زَبان، ذِہنی اِستِعمار : نَگوگی اور فینَن کی فِکر کا بَلوچ تَناظُر میں مُطالعہ

تحریر: رامین بلوچ -آخری حصہ
زرمبش مضمون

چینو اچیبےنے استعماری ادبیات کے اس متعصب اور یک طرفہ بیانیے کو چیلنج کیا جو افریقہ کو ایک غیر مہذب، غیر فکری، اور غیر انسانی خطے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب محض تخیل کا اظہار نہیں بلکہ ایک فکری اور اخلاقی جدوجہد ہے—ایک ایسا عمل جو مقبوضہ اقوام کو آواز دیتا ہے، مسخ تاریخ کو ازسرنو رقم کرتا ہے، اور مغلوب ذہنوں کو بیدار کرنے کا کام کرتا ہے۔

اچیبے کی نثر سادہ مگر معنویت سے بھرپور ہے، ان کے کردار قومی مگر عالمی معنویت کے حامل ہیں، اور ان کی کہانیاں مخصوص جغرافیہ سے نکل کر ایک آفاقی انسانی تجربے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کا تخلیقی وژن ہمیں بتاتا ہے کہ نوآبادیات کے خلاف مزاحمت بندوق کے ساتھ ادبی فکری سیاسی بیانیے اور زبان کی بازیافت ہے۔
اچیبے کی حیثیت صرف افریقی ادب کے معمار کی نہیں بلکہ وہ نوآبادیاتی عہد کے ان چند بڑے دانشوروں میں شامل ہیں جنہوں نے استعمار کے فکری، تہذیبی اور ادبی جبر کے خلاف شعور و آگہی کی ایک مکمل تحریک برپا کی۔ ان کا کام اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ ادب تفریح یا آرائشِ خیال کا وسیلہ نہیں، بلکہ ایک فکری جہاد ہے—جس کے ذریعے اقوام اپنی شناخت کو دوبارہ رقم کرتی ہیں اور تاریخ کے مسخ شدہ ابواب کو درست کرتی ہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کی سب سے مکار، مؤثر اور سفاک حکمتِ عملی "تقسیم کرو اور حکومت کرو” تھی۔ اس پالیسی کے تحت انہوں نے قومی سماجوں میں ، لسانی، قبیلوی ،مذہبی اور مسلکی اختلافات کو نہ صرف ہوا دی، بلکہ ان اختلافات کو مستقل منافرت اور داخلی تصادم کی شکل دے دی۔ نتیجتاً سماج کے مختلف اکائیاں ایک دوسرے سے متصادم ہو کر کمزور ہو گئے، اور یوں سامراجی تسلط کو قائم رکھنا نہایت آسان ہو گیا۔

معروف نائجیرین ادیب چینوا اچیبےکے مطابق یہ حکمتِ عملی ایک مخصوص خطے تک محدود نہ رہی بلکہ اس کا اطلاق تمام نوآبادیاتی خطوں میں یکساں طور پر کیا گیا۔ نائجیریا کی مثال لیتے ہوئے، ہم دیکھتے ہیں کہ ایبو، یوروبا، اور ہاؤسا قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے داخلی خلفشار اور خانہ جنگی کو فروغ دیا گیا۔

اسی استعماری طرزِ عمل کا مظاہرہ ہمیں بلوچستان میں بھی دکھائی دیتا ہے، جہاں مذہب کو مسلک میں، قوم کو قبیلے میں، اور مجتمع مرکزیت کو ذیلی قبیلوں ، زئیوں میں منقسم کر کے ایک بکھرا ہوا، متصادم اور غیر مربوط معاشرہ تخلیق کیا گیا، جس پر قبضہ اور حکمرانی آسان ہو گئی۔ اس تقسیم کے نتیجے میں استحصال صرف معاشی نہیں رہا بلکہ ثقافتی، روحانی، اور تہذیبی سطح پر بھی شدید اثرات مرتب ہوئے۔ ۔

