
تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچ وطن کی تاریخ لازوال قربانیوں، جدوجہد اور آزادی کے آدرشوں سے عبارت ہے۔ یہ خطہ ہزاروں سال سے تہذیب، جغرافیہ، ثقافت، زبان اور ایک خودمختار قومی وجود کا علامت رہا ہے۔ مگر آج بلوچ قوم ایک ایسے نوآبادیاتی شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے جس نے ہماری قومی شناخت، وسائل اور آزاد مستقبل پر جبر و استحصال کے ذریعے قبضہ جما رکھا ہے۔بلوچ تحریکِ آزادی، اس جبری قبضے کے خلاف ایک فطری اور جائز ردعمل ہے؛ جو دنیا کے ہر آزاد سماج کے اقدار سے ہم آہنگ ہے۔ لیکن پنجابی کالونائزر ، نوآبادیاتی پروپیگنڈا کے پرانے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ وہ بلوچ جدوجہد کو "ہندوستان کا فتنہ” قرار دے کر حقائق کو مسخ کرنے کی مکروہ لاحاصل میں مصروف ہیں۔ یہ وہی فرسودہ منطق ہے جو ہر استعماری طاقت ہر تحریک آزادی کے خلاف استعمال کرتی آئی ہے۔
تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم اپنی زمین، شناخت اور آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو قابض قوتیں اس مزاحمت کو "بیرونی سازش” قرار دیتی ہیں۔ یہی تاریخ آج بلوچ وطن میں دہرائی جا رہی ہے۔بلوچ تحریکِ آزادی کوئی حادثاتی ابھار نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ایک تسلسل ہے۔ یہ جدوجہد، انگریز سامراج، پنجابی نوآبادیاتی قبضہ کے خلاف ایک مستقل مزاحمت ہے۔
جب بلوچ قوم ایک بار پھر سیاسی اور مسلح مزاحمت کے ذریعے اپنے قومی وجود کے لیے جدوجہد کر رہی ہے تو پاکستانی ریاست اپنے مخصوص نوآبادیاتی حربوں کے تحت اس تحریک کو "ہندوستان کی سازش” قرار دے رہی ہے تاکہ اپنی اخلاقی اور اعصابی شکست کو چھپا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی بھی مجرمانہ کوشش کر رہی ہے۔
دنیا کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ نوآبادیاتی طاقتیں جب اپنی گرفت کمزور ہوتی دیکھتی ہیں تو مزاحمتی تحریکوں کو دبانے کے لیے مخصوص بیانیے گھڑتی ہیں۔ وہ کسی قوم کی جائز جدوجہدِ آزادی کو "فتنہ”، "بغاوت” یا "فساد” قرار دے کر ظلم کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی حربہ آج بلوچ تحریکِ آزادی کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
"فتنہ الہند” جیسے پروپیگنڈا جملے اسی سلسلے کی کڑی ہیں، جن کا مقصد عالمی برادری اور انسان دوست قوتوں کو گمراہ کرنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر ان اصطلاحات کے پیچھے کس کی کمزوری جھلکتی ہے؟ درحقیقت یہ خود ریاستِ پاکستان کی نفسیاتی اور اخلاقی شکست کا اظہار ہے؛ ایک ایسی ریاست جو نوآبادیاتی سازشوں کی پیداوار ہے اور جس کا وجود بھی سامراجی مفادات کا پروردہ ہے۔
پاکستان کا وجود، آزادی کی کسی جدوجہد کا حاصل نہیں بلکہ برطانوی سامراج کی نوآبادیاتی انجینئرنگ کا نتیجہ ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی حکمتِ عملی کے تحت، ہندوستان کو تقسیم کر کے ایک ایسی مصنوعی ریاست قائم کی گئی جس کا مقصد نوآبادیاتی مفادات کا تحفظ تھا۔پاکستان دراصل انگریز کی وفادار اشرافیہ اور خاص طور پر پنجابی فوجی طبقے کے لیے بنایا گیا تھا، جنہوں نے برٹش راج کے دوران ہندوستانی آزادی پسندوں کے خلاف سامراجی افواج کے شانہ بشانہ قتلِ عام میں حصہ لیا۔
