ڈاکٹر اللہ نذر، بام اور امانت

تحریر: دل مراد بلوچ زرمبش مضمون

کسی زمانے میں، میں فوٹوگرافر ہوا کرتا تھا۔ فوٹوگرافی کا کوئی علم تو نہ تھا لیکن شوق اور کیمرا دونوں اچھے تھے۔ ہزاروں تصویریں کھینچیں  جو آج تک ہارڈ ڈرائیوز میں قید ہی ہیں، ایک جانب میری سستی اور دوسری جانب سوشل میڈیا پر تصاویر کی بے توقیری دیکھ کر دل نہیں چاہتا کہ انہیں قید سے نکالوں یا شاید میری دور رفتہ از کار ذہنیت سوشل میڈیا کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

سوشل میڈیا میں تصاویر کا رف استعمال دیکھ کر دل نہیں کہتا کہ انہیں آزاد کروں، سو اب تک ہزاروں تصاویر مجھے کوس رہے ہیں۔

انھی میں سے ایک تصویر ہے جو ایک ڈاکٹر اللہ نذر کو بہت پسند آئی۔ دل کہتا ہے کہ آج اسے قید سے آزاد کر دوں۔

یہ 2014 کی بات ہے۔ میں ڈاکٹر منان جان کے ساتھ کولواہ کے دورے پر تھا، چند اور ساتھی بھی تھے۔ ایک دن منان جان نے کہا: "چلو، آج ڈاکٹر اللہ نذر کے پاس چلتے ہیں۔” وہ ہم سے کافی فاصلے پر تھے، دو موٹرسائیکلوں پر مشتمل ہمارا قافلہ چل نکلا۔

ڈاکٹر منان اور ڈاکٹر اللہ نذر۔۔۔ رشتہ دار، بچپن کے دوست اور کلاس فیلو، ان سب سے بڑھ کر نظریاتی رفیق بھی۔ وہاں پہنچے تو منان جان کے قہقہوں اور ڈاکٹر اللہ نذر کی بذلہ سنجی نے سماں باندھ لیا۔ آسائش کا کوئی نام و نشان نہ تھا لیکن ‘ہرجا کہ شاہ نشین است، شاہ است’ ایسی جگہوں پر یہ باتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔

ہم نے غالبا ڈاکٹر صاحب کے پاس دو راتیں گزاریں۔ میں نے دونوں ڈاکٹر صاحبان کی کئی تصویریں کھینچیں، مگر انہیں کبھی شائع نہیں کیا۔ ان کے ساتھیوں نے ڈاکٹر صاحب کے لیے ایک چھوٹا سا خیمہ لگا رکھا تھا۔ ایک رات کھانے کے بعد مجھے لگا کہ اگر صبح کے اُگتے سورج کو اس خیمے کی آڑ سے کیمرے میں قید کیا جائے تو ایک شاہکار منظر بنے گا۔ یہی خیال لیے میں سو گیا۔
میں صبح بہت جلد جاگ گیا اور سورج کی تاک میں بیٹھ گیا۔ سورج کو اپنے وقت پر ہی نکلنا تھا لیکن انتظار بھاری لگنے لگا۔ جب سورج نکلا، تو میں نے صرف ایک کلک کی، جیسے خود سے کہہ دیا ہو "جو نکلے گا، قبول ہے۔”

ڈاکٹر اللہ نذر نے کہا "لا، تیرے فوٹو دیکھتا ہوں۔”
میں نے کیمرہ بڑھایا۔ سارے فوٹو دیکھنے کے بعد مجھے پاس بلایا
"توکل، کیا خوبصورت تصویر ہے۔ یہ بس میری ہے، کسی اور کو مت دینا۔”
میں نے وعدہ کیا: "واجو جان، یہ تصویر آپ کی امانت ہے، میں اسے کبھی استعمال نہیں کروں گا۔”

سال بیتتے گئے۔ ڈاکٹر اللہ نذر اپنی راہوں پر، میں اپنی۔ وہ تصویر بھی کسی ہارڈ ڈرائیو میں قید ہی رہا۔ آج دل کہتا ہے کہ اس امانت کو آزاد کر دوں، ایک طرف وعدے کی تقدیس، دوسری طرف دل کی گواہی کہ اس تصویر کا اس سے بہتر مصرف شاید ممکن ہی نہیں۔
چلو، آج دل کی سن لیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

وی بی ایم پی کے احتجاج کو 5878 دن مکمل، محمود علی لانگو کے والدہ کی احتجاج میں شرکت

پیر جولائی 14 , 2025
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جاری احتجاجی کیمپ تنظیم کے ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن نیاز نیچاری کی قیادت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج بروز پیر 5878 واں روز بھی جاری رہا۔ محمود علی لانگو کی والدہ نے احتجاج میں حصہ لیا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