چینوا اچیبے نے اپنے فکشن میں جس دقتِ نظر سے استعماری بیانیے اور "افریقی علم” کی ساخت کی نفی کی ہے، وہ ہمیں ایڈورڈ سعید کی شہرۂ آفاق تصنیف Orientalism کی یاد دلاتی ہے۔ استعمار نے محض سیاسی اور عسکری غلبہ حاصل نہیں کیا بلکہ تعلیمی اداروں، نصاب، زبان، اور تحقیق کے ذریعے ایک "علمی اجارہ داری” قائم کی۔ انگریزی زبان اور استعماری علمی معیارات کو برتر اور معیاری قرار دے کر قومی و علاقائی دانش، روایت اور زبان کو پسماندہ، غیر سائنسی اور دقیانوسی قرار دیا گیا۔ اس طرح دیسی باشندوں کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کی نجات صرف سامراجی فکر، مذہب اور طرزِ حکمرانی کے اندر مضمر ہے۔

یہی ذہنی غلامی، دراصل، نوآبادیاتی نظام کا سب سے مؤثر اور خطرناک ہتھیار تھی۔ جسمانی تسلط سے کہیں بڑھ کر ذہنی تسلط نے مقامی انسان کو اپنی شناخت، تاریخ، اور صلاحیتوں سے کاٹ دیا۔ چینوا اچیبے نے اس ذہنی استحصال کو اپنی تحریروں کا محور بنایا۔ اسنے اپنے تخلیقات میں افریقی زبان، روایت اور قومی شعور کے احیاء کی شعوری کوشش کی۔ ان کا یقین تھا کہ افریقہ کو اپنی کہانی خود سنانی ہوگی، کیونکہ جب تک "شکار کی کہانی شکاری سناتا رہے گا”، وہ ہمیشہ طاقت، قبضہ، اور تسلط کی زبان میں بیان کی جائے گی۔

اچیبے کے اس تخلیقی اور فکری جہاد کو محض افریقہ تک محدود کرنا غلط ہوگا۔ ان کی فکر دنیا کے تمام نوآبادیاتی سماجوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان

ادبیات اور سیاسی فلسفے میں ویلیئم بٹلر ییٹس کی نظم The Second Coming کا وہ مشہور مصرع "Things fall apart; the centre cannot hold” — آج بھی استعارہ بن کر ہماری تہذیبی اور فکری صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ جب مرکز کمزور یا منتشر ہو جائے، تو نظامِ حیات میں بکھراؤ ایک لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ مرکز صرف جغرافیائی یا سیاسی معنوں میں نہیں بلکہ تہذیب، زبان، ثقافت، اور تاریخ کے شعور سے وابستہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے مرکز، شناخت سے غافل ہو جائے تو وہ داخلی طور پر مضمحل اور خارجی جبر کے سامنے بےبس ہو جاتی ہے۔

نوآبادیاتی تجربہ محض سیاسی یا عسکری تسلط کی صورت میں ظہور پذیر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری، پیچیدہ اور ہمہ جہت ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا فکری، لسانی، ثقافتی اور نفسیاتی نظام ہے جو مقبوضہ اقوام کی خودی کو مجروح کرتا ہے، ان کی زبان کو بے توقیر بناتا ہے، اور ان کی تاریخ کو یا تو مٹا دیتا ہے یا مسخ کرکے انہیں خود اپنی شناخت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔

دنیا کی دیگر مقبوضہ اقوام کی طرح بلوچ قوم بھی اس نوآبادیاتی نظام کا شکار رہی ہے اور آج بھی مختلف شکلوں میں اس جبر کا سامنا کر رہی ہے۔ بلوچ سرزمین پر پنجابی استعمار ایک ایسے طاقتور استعماری نظام کی نمائندگی کرتا ہے جو بلوچ قوم کے قدرتی قومی وسائل، ثقافت، زبان اور شناخت پر مسلسل حملہ آور ہے۔ ایسے حالات میں لازم ہے کہ بلوچ قوم محض جذباتی ردعمل پر اکتفا نہ کرے، بلکہ فکری و نظریاتی محاذ پر ایک شعوری، منظم اور مربوط جدوجہد کا آغاز کرے۔

