اس کی شکست کا سب سے بڑا اعلان بن جاتی ہے۔ بلوچ قوم کے لیے یہ جملہ صرف ایک دھمکی نہیں بلکہ ایک عہد ہے — کہ ہم نہ صرف دس نسلیں بلکہ ہزار نسلیں بھی قربان کریں گے، لیکن پنجابی سامراج کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔

یہ جملہ فقط ایک جنرل کی لفاظی نہیں، بلکہ ایک بیمار سامراجی ذہن کی وہ آخری آہ ہے جو تاریخ کے ہر زوال پذیر ایمپائر نے اپنی آخری سانسوں میں بلند کی تھی۔ یہی لہجہ کبھی وائسرائے ہند کا تھا، یہی غرور بنگال میں پاکستانی فوج کا تھا، یہی دعویٰ الجزائر میں فرانسیسی جرنیلوں کا، اور یہی رعونت ویتنام میں امریکی جنرلز کی تھی۔ لیکن تاریخ نے ہر بار ان الفاظ کو جھوٹا ثابت کیا، اور مقبوضہ اقوام نے آزادی کی شمع جلا کر ان نوآبادیاتی زنجیروں کو پگھلا دیا، جنہیں ہمیشہ کے لیے دائمی سمجھا گیا تھا۔

جب کوئی جنرل اپنی بندوقوں، ٹینکوں اور ایٹمی غرور میں ڈوبا ہوا کہتا ہے کہ: "کیا پندرہ سو لوگ بلوچستان آزاد کریں گے؟” تو وہ صرف ایک بیان نہیں دے رہا ہوتا، بلکہ استعمار کی اُس تاریخی رعونت کو دہرا رہا ہوتا ہے، جو ہر نوآبادیاتی نظام کا خاصہ رہی ہے۔ یہ بیان بلوچ قوم کے خلاف محض نفرت، تضحیک اور نسل پرستانہ غرور کی علامت نہیں، بلکہ وہ فکری زوال بھی ہے جو ہر سامراجی ذہنیت کے زوال کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے۔

یہ نوآبادیاتی بیانیہ دراصل وہی زنگ آلود نظریاتی ڈھانچہ ہے جس کی بنیاد پر سلطنتِ برطانیہ نے ہندوستان کو غلام رکھا، فرانسیسی افواج نے الجزائر میں نسل کشی کی، اور امریکی فوج نے ویتنام میں جبر کی نئی مثالیں قائم کیں۔

بلوچستان پاکستانی ریاست کا "جھومر” نہیں، بلکہ ایک متنازعہ، مقبوضہ، جنگ زدہ، حساس اور باشعور خطہ ہے۔ نوآبادیاتی ریاستی بیانیے کی ایک خاص تکنیک ہوتی ہے: الفاظ کے ذریعے زمینی حقائق کو اس طرح لپیٹ کر پیش کیا جائے تاکہ قبضے کے جسم پر غلط لغت کے غلاف چڑھا دیے جائیں۔ یہ جھومر نہیں بلکہ ریاست کے سر پر لٹکتی ہوئی وہ تلوار ہے، جو روز اس کے قبضے پر وار کرتی ہے۔

نوآبادیاتی ریاستیں اکثر اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے استعاروں کا سہارا لیتی ہیں۔ "جھومر” جیسا استعارہ اس خطے پر مسلط استعماری تسلط کو جمالیاتی قالب میں چھپانے کی کوشش ہے — گویا مظلوم کے زخموں پر پھول چپکا دیے گئے ہوں تاکہ خون نظر نہ آئے۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ سچ اپنی راہ خود بناتا ہے، اور بلوچ مزاحمت اسی سچ کی گواہی ہے۔

نوآبادیاتی قوتوں کے لیے بلوچستان صرف ایک "صوبہ” ہے، مگر بلوچ قوم کے لیے وہ ایک مملکت اور مادرِ وطن ہے — وہ وطن جس پر 27 مارچ 1948 کو قبضہ کیا گیا، اور جس کے بعد سے آج تک بلوچ سرزمین پر گولی، بارود، لاشیں، لاپتہ افراد، اجتماعی قبریں، اور برباد بستیاں، ریاستی موجودگی کی علامت بنی ہوئی ہیں۔ اگر جھومر ایسا ہوتا ہے، تو پھر ہر قیدی کی زنجیر بھی زیور کہلائی جائے گی!

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

پسنی: مسلح افراد کے ہاتھوں نوجوان جبری لاپتہ

منگل اپریل 22 , 2025
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے علاقے پسنی میں ایک نوجوان کو پیر اور منگل کی درمیانی شب نامعلوم مسلح افراد نے اس کے گھر سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ نوجوان کی شناخت 19 سالہ ایف ایس سی میڈیکل کے طالب علم میار بلوچ کے نام سے ہوئی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