
شال : جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5609 دن ہو گئے ہیں، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے سیاسی اور سماجی کارکن محمد عظیم بلوچ، نور محمد بلوچ دستگیر بلوچ سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کیوائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سالوں سے بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کی شدت میں ریاست روز اضافہ کر رہا ہے ۔
بلوچوں کو جبری لاپتہ کرکے انہیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بناکر شہید کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے گھناؤنے اور غیر انسانی عوامل جاری تھے کہ ریاست پاکستان نے ان بلوچ نسل کش پالیسیوں کے شدت میں اضافہ کرتے ہوئے اب عام بلوچ شہریوں کے گھروں پر بمباری کرنے چادر و چار دیواری کی پامالی کر کے انہیں لوٹنے اور بعدازاں جلانے کا نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ریاست کی طرف سے بلوچ نسل کشی کی ایک تازہ مثال ہمیں اطلاع ملی کہ کوہلو کاہان آپریشن میں نو افراد شہید کر دیے گئے ہیں ۔ لاشوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دی گئی ہیں جبکہ ہسپتال پر فورسزز کا سخت پیرا ہے انہیں دیکھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے جس کے باعث لاشوں کی بدبو علاقے میں پھیل چکی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی نہ ہو۔
اس وقت بلوچستان میں ایک سنگین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ۔ ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ ریاستی فورسز کی گزشتہ دو مہینے میں مزید شدت پائی کاروائیاں اس امکان کو مستحکم کرتی ہیں کہ اب ریاست پاکستان بلوچستان کسی عالمی قانون کو خاطر میں لانے کا لانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور بلوچ پرامن جدوجہد کو کچلنے کیلیے اپنے پیش رو قابضوں کی طرح سروں کا مینارکھڑا کرنے سے بھی نہیں چونکے گا آواران جاو میں 5 سے زائد بلوچوں کو شہید کر کے نا صرف درجنوں بلوچوں کو جبری اغوا کر کے اپنے عقوبت خانوں میں منتقل کر چکے ہیں بلکہ آبادیوں کے آبادی جلا کر خاکستر کر چکے ہیں
مشکے میں بھی آہے روز کے فضائی اور زمینی آپریشنوں میں لوگوں کو شدید جانی مالی نقصانات سے دوچار کرچکے ہیں اور ساتھ ساتھ گزشتہ ایک ہفتہ سے قلات کے ملحقہ دیہی علاقوں میں کو اپنے فوج کے ذریعے گھیرے میں لیکر عام آبادیوں کا راشن پانی کے سارے ذرائع مسدود کر چکے ہیں ۔