فرانز فینن، ایڈورڈ سعید، اور آیمے سیزر جیسے بلند پایہ مفکرین نے نوآبادیات کی ماہیت کو صرف سیاسی یا معاشی غلبے کی عینک سے نہیں دیکھا بلکہ اسے ذہنی غلامی، ثقافتی تسخیر، اور نفسیاتی محکومی کے عمل کے طور پر سمجھا۔ فینن کے نزدیک، نوآبادیاتی انسان کی بحالی اسی وقت ممکن ہے جب وہ خود اپنی تاریخ کا تخلیق کار بنے اور اپنی زبان و ثقافت کو خود اپنا معیار بنا کر اپنائے۔

بلوچ قوم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سانحہ رونما ہوا۔ اس کی زبان کو بتدریج حاشیے پر دھکیل دیا گیا، اس کی تاریخ کو یا تو حذف کیا گیا یا استعماری بیانیے کے تحت مسخ کیا گیا، اس کی ثقافت کو "وحشی” یا "غیر مہذب” قرار دے کر اسے شرمندگی کا باعث بنایا گیا، اور اس کے قدرتی وسائل کو استحصالی انداز میں لوٹا گیا۔ نتیجتاً، بلوچ قوم اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنادی گئی، جہاں آزادی قومی زبان، تاریخ اور شناخت کی بازیافت ایک چیلنج بن چکی ہے۔

اس پس منظر میں سب سے بنیادی سوال یہی ہے: ہم اپنی قومی وجود کو کیسے بحال کریں؟ فکری، لسانی اور ثقافتی استعمار کا توڑ محض سطعی نعرے بازی سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مسلح فکری و علمی محاذ پر ایک ہمہ جہت جدوجہد جاری ہے۔ جو صدیوں کی فکری خالی جگہ کو پر کررہی ہے یہ ایک ایسی جدوجہد جو استعماری بیانیے کو نہ صرف بے نقاب اور رد کررہاہے ۔

یہ بازیافت ایک داخلی انقلاب مزاحمت کے تقاضے میں جاری ہے۔ جو بلوچ تعلیمی نظام، ادبی روایت، علمی تحقیق، اور قومی مکالمے میں اس سوال کو مرکزی حیثیت دے چکا ہے کہ ہم کون ہیں، ہماری تہذیبی اساس کیا ہے، اور ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔

آخر میں، فینن کے الفاظ میں، "نوآبادیاتی انسان کی نجات تب ممکن ہے جب وہ نہ صرف استعمار کے خلاف کھڑا ہو بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیت سے ایک نئی تاریخ اور ایک نیا شعور تخلیق کرے۔” بلوچ قوم کے لیے یہی راستہ نجات کا ضامن ہے ۔ ایک فکری، تہذیبی اور تاریخی بازیافت کا راستہ، جو قومی خودی کو ازسرِ نو تعمیر کرنے کا عمل ہے۔
تاریخ جب استعماری قوتوں کی سیاسی یلغار اور ثقافتی بالادستی کا تجزیہ کرتی ہے تو وہاں صرف زمینوں کی لوٹ مار اور وسائل کی بندربانٹ ہی نہیں، بلکہ شعور کی غلامی، ذہنی استیصال اور شناخت کی مسخ شدگی بھی عیاں ہوتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کی سب سے خطرناک چال یہ نہیں کہ وہ قوموں سے ان کی زمین چھینتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اُن کے شعور، زبان، ثقافت، اور خودی پر بھی غلبہ پاتا ہے، اور ان کے فکری افق کو کالونائزر مصنوعی مرکزیت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔

فرانز فینن، بیسویں صدی کے ممتاز ماہرِ نفسیات، انقلابی مفکر اور نوآبادیاتی شعور کے بےباک ناقد، نے اس صورتِ حال کا نہایت گہرا اور دور رس تجزیہ پیش کیا۔ ان کا یہ مؤقف کہ "ثقافت براعظمی نہیں بلکہ قومی ہوتی ہے”، محض ایک لسانی یا تہذیبی دعویٰ نہیں، بلکہ ایک انقلابی بیانیہ ہے جو نوآبادیاتی معاشروں کو اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور پامال خودی کی بازیافت کی دعوت دیتا ہے۔

