
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان عید کو عقیدت، احترام اور مذہبی جذبے سے منا رہے ہیں، مگر بلوچستان میں لوگ اس دن بھی گھر کے آنگن میں بیٹھے اپنے پیاروں کی عقوبت خانوں سے واپس لوٹ آنے کی آس لگائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی اپنے شوہر، کوئی اپنے بھائی، کوئی اپنے بیٹے تو کوئی بیٹی اپنے والد کے زندان سے زندہ سلامت واپس آنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ اس بار تو ایک بہن بھی اپنے بھائی کے ساتھ جبری گمشدگی کا نشانہ بنائی گئی ہے، جو تاحال لاپتہ ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت 3 MPO کے تحت پابند سلاسل ہے۔ ہر سو ایک کرب کا عالم ہے، ہر دوسرا گھر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ماتم کناں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ “میں، سمی دین بلوچ، گزشتہ 16 سال سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں۔ شاید بھول چکی ہوں کہ عیدیں اور عید کی خوشیاں کیا ہوتی ہیں۔”
سمی دین بلوچ نے کہا کہ بلوچستان جل رہا ہے۔ مسخ شدہ لاشیں اور جعلی انکاؤنٹر کا سلسلہ 2014 کے بعد دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے جبری گمشدگی کو اب کالے قانون کے تحت قانونی بنانے کا بل بھی پاس کر دیا ہے۔
جن وارداتوں نے بلوچستان کو اس نہج تک پہنچایا ہے، ان زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں کرید کر تازہ زخم دیے جا رہے ہیں۔