
شال میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کا علامتی احتجاجی کیمپ اتوار کے روز اپنے 5866ویں دن میں داخل ہوگیا۔
اس موقع پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے چیئرمین جیھند بلوچ، مرکزی جنرل سیکریٹری شیرباز، حسیب بلوچ اور دیگر ساتھیوں نے کیمپ کا دورہ کیا اور لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
اس موقع پر کیمپ آنے والے وفود نے وی بی ایم پی کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگی کو بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، جو بھی فرد بلوچ عوام کے سیاسی و سماجی حقوق کی بات کرتا ہے، اسے خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت ایک طرف محرومیوں کے ازالے کا تاثر دیتی ہے، لیکن دوسری طرف بلوچوں کے لیے پرامن سیاسی سرگرمیوں کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے تقریباً ہر خاندان کو متاثر کیا ہے۔ انھوں نے تمپ میں پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رواں ہفتے دو نوجوان، قاسم حیات اور افضل ولد مستری سبزل، کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، اور مقامی افراد کے مطابق اس واقعے میں ریاستی سرپرستی میں سرگرم مسلح گروہوں کا کردار ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں شاذ و نادر ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب کسی نہ کسی علاقے سے لاش برآمد نہ ہو یا کسی شخص کو جبری طور پر لاپتہ نہ کیا جائے۔