فینن کے نزدیک وہ ثقافت جو نوآبادیاتی تسلط سے قبل موجود تھی، اب محض ایک تاریخی مظہر ہے — ایک ایسا ماضی جو نہ صرف ناقابلِ واپسی ہے بلکہ اگر اس کی محض رومانوی یادداشتوں کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ تخلیقی جمود اور فکری پسماندگی کا سبب بن سکتی ہے۔ "ثقافتی احیا” کے نام پر جو تحریکیں بعض اوقات شروع کی جاتی ہیں، وہ اگر جدلیاتی تنقید سے عاری ہوں، تو صرف ایک جامد ماضی پرستی میں تبدیل ہو جاتی ہیں، جو نہ حال کی جدو جہد سے جڑتی ہے اور نہ مستقبل کی تعمیر کی صلاحیت رکھتی ہے۔

فینن زور دیتے ہیں کہ حقیقی ثقافت وہ ہے جو نوآبادیاتی جبر کے خلاف مزاحمت سے جنم لے؛ جو عوام کے اجتماعی شعور، ان کے زخم، خواب، اور جدوجہد کی آئینہ دار ہو؛ جو محض ماضی کی بازیافت نہیں بلکہ مستقبل کی تخلیق ہو۔ ایسی ثقافت، ان کے نزدیک، قومی آزادی کی جدوجہد میں پروان چڑھتی ہے اور آزادی کے بعد ایک نئی قومی تعمیر کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔

فینن ہمیں اس مغالطے سے نکالتے ہیں کہ ترقی کا واحد معیار یورپ مغرب یا قابض ہے۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ ہمیں نیویارک، پیرس یا لندن کی تقلید نہیں کرنی، کیونکہ ان شہروں کی چمک دمک استحصال، غلامی، اور خون کے دریا سے جنم لیتی ہے۔ ایسے ماڈل، جو انسانوں کی محنت، شناخت اور وقار کو روند کر ترقی کے بت تراشتے ہیں، مقبوضہ اقوام کے لیے باعثِ تقلید نہیں ہو سکتے۔

ان کے نزدیک ترقی وہی معتبر ہے جو اپنی جڑوں سے پھوٹے، جو عدل، مساوات، اور انسانی حرمت پر مبنی ہو؛ جو باہر سے درآمد شدہ نہ ہو بلکہ قوم کی داخلی بصیرت، اجتماعی ارادہ، اور تخلیقی قوت سے نمو پائے۔ یہ ترقی معاشی بھی ہو، سیاسی بھی، مگر سب سے بڑھ کر فکری اور ثقافتی ہو، جو ایک نئی آزاد سماج کے امکان کو جنم دے۔

فینن کی فکر استعمار کے خلاف سطحی ردعمل نہیں بلکہ ایک تخلیقی متبادل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ وہ استعماری ذہنیت کو فقط مسترد نہیں کرتے بلکہ اس کی تہہ در تہہ تحلیل کے بعد ایک نئی انسانی اور قومی حقیقت کی تشکیل کا راستہ تجویز کرتے ہیں۔ یہی وہ نکتۂ آغاز ہے جہاں سے مقبوضہ اقوام نہ صرف آزادی کو محسوس کرتی ہیں بلکہ اس کی تعبیر و تعمیر کا عمل بھی خود اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں۔
فرانز فینن ہمیں ترقی اور تہذیب کے استعماری بیانیے پر محض سوال اٹھانے ہی پر نہیں اکساتے، بلکہ ہمیں اس کے فکری، تاریخی اور سیاسی تناظر کو ازسرِنو پرکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ سامراج کی جس ترقی کو آج عالمگیر ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، وہ دراصل ایک مخصوص اور پرتشدد تاریخی سیاق کا نتیجہ ہے۔ایک ایسا سیاق جو نوآبادیاتی غلبے، سرمایہ دارانہ استحصال، اور عسکری طاقت کے امتزاج سے تشکیل پایا۔ فینن کے نزدیک، اگر نوآبادیاتی مظلوم اقوام اسی مغربی ماڈل کی تقلید کریں گی، تو وہ صرف استعماری ڈھانچے کو ایک نئے چہرے کے ساتھ زندہ کریں گی۔ یوں وہ خود استعماری نظام کے عکس بن جائیں گی، نہ کہ اس کا فکری یا عملی متبادل۔