تاریخ کے سنجیدہ طلبہ جانتے ہیں کہ برطانوی سامراج کے ساتھ مل کر جو طبقہ ہندوستانی عوام پر ظلم ڈھانے میں پیش پیش تھا، ان میں نمایاں تعداد پنجاب سے بھرتی ہونے والے سپاہیوں کی تھی۔ ان "رنگروٹ زادوں” نے انگریز کے مفادات کے لیے لاکھوں ہندوستانیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔جب ہندوستان آزادی کے قریب پہنچا تو انگریز بخوبی جانتے تھے کہ ایک خودمختار ہندوستان میں ان وفادار غلاموں کا انجام عبرتناک ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے ان کی بقا کے لیے ایک علیحدہ ریاست تخلیق کی۔ یہی ریاست پاکستان کا پس تاریخ ایک غیر فطری وجود، جو دراصل سامراجی مفادات کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔
بلوچ تحریکِ آزادی کو "را” یا "ہندوستانی سازش” قرار دینا، دراصل نوآبادیاتی سوچ کی توسیع ہے۔ ایک حقیقی قومی مزاحمت کو بیرونی ایجنڈا کہنا، محض کمزور ذہنیت اور غیر اخلاقی پروپیگنڈے کا مظہر ہے۔یہ وہی ذہنیت ہے جس نے برطانوی راج کے دوران بھی آزادی کے علمبرداروں کو "باغی” اور "فتنہ پرداز” قرار دیا تھا۔ آج بلوچ جدوجہد کے خلاف بھی یہی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ آزادی کے مطالبے کو دہشت گردی اور بیرونی سازش کے خانے میں ڈال کر دبایا جا سکے۔لیکن سچ یہ ہے کہ بلوچ تحریکِ آزادی ایک فطری اور جائز قومی مزاحمت ہے، جو ہر طرح کے نوآبادیاتی قبضے اور سامراجی ظلم کے خلاف جاری ہے۔ یہ جدوجہد نہ کبھی رکی ہے اور نہ رکے گی۔ اس تحریک کے خلاف "فتنہ الہند” جیسے بیانیے گھڑنے والوں کی کمزوری اور اخلاقی دیوالیہ پن وقت کے ساتھ مزید عیاں ہوتا جائے گا۔
برطانوی سامراج نے ہندوستان کو تقسیم کر کے ایک ایسی مصنوعی ریاست بنائی جسے "ریاست” کہنا خود ریاست کے تصور کی توہین ہے۔ پاکستان دراصل برطانوی نوآبادیاتی مفادات کے تحفظ و تسلسل کا آلہ کار ہے۔
پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل ڈگلس گریسی ایک انگریز تھے۔ 1947 کے بعد بھی انگریزی جرنیل ہی اس کی فوج کی کمان سنبھالتے رہے۔ پاکستان دراصل انگریز کی وفادار اشرافیہ کے لیے بنایا گیا تھا، خصوصاً وہ پنجابی فوجی طبقہ جو برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں قتل عام کا حصہ بنا تھا۔یہ وہی "رنگروٹ زادے” تھے،
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ برطانوی راج کے دوران "برٹش انڈین آرمی” میں شامل بڑی تعداد میں سپاہی، خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سپاہیوں نے برطانوی سامراج کے وفادار کارندے بن کر ہندوستانی قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ یہ طبقہ آج بھی اس نوآبادیاتی ورثے کو اپنے ماتھے سے لگائے ہوئے ہے۔
انگریز سامراج نے ہندوستان پر اپنی حکومت کے دوران مقامی پنجابی تنخواہ خور دستوں کو اکثر اپنے نوآبادیاتی مفادات کے لیے استعمال کیا، جن میں بڑی تعداد پنجابی سپاہیوں کی تھی۔ یہ سپاہی مختلف طریقوں سے ہندوستانی قوم کے خلاف برطانوی ظلم و جبر میں شریک رہے۔ ان کا کام بغاوتوں کو کچلنا، مظاہروں پر گولیاں چلانا اور انگریز حکام کے حکم پر تشدد آمیز کارروائیاں کرنا تھا۔
تاریخ کے ایک المناک باب، جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام میں بھی یہی پنجابی سپاہی پیش پیش تھے۔
13 اپریل 1919ء کو جنرل ڈائر نے نہتے عوام پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس خونی واقعے میں گولیاں برسانے والے سپاہیوں کی اکثریت پنجابی رنگروٹوں پر مشتمل تھی۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق تقریباً 1650 گولیاں چلائی گئیں، جن کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ ہندوستانی شہید ہوئے
