
امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ 11 مارچ کو بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے مہلک حملے میں وہ ہتھیار استعمال کیے گئے جو امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے وقت وہیں چھوڑ دیے تھے۔
یاد رہے کہ 11 مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ضلع کچھی کے علاقے مشکاف کے مقام پر بی ایل اے نے ہائی جیک کیا تھا۔ بی ایل اے نے ٹرین میں موجود 214 سیکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے بعد ہلاک کیا۔ جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں 18 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، فورسز کی جوابی کارروائی میں 33 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستانی حکام نے حملہ آوروں کے قبضے سے ملنے والی تین امریکی ساختہ رائفلوں کے سیریل نمبرز انھیں فراہم کیے تھے۔ بعد ازاں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کردہ امریکی فوجی ریکارڈز سے پتہ چلا کہ ان میں سے کم از کم دو رائفلیں ماضی میں امریکی حکومت کی جانب سے افغان نیشنل فورسز کو فراہم کی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق، ان میں سے ایک رائفل M4A1 کاربائن ہے، جس کا سیریل نمبر W1004340 ہے۔ یہ رائفل سنہ 2018 میں امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں واقع کولٹ کی فیکٹری میں تیار کی گئی تھی اور مبینہ طور پر جعفر ایکسپریس حملے میں شامل ایک حملہ آور کے قبضے سے برآمد ہوئی۔
اخبار کا کہنا ہے کہ یہ رائفل ان اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں میں شامل ہے جو امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پیچھے رہ گئے تھے۔ مزید یہ کہ گزشتہ برس مئی میں پاکستانی حکام نے ایسے درجنوں ہتھیاروں تک رسائی دی تھی، جو مختلف کارروائیوں میں مارے گئے یا گرفتار عسکریت پسندوں سے برآمد ہوئے تھے۔
ماہها کی تحقیق کے بعد امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے تصدیق کی کہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندوں کو دکھائے گئے کم از کم 63 ہتھیار وہی ہیں جو افغان فورسز کو دیے گئے تھے، اور اب وہ پاکستان میں ہونے والے حملوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