فینن کی تنقید کسی ایک خطے تک محدود نہیں۔ اگرچہ ان کی جدوجہد اور تحریریں بنیادی طور پر افریقی پس منظر میں سامنے آئیں، لیکن ان کے افکار کی معنویت تمام نوآبادیاتی معاشروں پر منطبق ہوتی ہے۔ چاہے وہ الجزائر ہو، یا بلوچستان—ہر وہ خطہ جہاں نوآبادیاتی قوتوں نے عوام کے شعور، وسائل، اور خودی کو مسخ کرنے کی کوشش کی، وہاں فینن کی فکر نئی جہات کو روشن کرتی ہے۔

فینن کا مرکزی سوال یہی ہے: کیا ہم اپنی ترقی، اپنی تہذیب، اپنی شناخت کی بنیاد اس عوامی جدوجہد اور اجتماعی شعور پر رکھیں گے جو محکومی کے خلاف مزاحمت سے جنم لیتا ہے، یا ہم کسی نام نہاد "تہذیب یافتہ” طاقت کے استحصالی ماڈل کو نقل کریں گے؟

یہاں سے فینن کا فکری مقدمہ تہذیب و ثقافت کی روایتی تعریفات سے آگے بڑھتا ہے۔ ان کے نزدیک، ثقافت محض فن، موسیقی، لباس یا زبان کا مظہر نہیں بلکہ وہ سیاسی و فکری اساس ہے جو کسی قوم کی اجتماعی سمت کا تعین کرتی ہے۔ جب کوئی قوم آزادی کی جدوجہد سے گزرتی ہے تو اس کا ثقافتی شعور محض لوک ورثے کی بازیافت نہیں رہتا بلکہ ایک انقلابی عمل بن جاتا ہے۔ اس مقام پر ثقافت ایک فعال اور سیاسی قوت میں ڈھل جاتی ہے۔

فینن کا یہ کہنا کہ "ثقافت قومی شعور کی پیداوار ہونی چاہیے” محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ مؤقف ہے، جو کئی فکری مکاتبِ فکر کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس میں ہیگل کی جدلیات کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جہاں شعور اور تاریخ ایک دوسرے کو متشکل کرتے ہیں؛ یہ گرامشی کے نظریۂ ثقافتی بالادستی سے جڑتا ہے، جہاں سامراج ثقافت کے ذریعے عوامی شعور کو قابو میں رکھتے ہیں؛ اور یہ اینٹی کالونیل دانشوروں جیسے ایمی سیزر اور ایڈورڈ سعید کی فکری روایت کا تسلسل ہے، جو استعماری بیانیے کے خلاف ایک فکری محاذ قائم کرتے ہیں۔

فینن ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم آزادی کو محض جغرافیائی یا سیاسی آزادی کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ ایک ہمہ گیر شعوری، ثقافتی اور فکری آزادی کے طور پر اختیار کریں۔ ان کے نزدیک نوآبادیاتی معاشروں کو نہ صرف نوآبادیاتی قوتوں کے بنائے ہوئے سیاسی ڈھانچوں کو مسترد کرنا ہے، بلکہ اُن فکری اور تہذیبی سانچوں کو بھی توڑنا ہے جو غلامی کے دور میں عوام کے ذہنوں پر مسلط کیے گئے تھے۔

بلوچستان جیسے خطے کے لیے، یا دیگر نوآزاد ریاستوں کے لیے، فینن کا پیغام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سوال یہی ہے:
کیا ہم اپنی قومی ترقی اور ثقافتی تشکیل کی بنیاد اس تاریخی جدوجہد پر رکھیں گے جو ہماری عوام نے استعماری جبر کے خلاف کی؟ یا ہم سامراج کے بنائے ہوئے ماڈل کی اندھی تقلید کریں گے، جو بظاہر ترقی کا وعدہ کرتا ہے لیکن درحقیقت استحصالی ڈھانچوں کو قائم رکھتا ہے؟

