زاکر مجید ایک بلوچ طالب علم تھے، جن کا تعلق ضلع خضدار کے ایک علاقے سے ہے۔ ان کی والدہ کا نام راج بی بی ہے۔ زاکر مجید کو 8 جون 2009 کو مستونگ، پڑنگ آباد سے اٹھایا گیا۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کے سینئر وائس چیئرمین تھے۔

زاکر مجید کو پاکستانی فوج نے گرفتار کیا، اور اب انہیں 15 سال ہو چکے ہیں کہ وہ غائب ہیں۔ ان کی والدہ، راج بی بی، نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں، حالانکہ ان کی آواز کو زیادہ نہیں سنا گیا۔ وہ صرف زاکر مجید کی ماں نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک قوم کی ماں ہیں، جو اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
زاکر مجید کی گمشدگی نے بلوچ قوم میں ایک تحریک پیدا کی ہے۔ بلوچ عوام ان کی بازیابی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ صرف زاکر مجید کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بڑی تحریک ہے جو بلوچوں کے حقوق اور ان کی شناخت کے لیے ہے۔ بلوچ قوم کے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا وطن زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
بلوچ عوام اب ایک ساتھ ہیں اور ان کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ وہ زاکر مجید، راشد حسین، ڈاکٹر دین محمد، اور واحد کمبر جیسے دیگر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ ایک اجتماعی کوشش ہے، جہاں ہر بلوچ اپنی قوم کے لیے آواز اٹھا رہا ہے۔
زاکر مجید زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے،اور ان کی ماں کی جدوجہد ایک مثال ہے کہ بلوچ قوم کبھی بھی اپنی شناخت اور حقوق کے لیے خاموش نہیں رہے گی۔۔۔