پنجابی سپاہیوں کے ہاتھوں خونریزیاں صرف جلیانوالہ باغ تک محدود نہیں رہیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب دہلی، لکھنؤ، جھانسی اور کانپور میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت ہوئی تو قابض حکومت نے انہی پنجابی سپاہیوں کو ان مزاحمتوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ دہلی میں مغل سلطنت کے خاتمے میں بھی انہی پنجابی دستوں نے اہم کردار ادا کیا۔بعد ازاں، جب ہندوستان میں کسان اور مزدور تحریکوں نے سر اٹھایا، تو ان کے خلاف بھی یہی پنجابی فوجی بھیجے گئے۔1919ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف پورے ہندوستان میں مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کو دبانے میں بھی پنجابی رجمنٹس کو استعمال کیا گیا۔
برطانوی راج نے نہ صرف ہندوستان بلکہ افغانستان، برما اور مشرقی افریقہ میں بھی پنجابی سپاہیوں کو اپنی نوآبادیاتی جنگوں میں جھونکا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن لوگوں پر خود انگریز سامراج ظلم کرتا تھا، ان میں سے ایک بڑی تعداد انگریز کی فوج میں بھرتی ہوکر اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف برطانوی مفادات کی محافظ بن گئی۔
بلوچستان کی تاریخ بھی ان ہی سامراجی ہتھکنڈوں کا شکار رہی ہے۔ اگر زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ 11 اگست 1947ء کو ریاست قلات، جو موجودہ بلوچستان کا مرکزی حصہ تھی، نے آزادی کا اعلان کیا۔ریاست قلات کے دونوں پارلیمانی ایوانوں نے پاکستان سے الحاق نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بلوچستان ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن مارچ 1948ء میں پاکستان نے فوجی یلغار کے ذریعے قلات پر قبضہ کر لیا۔ یہ "الحاق” نہیں بلکہ ایک جبری قبضہ تھا، جو آج تک بلوچ تحریکِ آزادی کی بنیاد ہے۔
بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کوئی نئی بات نہیں۔ یہ انیسویں صدی سے انگریز سامراج کے خلاف جاری مزاحمت کا تسلسل ہے۔27 مارچ 1948ء کو ریاست قلات کے خلاف فوجی کارروائی کر کے بلوچستان کو زبردستی پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ یہ عمل ایک نوآبادیاتی جارحیت تھی جو آج بھی بلوچ عوام کے دلوں میں ایک تازہ زخم کی مانند زندہ ہے۔بلوچ قوم ہمیشہ اپنی زمین پر ایک خودمختار اور خوددار قوم رہی ہے۔ اس کی جدوجہد غلامی کے خلاف، اپنی سرزمین اور شناخت کے تحفظ کے لیے ہے۔
بلوچوں کا تاریخی حوالہ ہمیں یونانی مورخ ہیروڈوٹس (پانچویں صدی قبل مسیح) کے ہاں ملتا ہے، جو "گیدروشیا” (Gedrosia) کے باشندوں کے طور پر بلوچ قوم کا ذکر کرتا ہے۔
بعد ازاں، بابا حمزہ الشاری میر جلال خان چاکر و گوہرام کے تسلسل میں خانیتِ قلات کی تشکیل سترہویں صدی میں وجود میں آئی بلوچوں کی سیاسی خودمختاری کا ایک نمایاں سنگِ میل تھی۔
ڈاکٹر فاروق بلوچ کے مطابق بلوچ ایک قدیم قوم ہے، جو زمانۂ قبل از تاریخ سے ہندوستان اور ایران کے درمیان کی سرزمین پر آباد چلی آ رہی ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بلوچوں نے ہمیشہ اپنی آزادی کا دفاع کیا۔ وہ سائرسِ اعظم (ایرانی)، سکندرِ اعظم (یونانی)، ساسانیوں، عربوں، ہندو راجوں، منگولوں، غزنویوں، آلِ بویہ، برطانوی سامراج اور ہر بیرونی حملہ آور کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ بلوچ قوم نے ہر قابض کے خلاف اپنی مدافعتی قوت استعمال کی اور غلامی کو مسترد کیا۔
آج جب بلوچ تحریکِ آزادی کو "فتنہ الہند” قرار دیا جا رہا ہے، تو یہ نہ صرف پنجابی ریاست کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے بلکہ بلوچ تاریخ اور جدوجہدِ آزادی سے دانستہ لاعلمی یا پروپیگنڈہ ہے۔
تاریخِ عالم گواہ ہے کہ ہر نوآبادیاتی طاقت اپنے قبضے کو دوام دینے کے لیے صرف بندوق اور توپ کا سہارا نہیں لیتی، بلکہ الفاظ، اصطلاحات اور پروپیگنڈے کا جال بھی بُنتی ہے۔ قابض ریاستوں کی ہمیشہ یہی پرانی منطق رہی ہے:
جب بھی کوئی مقبوضہ قوم اپنی آزادی کی بات کرے، اسے "بیرونی ایجنٹ”، "سازشی”، "غدار” یا "دہشت گرد” قرار دے دیا جاتا ہے۔پاکستانی ریاست کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ بلوچ تحریکِ آزادی کے خلاف جو لغت، الفاظ اور پروپیگنڈا استعمال ہو رہا ہے، وہ نوآبادیاتی تاریخ کا پرانا ہتھیار ہے جسے آج نئی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں یہی حربہ اپنایا جاتا رہا ہے۔ ہر وہ قوم جو قابض ریاست کے تسلط کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے، اسے بیرونی سازش سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو نظر آتا ہے کہ:ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے سپاہیوں کو "جرمن ایجنٹ” کہا گیا۔الجزائر کی آزادی کی تحریک کو فرانس نے "سوویت پراکسی” قرار دیا۔
ویتنام کے ویت کانگ کو "کمیونسٹ ایجنٹ” کہہ کر بدنام کیا گیا۔افریقہ میں جب نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت ہوئی، تو برطانوی استعمار نے ان تحریکوں کو "وحشیانہ بغاوتیں” کہا۔
آج یہی بیانیہ پاکستانی ریاست کے پنجابی کالونائزر، ان کے میڈیا اینکر، کاسہ لیس دانشور، کٹھ پتلی پارلیمنٹرین اور درباری ملّا استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچ تحریکِ آزادی کو "را کا پروجیکٹ”، "بھارتی ایجنڈا” اور "دہشت گردی” قرار دینا دراصل اسی نوآبادیاتی ذہنیت کا تسلسل ہے۔
لیکن سوال یہ ہے:کیا کوئی قوم اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے کسی ریاست سے اجازت لیتی ہے؟کیا سامراج سے آزادی کی خواہش کے لیے منظوری کی پرچی درکار ہوتی ہے؟
آزادی کوئی اجازت نامہ نہیں، یہ انسانوں اور قوموں کی تاریخ کی سب سے بنیادی جبلّت ہے۔جب کسی قوم کے وسائل لوٹے جائیں، زبان مسخ کی جائے، ثقافت روندی جائے، زمین پر قبضہ ہو، اور نسل کشی کو معمول بنا دیا جائے،تو ایسے میں مزاحمت جرم نہیں بلکہ فطری عمل بن جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں بھی واضح ہے کہ ہر قوم کو اپنی خودمختاری، آزادی اور اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا حق حاصل ہے۔ بلوچ تحریکِ آزادی بھی اسی بنیادی انسانی حق کا تسلسل ہے،یہ کسی ریاست کی پراکسی نہیں، بلکہ بلوچ قوم کی بقا، شناخت اور آزادی کی جدوجہد ہے۔آزادی کا حق کسی ریاست کے دستخط یا اجازت سے مشروط نہیں۔
جنوبی سوڈان نے خرطوم کی مرضی کے بغیر آزادی حاصل کی، مشرقی تیمور نے انڈونیشیا کے انکار کے باوجود خود کو آزاد کروایا۔ دنیا کی ہر مقبوضہ قوم نے اپنے حق کے لیے خود ہی راستہ تراشا ہے۔ بلوچ قوم کی مزاحمت کو محض ایک بیرونی انٹیلیجنس پروجیکٹ قرار دینا ایک سستی اور جھوٹی ریاستی ذہنیت کا عکاس ہے۔ یہ بیانیہ دراصل قابض ریاست کی کمزوری اور اخلاقی شکست کا ثبوت ہے۔
جب کوئی ریاست بندوق اور پروپیگنڈے کے باوجود کسی قوم کی تحریکِ آزادی کو دبانے میں ناکام ہو جائے تو وہ ہمیشہ یہی کہتی ہے کہ یہ سب کسی بیرونی سازش کا نتیجہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قوم کی جدوجہد اپنی سرزمین، اپنی تاریخ، اپنی شناخت اور اپنے آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔
جب کوئی ریاست کسی قوم کو مقبوضہ بنا کر اس کے شہری، انسانی، اخلاقی، سیاسی اور سماجی حقوق پامال کرے، جب روزانہ کی بنیاد پر فرضی مقابلوں میں قتل، جبری گمشدگیاں اور نسل کشی معمول بن جائے، تو ایسی ریاست کی اخلاقی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ محض ایک قابض بن کر رہ جاتی ہے جو اپنے قبضے کو قائم رکھنے کے لیے ظلم کرتی ہے، جنگی جرائم چھپانے کے لیے جھوٹا بیانیہ گھڑتی ہے اور بندوق کے سائے میں دھونس و جبر سے اپنی طاقت کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