فرانز فینن، نوآبادیاتی نظام کے نقاد اور استعماریت کے خلاف فکری و عملی مزاحمت کے علمبردار، ہمیں ایک گہری اور پیچیدہ حقیقت کی یاد دہانی کراتے ہیں: نوآزادی (post-colonial) کے بعد سب سے اہم اور فیصلہ کن معرکہ، عسکری یا سیاسی نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی ہوتا ہے، اور وہ معرکہ ہے "شناخت” کا۔

یہ شناخت محض رسمی یا سطحی اظہار کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر، تہہ دار اور داخلی عمل ہے، جو افراد ہی نہیں، پوری قوموں کے شعور، نفسیات، رویّوں اور تخلیقی اظہار کو متأثر کرتا ہے۔ فینن کے مطابق، آزادی کے بعد سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت اپنی شکل بدل کر نئی صورتوں میں باقی رہتی ہے؛ اور اگر اس سے شعوری طور پر نجات نہ حاصل کی جائے تو ظاہری آزادی بھی غلامی کے تسلسل کا ایک نیا روپ بن جاتی ہے۔

ایسی شناخت جو محض ماضی پرستی میں گم ہو جائے، ماضی کو صرف ایک مثالی سنہرے دور کی صورت میں دیکھے اور حال کی پیچیدگیوں سے نظریں چرا لے، وہ جمود کو جنم دیتی ہے۔ دوسری طرف، استعمار پرستی میں مفلوج ذہنیت اپنی فکری خودمختاری کو گروی رکھ کر تقلید اور تعظیم کی راہوں پر چل پڑتی ہے، جہاں اپنے وجود کی نفی اور دوسرے کے معیار کی پرستش ہوتی ہے۔ فینن ایسے دونوں رویّوں کو استعماری ذہنیت کا تسلسل سمجھتے ہیں۔

حقیقی شناخت وہ ہے جو اپنی مٹی سے جنم لے — اس سرزمین کے خوابوں، دکھوں، امیدوں، محنتوں اور قربانیوں سے تشکیل پائے۔ یہ وہ شناخت ہے جو قوم کی اجتماعی جدوجہد سے پروان چڑھے، جو ماضی کے ورثے کو تنقیدی شعور سے پرکھے اور حال کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر مستقبل کی تشکیل کرے۔ یہ شناخت کسی امپورٹڈ فکر کی مرہونِ منت نہیں، بلکہ اپنی انسانی قدروں، تہذیبی شعور اور فکری آزادی سے جڑی ہوتی ہے۔

اسی شعوری، خودمختار اور تخلیقی شناخت میں ہی حقیقی آزادی کا امکان پنہاں ہے۔ یہی وہ فکری و ثقافتی اثاثہ ہے جو اقوام کو محض سیاسی وجود سے آگے بڑھا کر تہذیبی معنویت بخشتا ہے۔ یہی وہ شناخت ہے جو ثقافت کو زندہ رکھتی ہے، زبان کو بامعنی بناتی ہے، فن کو روح عطا کرتی ہے، اور تاریخ کو ایک زندہ تجربہ بناتی ہے۔

فینن کا پیغام آج بھی ہمارے لیے ایک فکری چیلنج ہے: کیا ہم اپنی شناخت کو نوآبادیاتی زنجیروں سے آزاد کر پائے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے وجود کو صرف رد یا قبول کی دو انتہاؤں سے نکال کر تخلیق کی راہ پر ڈالا ہے؟ جب تک ہم اس سوال کا سامنا نہیں کرتے، تب تک ہماری آزادی ادھوری، اور ہمارا تہذیبی وجود متزلزل رہے گا۔

پنجابی استعمار کو محض ایک قوم کی بالادستی کے محدود تناظر میں دیکھنا حقیقت کا ادھورا ادراک ہوگا۔ درحقیقت، یہ ایک منظم، ہمہ گیر اور مربوط سیاسی، عسکری اور معاشی قبضہ کا نظام ہے
بلوچستان میں پنجابی استعمار کی موجودگی اور اس کے اثرات مختلف مظاہر کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ وسیع پیمانے پر قائم کی گئی فوجی چھاؤنیاں، قدرتی وسائل پر غیرمقامی قبضہ، زبان و ثقافت کی منظم نفی، تعلیمی نصاب میں تاریخی مسخ، اور سیاسی قیادت کی جبری گمشدگیاں ۔ یہ سب ایک ایسے نوآبادیاتی طرزِ فکر کے مظاہر ہیں جو صرف جسمانی تسلط پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ذہنی و فکری غلامی کو بھی ریاستی بیانیے کے ذریعے مسلط کرتا ہے۔

