تحریر : ایم بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچستان کی آزادی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی جڑیں تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی عوامل میں پیوست ہیں۔ یہ صوبہ 1947 سے پاکستان کا حصہ ہے، تاہم بہت سے بلوچ عوام پسماندگی، محرومی اور ریاستی استحصال کے باعث طویل عرصے سے زیادہ خودمختاری یا مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آزادی کو متاثر کرنے والے اہم عوامل:
معاشی استحصال: بلوچستان قدرتی وسائل، بالخصوص گیس اور تیل، سے مالا مال ہے، جن کی مجموعی مالیت ایک ٹریلین ڈالر تک بتائی جاتی ہے۔ تاہم، صوبے کو ان وسائل سے برائے نام ریونیو حاصل ہوتا ہے، اور مقامی آبادی وفاقی حکومت کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہے۔
ثقافتی اور لسانی فرق: بلوچ عوام کی اپنی جداگانہ ثقافت اور زبان ہے، جسے وہ پاکستان کی ریاستی پالیسیوں میں تسلیم شدہ اور قابلِ احترام نہیں سمجھتے۔ یہ احساس محرومی ان کی قومی شناخت کے بحران کو مزید گہرا کرتا ہے۔
تاریخی شکایات: بلوچستان کی مزاحمتی تاریخ نوآبادیاتی برطانوی دور سے جڑی ہوئی ہے، جب بلوچ قبائل نے بیرونی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی۔ یہی تاریخی شعور آج بھی تحریکِ آزادی کو مہمیز دیتا ہے۔
سیکیورٹی خدشات: بلوچستان کو شدید ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا ہے، جس سے مقامی آبادی میں ریاست سے بیگانگی میں اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ صورتحال:
بلوچستان کی صورتحال بدستور غیر مستحکم ہے۔ ایک جانب مظاہرے، عسکریت پسندوں کے حملے اور ریاستی آپریشنز جاری ہیں، تو دوسری جانب چائنا-پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) جیسے منصوبے بھی تنازعے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے بلوچوں کو خدشہ ہے کہ یہ منصوبے ان کے وسائل کے مزید استحصال اور مقامی آبادی کی جبری بے دخلی کا باعث بنیں گے۔
ان تمام پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ بلوچستان کی آزادی قریب ہے یا دور، تاہم یہ بات واضح ہے کہ صوبے کا مستقبل اس بات سے وابستہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور عالمی برادری ان بنیادی سیاسی، معاشی اور انسانی عوامل سے کس طرح نمٹتی ہے۔