شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ سرمچاروں نے نوشکی اور قلات میں دو مختلف کاروائیوں میں قابض پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔
انھوں نے کہاہے کہ بی ایل اے کے سرمچاروں نے آج نوشکی میں مینگل کراس کے مقام پر قابض پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی تشکیل کردہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے اہم کارندے طارق مینگل کو مسلح حملے میں ہلاک کردیا۔
مذکورہ کارندہ نوشکی شہر اور گردنواح کے علاقوں میں قابض فوج کی ایماء پر مسلح جھتوں کی سرپرستی کررہا تھا جبکہ یہ جھتہ گھروں پر چھاپوں، خواتین و بچوں کی تذلیل، جبری گمشدگیوں میں قابض فوج کی معاونت میں براہ راست ملوث پایا گیا جبکہ نوشکی میں نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی یہ مسلح جھتہ ملوث رہا ہے۔
قابض فوج ان بلوچ کش اعمال کے عیوض اس جھتے کو کھلی چھوٹ دے چکی ہے جو گزنلی کے مقام پر ڈرائیوروں سے بھتہ لینے، عام شہریوں کی تذلیل، کاروباری افراد سے بھتہ لینے اور نوجوانوں کو بلیک میل کرکے قابض فوج کیلئے کام لینے جیسے اعمال کے مرتکب تھے۔
اس نیٹورک سے منسلک دیگر تمام افراد کی شناخت ہوچکی ہے جن پر بی ایل اے کی انٹیلی جنس ونگ ‘زراب’ نظر رکھی ہوئی ہے، یہ تمام افراد براہ راست بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کے نشانے پر ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے 8 جنوری کو پندران سے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اہم کارندے محمد شاکر کو حراست میں لیا، جسے اعترافِ جرم کے بعد بلوچ قومی عدالت کے فیصلے کے تحت سزائے موت دے دی گئی۔
آلہ کار محمد شاکر قلات میں مواصلاتی کمپنی کے ٹاوروں کا سپروائزر تھا، جو قابض فوج کی ایما پر بطور ہمدرد تنظیم کے صفوں میں شامل ہوکر ٹریکنگ چِپ پہنچانے کی کوشش میں تھا۔
انھوں نے کہاہے کہ بی ایل اے کی انٹیلی جنس ونگ “زراب” کی بروقت معلومات کی بنیاد پر سرمچاروں نے محمد شاکر کو ٹریپ کرکے حراست میں لیا۔
آلہ کار محمد شاکر ولد حاجی عبدالرزاق دہوار، سکونت خاردان، نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ 2021 سے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے میجر مجتبیٰ کی سربراہی میں بطور مخبر کام کر رہا تھا۔
محمد شاکر نے اعتراف کیا کہ وہ قلات میں پاکستان فوج کے سابق کرنل عمر، ایم آئی کے افسر شاہد، صوبیدار غلام حسین، اور صوبیدار جمیل سے بھی رابطے میں تھا، جبکہ ان کا پانچ افراد پر مشتمل نیٹ ورک مخبری کا کام کرتا تھا۔
محمد شاکر نے بتایا کہ آئی ایس آئی کی جانب سے اسے تصاویر فراہم کی جاتی تھیں، جن کی بنیاد پر وہ مخبری کرتا تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ قلات کے کلی پندرانی سے نوجوان آغا اختر شاہ کی مخبری کی، جس کے نتیجے میں فوج کے اہلکاروں نے اسے جبری لاپتہ کر دیا۔ اس نے خیل کے علاقے میں بھی ایک نوجوان کی مخبری کی، جس کے گھر پر فورسز نے رات کے وقت چھاپہ مارا اور نوجوان کو جبری لاپتہ کر دیا۔
محمد شاکر نے مزید اعتراف کیا کہ اسی طرح قلات سے ایک لیویز اہلکار اور قلات کی مرکزی شاہراہ پر ایک پٹرول پمپ پر کام کرنے والے نوجوان فراز زہری، سکونت پد شار، کو قابض پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ کرنے میں ملوث تھا۔ اسی طرح کوہک میں ایک نوجوان کی مخبری کی اور اس کی ویڈیوز بنا کر پاکستانی خفیہ اداروں کو فراہم کیں، جس کے نتیجے میں اگلے روز پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے وہاں چھاپہ مارا، تاہم وہ شخص وہاں موجود نہیں تھا، البتہ فورسز نے وہاں ایک ٹیوب ویل پر کام کرنے والے پشتون کو حراست میں لے لیا۔
1/2…
شاکر نے مزید اعتراف کیا کہ پندران کے رہائشی ایک شخص کی مخبری کا ٹاسک اسے دیا گیا تھا، جو کوئٹہ منتقل ہو چکا تھا۔ کوئٹہ میں مذکورہ شخص کی مخبری کے حوالے سے اس نے کوشش کی، مگر اسے معلومات نہ مل سکیں، تاہم چند دنوں بعد مذکورہ شخص کو کوئٹہ سے لاپتہ کر دیا گیا۔
آلہ کار شاکر نے اعتراف کیا کہ قلات شہر میں اس نے اپنے ساتھی محاب کے ہمراہ ایک ہندو تاجر کو بلوچ مسلح تنظیم کے نام پر بلیک میل کر کے اس سے 15 لاکھ روپے بھتہ لیا۔
ترجمان نے کہاہے کہ آلہ کار شاکر نے انکشاف کیا کہ ان کے نیٹ ورک نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک پر مختلف “ورنا” نامی اکاؤنٹس بنا کر ان پر سرمچاروں کے حق میں پوسٹس کیں، تاکہ اس کے ذریعے نوجوانوں سے رابطہ کر کے انہیں قابض فوج کے ہاتھوں جبری لاپتہ کروایا جا سکے۔
آلہ کار نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستان فوج کے میجر نے اسے وائس میسج کے ذریعے پیغام پہنچایا (جس کی ریکارڈنگ موجود ہے) کہ “سردار شکیل کے بس میں اب کام نہیں، اسی لیے تمہیں سردار بنائیں گے، اس حوالے سے تم اپنی تیاری کرو۔”
آلہ کار محمد شاکر نے اپنے نیٹ ورک سے منسلک افراد سمیت دیگر مخبروں اور آلہ کاروں کے نام بھی افشا کیے۔
محمد شاکر کو قومی غداری کا مرتکب ہونے پر بلوچ قومی عدالت نے سزائے موت سنائی، جس پر سرمچاروں نے عمل کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ قلات شہر اور گردونواح میں قابض فوج کی پے رول پر کام کرنے والے مخبروں کو بھی محمد شاکر کی طرح ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