یہ سامراجی حربے محض طاقت کا اظہار نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ایک گہرا فکری حملہ ہیں، جن کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو ان کی تاریخ، تہذیب، اور قومی شعور سے کاٹ کر ریاست کے یک رخے بیانیے کا حصہ بنانا ہے۔ ان کی شناخت کو مسخ کرکے ایک ایسی غیر فطری وحدانی قومیت مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو تنوع کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے خطرہ سمجھتی ہے۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ فکری مزاحمت، اور عسکری مزاحمت میں توازن زیادہ دیرپا، گہری اور ثمرآور ہوتی ہے۔ وہ اقوام جو اپنی زبان، تہذیب، اور فکری روایتوں سے جڑی رہتی ہیں، وہ استعمار کے بیانیے کو صرف مسترد ہی نہیں کرتیں بلکہ اسے ہر محاذ میں شکست بھی دیتی ہیں۔ بلوچ قوم کے لیے بھی یہی راستہ نجات اور بقا کا ضامن ہے۔

پنجابی استعمار کے خلاف مزاحمت کو بندوق کے ساتھ ہمیں اس سامراجی بیانیے کے خلاف ہر فکری، تعلیمی، ادبی اور تہذیبی محاذ پر متحرک ہونا ہوگا۔ ہماری زبانیں — بلوچی اور براہوی — محض رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ ہمارے شعور، تاریخ، اور شناخت کی امین ہیں۔ ہمارا لوک ادب، شاعری، رزمیہ داستانیں، موسیقی اور تہوار وہ زندہ مظاہر ہیں جن کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی شناخت کا تحفظ کر سکتے ہیں بلکہ استعمار کے ثقافتی حملوں کا بھرپور جواب بھی دے سکتے ہیں۔

ادب و علم کی زبان میں یہ شعوری مزاحمت ایک نظریاتی جدوجہد ہے، جو نسلِ نو کو اپنی تاریخ، روایت، اور مزاحمتی فکر سے جوڑنے کا عمل ہے۔ ہمیں اپنی تحریروں، تحقیق، نصاب، اور ادبی تخلیقات کے ذریعے یہ پیغام عام کرنا ہوگا کہ استعمار خواہ جس شکل میں ہو، اس کا توڑ جنگ آزادی سے ہی ممکن ہے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ بلوچ قوم کی بقا جغرافیائی خودمختاری کے ساتھ تہذیبی اور فکری خودمختاری سے مشروط ہے۔ ہمیں اپنے ادبی سرمائے کو زندہ رکھ کر، اپنی زبانوں کو فروغ دے کر، اور علمی میدان میں خود کو منوانے کے ذریعے ایک ایسا فکری قلعہ تعمیر کرنا ہوگا جہاں سے استعمار کے بیانیے کو للکارا جا سکے ۔
استعمار کی سب سے بڑی کامیابی یہ نہیں کہ اس نے زمینیں فتح کیں یا وسائل پر قبضہ کیا، بلکہ اس کی اصل کامیابی اس نکتہ فکری میں مضمر ہے کہ اس نے مقبوضہ اقوام کو ان کی اپنی شکست پر قائل کر دیا۔ جب کوئی قوم اپنی ہزیمت کو مقدر، اپنی غلامی کو حقیقت، اور اپنے استحصال کو فطری سمجھنے لگے تو سمجھ لیجیے کہ استعمار نے نہ صرف اس کی سرزمین بلکہ اس کے شعور پر بھی قبضہ جما لیا ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں استعمار جسمانی غلامی سے بڑھ کر ایک فکری تسلط کی صورت اختیار کر لیتا ہے—ایسا تسلط جو انسان کو اس کی ذات، اس کی تاریخ، اس کی ثقافت، اور اس کی وجود سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اسی فکری نوآبادیاتی نظام کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی ذہنی تطہیر (decolonization of consciousness) کا آغاز کریں۔ اور ذہنی تطہیر کا اولین مرحلہ یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادیت اور اجتماعیت کو استعمار کی نفی کے ذریعے دریافت کریں۔