لیکن تاریخ کا پہیہ کبھی روکا نہیں جا سکتا۔
آج اگر بلوچ قومی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ کل یہی جدوجہد تحریکِ آزادی کے سفر میں ایک نئے باب کے طور پر لکھی جائے گی۔آج کے "غدار”، کل کے رہنما ہوتے ہیں۔آج کے "پراکسی”، کل کے آزادی کے معمار بن جاتے ہیں۔یہ تاریخ کا اٹل اصول ہے۔
آزادی نہ کسی ریاست کے احسان سے ملتی ہے، نہ کسی کے اجازت نامے سے۔آزادی وہ حق ہے جو قومیں اپنے لہو، اپنی قربانیوں اور اپنی غیرت سے خریدتی ہیں۔دنیا کی نوآبادیاتی تاریخ میں ایک اصول ہمیشہ ناقابلِ تردید رہا ہے:
ہر وہ قوم جسے جبر، استحصال اور غلامی میں دھکیلا گیا، اس نے اپنی بقا اور آزادی کے لیے آواز بلند کی۔بلوچ قوم کی جدوجہد اسی اصول کی زندہ تعبیر ہے۔
یہ زمین کی بازیابی، تاریخ کو درست کرنے، شناخت کو بحال کرنے اور غلامی کے کلنک کو اپنے ماتھے سے صاف کرنے کی تحریک ہے۔
بلوچ نوجوانوں کا ریاستی بیانیے سے انکار دراصل نوآبادیاتی نفسیات کے خلاف ایک اعلان ہے۔جب بلوچ نوجوان اپنے شہیدوں کی قبروں پر پھول رکھتے ہیں تو وہ دراصل اس جھوٹ کو دفن کرتے ہیں جس میں ان کی مزاحمت کو غداری کہا گیا تھا۔دنیا کے جغرافیے بدلتے رہتے ہیں، لیکن تاریخ کا شعور زندہ رہتا ہے۔
بلوچ قوم آج جس عزم کے ساتھ اپنی آزادی کے خواب کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ہے، وہ اس صدیوں پرانی جدوجہد کا تسلسل ہے جو انسان نے غلامی کے خلاف لڑی۔بلوچ قومی تحریک نہ ہندوستان کا "فتنہ” ہے، نہ کسی بیرونی سازش کا نتیجہ۔یہ تاریخ کے ایک زخم کا مداوا ہے؛ وہ زخم جو نوآبادیاتی قبضے نے دیا۔جب کوئی قوم اپنے خون سے اپنے حقِ آزادی کی عبارت لکھتی ہے تو وہ دنیا کے ہر زندہ ضمیر انسان سے یہی سوال کرتی ہے:کیا انسان کی آزادی بھی کسی قابض ریاستی اجازت کی محتاج ہے؟
"کیا غلامی قبول کرنا انسانیت ہے؟ یا آزادی کے لیے لڑنا انسانیت ہے؟”بلوچ تحریکِ آزادی دراصل اسی سوال کا جواب ہے اور یہ جواب بالکل واضح ہے:آزادی کوئی جرم نہیں، بلکہ کسی انسان اور قوم کا بنیادی حق ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر 1514 (1960ء) میں صاف لکھا ہے:”تمام اقوام کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ جبری قبضہ، استحصال اور نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔”بلوچ قوم اسی اصول کی بنیاد پر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان عالمی سطح پر خود کو "دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی” کہہ کر دنیا کی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کی نرسری اور دہشت گردوں کا خالق ہے۔
وہ بلوچ تحریکِ آزادی کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر اپنی خفت مٹانے کے لیے اس جدوجہد کو دہشت گردی کے زمرے میں پیش کرتا ہے اور جھوٹا بیانیہ گھڑتا ہے۔
عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے اس جھوٹے بیانیے کا سختی سے نوٹس لے اور اسے جواب دہ کرے۔
اگر عالمی برادری بلوچ تحریکِ آزادی کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تو یہ فقط اندھا پن نہیں، بلکہ کم نظری اور منافقت کا ثبوت ہے۔
اگر آج تک اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اور آزادی پسند ممالک پاکستان کو اس کے جرائم پر جواب دہ نہیں ٹھہراتے، اس کے جھوٹ کو بے نقاب نہیں کرتے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:کیا بلوچ نسل کشی پر عالمی ضمیر کی خاموشی، مظلوم کے خون میں شریک ہونے کے مترادف نہیں؟اگر کوئی ملک بلوچ جدوجہد اور زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے بلوچ تحریکِ آزادی کی بلاواسطہ یا براہِ راست حمایت کرتا ہے، تو کیا یہ غیر اخلاقی یا غلط بات ہے؟
