
25 مئی 2019 کو پاکستانی فورسز نے علاؤالدین کشانی کو نوشکی کے علاقے بھٹو سے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔ آج ان کی گمشدگی کو چھ سال مکمل ہو چکے ہیں اور ساتواں سال شروع ہو چکا ہے، لیکن تاحال وہ بازیاب نہیں ہو سکے۔
علاؤالدین کشانی جو کوئٹہ ڈگری کالج کے طالبعلم اور دالبندین کے علاقے کلی قاسم خان کے رہائشی تھے، تعلیم کے سلسلے میں کوئٹہ میں مقیم تھے۔ ان کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ ان کی جبری گمشدگی نے ہمیں شدید ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان چھ برسوں کے دوران ہم نے جو تکلیف، بےیقینی اور انتظار جھیلا ہے، اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ اگر علاؤالدین کشانی نے کوئی غیرقانونی عمل کیا ہے، تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ قانون کے مطابق کارروائی ہو۔ لیکن اگر وہ بےگناہ ہے، تو اسے فوری طور پر رہا کیا جائے۔
انہوں نے ریاستی اداروں، بلوچ عوام، انسانی حقوق کے عالمی اداروں، سول سوسائٹی اور کارکنان سے اپیل کی ہے کہ وہ علاؤالدین کشانی کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں، تاکہ یہ بےگناہ نوجوان جبری گمشدگی اور ٹارچر سیلز سے نجات پا سکے اور اس کا خاندان سکون کا سانس لے سکے۔