ہمیں بطور قوم اپنی تعلیمی پالیسی، ادبی رجحانات، ذرائع ابلاغ، اور قومی بیانیے کو ازسرِ نو مرتب کرنا ہوگا۔ یہ ازسرِ نو تشکیل محض ایک انتظامی یا سیاسی ضرورت نہیں، بلکہ یہ ایک فکری و تہذیبی احیا کی کاوش ہے۔ ہر بلوچ فرد کو اس شعور سے بہرہ ور کیا جانا چاہیے کہ ان کا وطن ایک "صوبہ” نہیں بلکہ ایک تاریخی مملکت ہے۔ایسی قوم جو ہزاروں سال کی تہذیبی تاریخ، کثیر النسلی ،کثیر اللسانی ورثے، اور ایک مخصوص ثقافتی شناخت کی امین ہے۔ اس قوم کی سرزمین، زبانیں، اور ثقافت محض علامتی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ اس کے ناقابلِ تنسیخ حقِ آزادی کی بنیاد ہیں۔
ہمیں بحیثیت قوم فکری، ثقافتی اور سیاسی سطح پر یک زبان، یک دل اور یک جہت ہو کر استعمار کے ہر محاذ پر ہمہ گیر مزاحمت کرنی ہوگی۔ یہ مزاحمت عسکری یا احتجاجی نوعیت کے ساتھ اس کی جہتیں کہیں زیادہ گہرائی اور وسعت کی حامل ہو۔ ہمیں علمی تحقیق، شعوری بیداری، ادبی اظہار، فلسفیانہ مکالمے اور ایک جامع و مؤثر بیانیے کی تشکیل کے ذریعے استعمار کے فکری اور نظریاتی تسلط کو چیلنج کرنا ہے۔
۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم استعمار کی شہ رگ پر ہاتھ ڈالیں، یعنی اس کے فکری و ثقافتی ایجنڈے کو بے نقاب کریں، اور اپنی فکری خودمختاری کو اس انداز سے استوار کریں کہ استعماری بیانیے ہمارے فکری نظام کو متاثر نہ کر سکیں۔

یہ مزاحمت اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنے سیاسی اداروں، رسمی و غیر رسمی علمی مراکز، اور قومی ذرائع ابلاغ میں اس خودی کو زندہ نہ کریں جسے استعمار نے منظم طور پر پامال کیا ہے۔ یہی خودی ہماری فکری و تہذیبی نجات کی بنیاد ہے اور یہی ہمارے قومی وجود اور بقا کی ضمانت ہے۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ فکری آزادی کے بغیر سیاسی آزادی کا تصور ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا ہماری اصل جدوجہد ایک ایسی ہمہ جہت آزادی کے لیے ہونی چاہیے جو ہماری زمینی جغرافیائی ذہنی، شعوری اور فکری سطح پر بھی مکمل آزادی کی ضامن ہو۔

ہمیں ایک ایسا سماج تشکیل دینا ہوگا جہاں ہر فرد، ہر باشعور باسک ، اپنے حقِ آزادی سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ اس آزادی کے تحفظ اور فروغ کو اپنا اخلاقی، فکری اور قومی فریضہ سمجھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص خود کو ایک فکری سپاہی تصور کرے — ایسا سپاہی جو بندوق، قلم، زبان، علم، ادب اور فکر کے ذریعے نہ صرف استعمار کی ہر قسم۔ کی یلغار کو پسپا کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

قابض پاکستانی فوج اور وسائل لوٹنے والی گاڑیوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

جمعہ جون 27 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرمچاروں نے قلات اور مستونگ میں دو مختلف کارروائیوں میں قابض پاکستانی فوج کے مرکزی کیمپ اور معدنیات لے جانے والی گاڑیوں کو حملوں میں نشانہ بنایا۔ ترجمان نے کہا کہ بی ایل اے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