یہ کہنا کہ”جو بھی بلوچ تحریکِ آزادی کی حمایت کرے گا وہ پاکستان کا دشمن ہے”خود سامراجی ذہنیت اور نوآبادیاتی سوچ کا اظہار ہے۔جب دنیا کشمیریوں، فلسطینیوں یا تبتی عوام کی حمایت کرتی ہے تو وہ انصاف کا علم بلند کرتی ہے۔
اسی طرح بلوچ تحریکِ آزادی کی غیر مشروط حمایت بھی عالمی انصاف اور انسانی حقوق کا تقاضا ہے۔
اگر فلسطین کے مظلوموں کے حق میں عالمی حمایت درست ہے، تو بلوچ قوم کی آزادی کی حمایت کیوں غلط ہو؟
یہ نہ کسی ملک کی پراکسی ہے، نہ دہشت گردی، نہ بیرونی ایجنڈا، نہ مذہبی یا فرقہ وارانہ تصادم؛یہ خالصتاً آزادی کی جنگ ہے۔
دنیا میں یہ پہلا موقع نہیں کہ کوئی قوم نوآبادیاتی طاقت کے خلاف کھڑی ہوئی ہو۔ تاریخ میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں مقبوضہ اقوام نے طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔
خود چین، جو آج پاکستان کا قریبی دوست کہلاتا ہے، اور بلوچ دشمنی میں ہر حد پار کر چکا ہے۔آزادی کی جنگیں لڑ چکا ہے۔ چین بخوبی جانتا ہے کہ آزادی کی تحریکوں کو کوئی ایمپائر کوئی کالونائزرشکست نہیں دے سکتی۔
یہ جدوجہد نہ تو ریاستی پروپیگنڈے سے ختم ہو سکتی ہے اور نہ ہی فوجی طاقت سے دبائی جا سکتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کبھی بھی دائمی نہیں ہوتا۔
دنیا کے بڑے بڑے سامراجی نظام، جیسے رومن ایمپائر اور برطانوی سامراج، ملیامیٹ ہو گئے۔پاکستان کوئی ان سے بڑی طاقت نہیں۔
اگر عالمی برادری واقعی انسانی حقوق، آزادی اور انصاف کے اپنے دعوے میں مخلص ہے تو اسے بلوچ قوم کے حق میں کھل کر غیر مشروط حمایت کا علم بلند کرنا ہو گا۔
کیونکہ خاموشی، ہمیشہ ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہوتی ہے،اور تاریخ ہمیشہ ظالموں کو کٹہرے میں لے آتی ہے۔
"فتنہ” اور "غداری” جیسے الفاظ ہمیشہ سے نوآبادیاتی طاقتوں کے پسندیدہ ہتھیار رہے ہیں۔جب کوئی قابض ریاست اپنی اندرونی شکست کو چھپانے کے لیے بیرونی سازشوں کا شور مچاتی ہے، تو درحقیقت یہ اس کی اخلاقی اور نفسیاتی پسپائی کا اعتراف ہوتا ہے۔
بلوچ تحریک کو "ہندوستان کا فتنہ” قرار دینا دراصل اس تاریخی حقیقت سے فرار کی کوشش ہے کہ پاکستان کی اپنی تخلیق بھی ایک سامراجی منصوبہ تھی۔وہ طبقہ جو کبھی انگریز کے لیے ہندوستانیوں کا خون بہا رہا تھا، آج بلوچ قوم پر اپنی مرضی مسلط کر رہا ہے۔بلوچ تحریک کوئی فتنہ نہیں بلکہ ایک قوم کی آزادی کی جائز، منطقی اور اصولی جدوجہد ہے۔اسے ہندوستان سے جوڑنا محض ایک پروپیگنڈہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اپنی اخلاقی ساکھ کھو چکا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ نوآبادیاتی بیانیے، چاہے جتنے بھی طاقتور ہوں، سچ کو زیادہ دیر دبائے نہیں رکھ سکتے۔وقت آتا ہے جب حق اپنی جگہ لے لیتا ہے اور غلامی کا نظام مٹ جاتا ہے۔تاریخ ہمیشہ جبر کو دفن کر دیتی ہے۔دنیا کی تاریخ میں ایک اصول ناقابلِ تردید رہا ہے:”طاقت، ظلم کو وقتی طور پر کامیاب کر سکتی ہے، لیکن قوموں کی آزادی کو ہمیشہ کے لیے دبایا نہیں جا سکتا۔”
آج عالمی ضمیر کے سامنے فیصلہ کن لمحہ ہے:وہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوگا یا جابر کے ساتھ؟تاریخ نے ہمیشہ مظلوم کے حق میں فیصلہ کیا ہے، اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔
اگر بلوچ قوم واقعی ہندوستان کے کہنے پر لڑ رہی ہوتی، تو کیا بلوچ شہداء اپنی جانیں کسی بیرونی ایجنڈے کے لیے قربان کرتے؟کیا بلوچ عورتیں اور بچے گولیوں، جبری گمشدگیوں اور جبر کی چکی میں محض کسی دوسرے ملک کے اشارے پر پس رہے ہیں؟یہ سوال بذاتِ خود ریاستی بیانیے کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچ عوام اپنی سرزمین، اپنی شناخت اور اپنے آزادی کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔
دنیا کے جتنے بھی مہذب معاشرے ہیں، ان کی بنیاد انسانی حقوق اور آزادی پر رکھی گئی ہے۔تو کیا کسی مقبوضہ قوم کی غیر مشروط حمایت کو "دشمنی” کہا جا سکتا ہے؟
کیا بلوچ عوام کی آزادی کی حمایت عالمی اصولوں سے متصادم ہے؟ہرگز نہیں!جبری قبضہ، فوجی آپریشن، اجتماعی قبریں، جبری گمشدگیاں اور نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانا انسانی اقدار کا تقاضا ہے۔اگر کوئی ملک بلوچ تحریکِ آزادی کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے تو یہ انصاف، انسانیت اور عالمی اخلاقیات کا حصہ ہے، نہ کہ کسی کے خلاف سازش۔
بلوچستان صرف معدنی وسائل سے مالا مال نہیں بلکہ تہذیب، ثقافت اور علم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔
بلوچ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں؛ یورپ، مشرقِ وسطیٰ، خلیج اور افریقی ممالک میں بلوچ کمیونٹیز عالمی برادری کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔بلوچ عالمی انسانی برادری کا حصہ ہیں۔ ان کی آواز کو دبانا عالمی انصاف کے اصولوں سے انحراف ہے۔یہ تحریک عالمی برادری کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں انسانیت، انصاف اور اخلاقیات کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔اگر دنیا واقعی انصاف پر یقین رکھتی ہے تو بلوچ عوام کی غیر مشروط حمایت اس کا اخلاقی فرض ہے۔
خاموشی جبر کا ساتھ دینا ہے، اور ساتھ دینا ظلم میں شراکت ہے۔بلوچستان کی سرزمین اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے خون سے رنگین ہے، مگر ان کے خواب آج بھی زندہ اور آزاد ہیں۔یہ خواب نہ دبائے جا سکتے ہیں، نہ جھٹلائے جا سکتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ نوآبادیاتی قبضے، جبری الحاق، اور قوموں کی غلامی کے خلاف ہر مزاحمتی تحریک نے اپنی بقا اور کامیابی کے لیے بین الاقوامی حمایت طلب کی ہے۔ آج بلوچ قوم بھی اپنی بقا، قومی تشخص اور آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ کو عالمی اصولوں کے تناظر میں دیکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ بلوچ جدوجہد کو دانستہ طور پر "پراکسی وار” یا "بیرونی سازش” قرار دینے والے بیانیے کا علمی، اخلاقی اور منطقی محاکمہ کیا جا سکے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آزادی ہر قوم کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 1514 (Decolonization Declaration, 1960) واضح الفاظ میں کہتی ہے:”تمام اقوام کو آزادی کا حق حاصل ہے؛ وہ اپنی سیاسی حیثیت خود طے کریں اور اپنی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو خود منظم کریں۔”
بلوچ قوم کی جدوجہد اس اصول کا عین مظہر ہے۔ یہ جنگ محض کسی ریاست کے اندرونی معاملے کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ نوآبادیاتی جبر کے خلاف ایک کلاسیکی مثال ہے۔ اس سیاق میں بین الاقوامی برادری کی حمایت محض اخلاقی تقاضا نہیں بلکہ قانونی اور تاریخی ذمہ داری ہے۔
تاریخ میں ہر آزادی پسند تحریک نے بیرونی مدد حاصل کی۔ امریکا کی جنگِ آزادی میں فرانس کی مدد، ویتنام کی مزاحمت میں سوویت یونین اور چین کی پشت پناہی، الجزائر کی آزادی میں عرب ممالک کی حمایت، یا جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف تحریک، سب نے عالمی حمایت حاصل کی۔ کیا ان تمام تحاریک کو محض پراکسی جنگیں قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں!
بلوچ جدوجہد بھی اسی تاریخی اور اصولی دائرے میں آتی ہے۔ اگر کوئی قوم بین الاقوامی برادری سے سفارتی، اخلاقی، مالی یا فوجی مدد طلب کرے تو یہ عالمی اصولوں کے عین مطابق ہے، نہ کہ پراکسی بننے کی علامت۔
تاریخی طور پر نوآبادیاتی طاقتیں ہمیشہ آزادی کی تحریکوں کو بیرونی سازش قرار دیتی رہی ہیں تاکہ ان کی اخلاقی برتری کو داغدار کیا جا سکے۔ یہی طریقہ کار آج پاکستانی ریاست بھی استعمال کر رہی ہے۔ بلوچ جدوجہد کو "ہندوستانی سازش” قرار دینا، ریاستی جبر کو چھپانے اور بلوچ قومی مزاحمت کو بدنام کرنے کی مکروہ ہتکھنڈے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے:کیا دنیا بھر کے مقبوضہ قوموں نے کبھی بغیر عالمی مدد کے آزادی حاصل کی ہے؟
بلوچ قومی قیادت کو چاہیے کہ وہ عالمی فورمز پر اپنی آواز کو منظم، مدلل اور موثر انداز میں پیش کرے۔ یہ بیانیہ واضح ہونا چاہیے: کہ بلوچ قوم اقوامِ عالم سے سفارتی حمایت مانگتی ہے، تاکہ عالمی ادارے نوآبادیاتی جبر کو تسلیم کریں۔بلوچ تحریک عالمی انسانی ضمیر سے اخلاقی مدد کی توقع رکھتی ہے، کیونکہ یہ جنگ انسانیت کے وقار کی جنگ ہے۔
بلوچ قومی تحریک اپنے دوست ممالک سے مالی اور دفاعی تعاون کا مطالبہ کرتی ہے تاکہ اپنے لوگوں کی حفاظت کر سکے۔ یہ مطالبہ کسی بھی آزادی پسند تحریک کا بنیادی حق ہے۔
آج دنیا بھر میں انسانی حقوق، جمہوریت، اور آزادی کے نعروں کی گونج ہے۔ لیکن جب یہ نعرے محض طاقتور اقوام کے مفادات کے تابع ہو جائیں، تو ان کی ساکھ کمزور ہوتی ہے۔
اگر عالمی برادری فلسطین، کشمیر، تبت کے حق میں آواز اٹھا سکتی ہے، تو بلوچ قوم کیوں اس اخلاقی حمایت سے محروم رہے؟عالمی ضمیر کی آزمائش یہی ہے کہ وہ بلوچ قومی جدوجہد کو جائز تسلیم کرے اور اس کی مدد کرے تاکہ ایک مقبوضہ قوم نوآبادیاتی جبر سے آزادی حاصل کر سکے۔
بلوچ تحریک ایک اصولی تحریک ہےبلوچ قوم کی جنگ آزادی کوئی "پراکسی” نہیں، یہ غلامی کے خلاف ایک اصولی، جائز اور فطری جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد میں عالم انسانیت کی مدد مانگنا نہ کوئی جرم ہے، نہ سازش۔یہ تقاضا عالمی اخلاقیات، اقوام متحدہ کے چارٹر، اور تاریخ کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا: کیا وہ انصاف کے ساتھ کھڑی ہوگی یا خاموش تماشائی بنے گی؟